1940کا سال وہ یاد گار لمحہ جب قراداد پاکستان منظور ہوئی
تھی ۔ امید کی ایک کرن پیدا ہوئی تھی برصغیر کے مسلمانوں میں ایک علحیدہ
ملک کو حا صل کرنے میں ، ۔ لیکن وہ صبح اتنی طویل ثا بت ہوئی کہ اس ملک کا
خواب دیکھنے والا اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ دنیا آج بھی اسے ایک عظیم
شاعر اور ایک عالم دین کے نام سے جانتی ہے ۔ یہ ان کی کوشیشوں کا ثمر تھا
کہ محمد علی جناح نے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کا ذمہ اپنے سر لیا ۔ سات
سال اور لگے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں بالا آخر چودہ اگست انیس سو
سنتالیس کی وہ صبح طلو ع ہوئی جس کا سب کو انتظار تھا۔اس صبح کے سور ج کی
روشنی میں گرہن تھی ہزاروں لاکھو ں قربانیوں کا بوجھ اٹھا ئے وہ نمودار ہوا
تھا اس ورشنی میں ما ل ،زراورلاکھوں روحوں کی قربانیا ں تھی ۔ لیکن اس صبح
کاوہ سورج ایک امید کی کرن لے کر طلوع ہوا تھا ۔ایک بہتر کل کی امید ، ایک
بہترین مستقبل کی امید اور سب سے بڑھ ان خوفناک خوابوں سے چھٹکارا تھا جن
سے پہلے واسطہ پڑ چکا تھا ۔یقین دلایا گیا اب یہاں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔
دنیا کے لیے ایک رول ماڈل ملک ہو گا ۔ پلا ننگ، لائق آفیسران اور مال وذر
کی تنگدستی کے باوجود جب قائد اعظم محمد علی جنا ح نے پہلا خطاب کیا تو
ایسا لگا سب کچھ تو موجود ہے بس صرف کچھ وقت چاہیے دنیا کو رول ماڈل بنا کر
دکھانے میں ۔انہوں نے کہا ـ’’ سر زمین کا یہ ٹکڑ ااس لیے حا صل کیا کہ جہاں
پر ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں ــ‘‘لیکن بدقسمتی سے قائد
اعظم محمد علی جنا ح صرف تیرہ ماہ ہی زندہ رہے ۔ کچی بنیادوں کو ابھی
سنبھلنے کا موقع ہی ملا تھا کہ قائد کی رحلت دیکھنی پڑی ۔ شاید وہی وقت تھا
جب ان بنیادوں نے ڈگمگا نا شروع کر دیا ۔ اندورنی انتشار ، مذہبی اور مسلکی
اختلافات اورمختلف معاشروں کی اونچ نیچ جو منہ کھولے کھڑے تھے جھپٹنے کا
موقع مل گیا ۔اس طرح سے یہ رگوں اور ذہنوں میں سما گئے کہ د ہائیا ں گزر
گئی ہم ان سے چھٹکا ر ا حا صل نہیں کر سکے۔دیمک کی طرح یہ ہمیں کھائے جا
رہیں اور ہم جان کر بھی انجا ن بنے ہوئے ہیں ۔ ان ہی اختلاف کی وجہ سے ہم
ایک لاکھ سنتالیس ہزار پانچ سو ستر کلو میٹر رقبے سے محروم ہوئے ۔ان کا
سرکاری مذہب آج بھی اسلام ہے ،آج بھی وہاں کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے ہا
ں اگر زبان کا فرق تھا زبا ن تو ہر بیس کلومیٹر بعد اپنے اند ر الفاظ کی
تبدیلی لاتی ہے تو پھر یہی مسائل تھے جن کو ہم حل نہیں کر سکے ۔ ۔یہ مسائل
جو 1947کے بعد آنے والے چند دنوں میں حل کرنے تھے ہم آج بھی ان ہی کا رونا
رو رہے ہیں ۔ یکے بعد دیگرے ہمارے معاشروں میں مختلف اوقات کار میں ہمیں ان
کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ْ کم علمی ،جھوٹی تہمت اورٹھوس ثبوتو ں کے بنا ء ہم
جیسے چاہیں کسی کی زندگی جہنم بنا دیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔سنی ان سنی
پر ہم لاؤ لشکر تیار کر دیتے ہیں اپنے اندر جھانکنے کی کوشش نہیں کریں گے
چاہے کتنی بار ہی اس کی ضرورت پڑے ۔یہ کام کچھ بحثیت فرد اپنے اپنے ضمیر کے
بھی تھے اور کچھ اقتدار کی مسندنوں پر بیٹھے ہوئے ارباب اختیار کے بھی تھے
۔ دونوں نے مل جل کر اس پر وقت کا ضیائع بھی کیا اوراول فضول کی باتیں بھی
۔ رزلٹ یہ سامنا آیا کہ آج مختلف ناموں میں بٹی ہوئی قوم دیکھنے میں مل رہی
ہے ۔ چھوٹے چھوٹے فقہی مسائل پرایک دوسروں کی زندگیاں کو برباد کر دینا آ ج
سب کا پسند دید ہ مشغلہ بن چکا ہے ۔ جن ہستیوں کے ناموں پر یہ کام کیے جا
رہے ہیں ان کی تعلیما ت سے بالکل ہی نا واقف ہیں نہیں جانتے کہ انہوں نے
اپنی پوری زندگیاں ہی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی ۔ انسانیت کی
تمیز مذہب کے دائرے کا ر سے کہیں اونچی ہے ۔ بیمار بوڑھیا نے جب کچھرا
پھینکا بند کیا تو پتہ چلا وہ بیمار ہے تو تیماداری کرنے گھر چلے گئے اس کے
گھر کی صفائی کی صحت یابی کی دعا کی ۔ عبدالﷲ بن عبی کی آخری سانسیں چل رہی
تھی آپﷺ کے حکم پر پانی کا گلاس دیا انکار کرنے پر بیٹے نے باپ کی جان لینے
کی کوشش کی یہ کہہ کر روک دیا میں دونوں جہانوں کے لیے رحمت المین بن کر
آیا ہوں ۔ ابو بکر صدیق جنگ کا دور تھا سازو سامان اور غذا کی کمی تھی گھر
کا سارا سامان پیش کر دیا پوچھا گھر پر کیا چھوڑا فرمانے لگیں اﷲ اور اس کے
رسول کی برکات ۔ علی کرم وجہہ کو نصحیت کی جنگ میں غیر مسلم عورتوں ،بچوں
اور بوڑھوں کو نقصا ن نہ پہنچے ۔ اپنی امت کی خیر خواہی اس حد تک عزیز تھی
جب حا لت نزع طاری تھی جبرائیل امین نے پوچھا تو جواب ملا میری امت کا کیا
بنے گا اس وقت تک اﷲ تعالی سے دعا مانگتے رہے جب تک امت کی بخشیش نہیں
کروائی۔ امت میں تو سب ہی تھے مسلم غیر مسلم ۔ حا ل ہی میں ایک مذہبی جماعت
کی طرف سے پورا ملک بند کر کے رکھ دیا تھا ۔ تین دن تک پوری دنیا نے اس کا
تماشا دیکھا ۔جس طرح کے پیغامات سننے میں آرہے تھے ملکی اداروں کے بارے میں
میمبر،خانقاہوں اور دینی اداروں کی یہ روایت نہیں رہی ہیں ۔ان جگہوں سے
ہمشہ صلح ،روادری اور بھائی چارے کی تلقین کی گئی ہے ۔جس زبان اور جو طریقہ
کار آپ نے اختیار کیا ہوا ہے اسلام میں تو اس کی گنجائش ہی نہیں تو آپ کون
سے اسلام کے پہرادار بنے ہوئے ہیں کیوں دین اسلام کا ایک غلط امیج دے رہے
ہیں بھول گئے ہیں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے پہلی بار جب
پورا ملک بند کیا تھا کیا کسی کو نہیں پتہ کس مقاصد کے تحت یہ سب کچھ بند
ہوا تھا ۔ اور جو کچھ آج کر رہے ہیں کیا یہ درست ہے دونوں بار میں کتنی
قیمتی جانیں چلی گئی ہیں اس کا کچھ احساس نہیں ۔کیا آپ کو یاد نہیں’’
مسلمان وہ ہے جس کی ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہو ں ‘‘کیوں نہیں
اس طریقہ کار پر بھروسہ کہ جس کے ذریعے صرف کچھ دن پہلے یورپ سے پوری دنیا
کے لیے ایک مثا لی فیصلہ آیا کہ ’’ مذاہب کی توہین آزادی اظہار رائے نہیں
‘‘ کیوں اس ملک کا ایک غلط امیج بنا رہیے ہیں ۔آئیں کچھ خامیاں اگر آج سسٹم
میں موجود ہیں تو اس کی سزا سب کو نہ دو ۔مل بیٹھ کر ان کو حل کرو کب تک یہ
احتجاج ،جلاؤ گہراؤ کے راستے پر چلیں گے ۔ خدا کے لیے چھوڑ دو یہ سب کچھ آپ
سے ہاتھ جوڑ کر التجا ہے اپنی زاتی خوا ہشات سے باہر آؤپاک ہستیوں کی دی
ہوئی تعلیمات پر خود بھی عمل کرو اور اسے دوسرں تک پھیلاؤ ۔ دین اسلام
بھلائی ، درگزر اور سلامتی کی پہچان اور پیغام ہے ۔ اسے دوسروں تک پھیلانے
کی کوشش کریں ۔ آپس کے مسلکی مسائل سے باہر آئیں ۔ اس ملک کی بھلائی اور
بہتری کے لیے مل جل کر رہیں ۔ر یاست اور ملک کے مفاد میں کام کریں اپنی
طاقت کا غلط استحمال نہ کریں اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ایک بہترین کل
آج ہماری راہیں دیکھ رہا ہے اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے دو۔ |