خبر ہے کہ لاہور میں ڈولفن پولیس والوں نے چھری لے
کر گھومنے والے ذہنی معذور نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ، یعنی انسان
اور باؤلے کتے میں فرق مٹ کے رہ گیا ہے ، نوجوان کے لواحقین نے احتجاج کیا
تو ایک سینئر افسر خود دھکے دینے لگا جے دیکھ کر ماتحت بھی ورثاء پر پل پڑے
،تربیت کی کمی ہے ،رعونت، تکبر یا طاقت کا نشہ ۔۔۔؟عوام کو پیٹتے ہوئے کسی
پولیس والے کا ہاتھ نہیں رکتا ، پولیس کی یہ’’ ہتھ چالاکی ‘‘کیسے رکے گی
اگر سینئر افسران بھی عوام کو خود مارنے لگیں گے ، اس افسر سے کوئی پوچھے
کہ کیا اولاد کے یوں مارے جانے پر آہ وبکا اور احتجاج بھی جرم ہے ، یہ کون
سے مہذب معاشرے کی مثالیں ہیں ،انسانیت کی اتنی بے توقیری۔۔۔۔ اتنی توہین ،
ان سے ایک بندہ جو ذہنی مریض ہے وہ زندہ گرفتار نہیں کیا جاسکا، عوام کا
خون اتنا ارزاں ہو چکا ہے کہ انہیں باؤلے کتے کی طرح سڑک پر پھڑکا دو
۔۔۔۔یہاں تو 20کروڑ میں سے آدھے سے زیادہ ذہنی مریض پھر ر ہے ہیں ،کیا سب
کو گولی مار دو گے ۔۔۔؟بے حس معاشرے کی پولیس عوام سے زیادہ بد چلن ہے ،
توقع کے عین مطابق مرنے والے پر ہی ایف آئی آر درج ہوگئی ہے کہ اس نے چھری
سے ڈولفن پولیس اہلکار پر حملہ کیا تھا ، شہباز شریف نے شاید اس غیر تربیت
یافتہ ڈولفن فورس کو عوام کو گولیاں مارنے کے لئے گلی گلی چھوڑا تھا ،
انگریز کی بری نشانی پولیس کے کارنامے ہیں کہ رکنے میں نہیں آرہے ،کراچی
میں 3من وزنی بیمار شخص کو پولیس نے ڈاکو قرار دے کر پار کر دیا ، کسی
اہلکار کو بندہ پھڑکاتے ہوئے ذرا سا بھی خوف نہیں آتا اسے معلوم ہے کہ
پولیس کو عوام پر اپنا رعب قائم رکھنا ہے ، افسران کی طرف سے ہدایات بھی
یہی ملتی ہیں ، چنانچہ پولیس کا لوگوں پر اتنا خوف طار ی ہو چکاہے کہ ابھی
شہر میں نئے آنے والے افسر نے چارج تک نہیں لیا ہوتا کہ شہری گلدستے لے کر
چوکھٹ پر پہلے ہی کھڑے ہوتے ہیں جیسے نئے افسر کشمیر فتح کر کے آئے ہوں ،
بھئی کس چیز کا ویلکم ہو رہاہے ، تفتیش کے نام پر عوام کو ذلیل کرنے اور
جھوٹے کیسز میں جعلی شناخت پریڈ کر کے جعلی چالان، جعلی ضمنیاں تیار کر کے
والے نکمے ادارے کے افسروں کو پھول پیش کرتے وقت تھوڑا سوچ لینا چاہئے کہ
تھانوں میں عوام کا کیسے ستیا ناس ہو رہا ہے ، مدت سے یہی دیکھا ہے کہ بغیر
سفارش کوئی رپٹ درج کرانے نہیں جا سکتا،چلا جائے تو زندہ اور صحیح سلامت
واپسی مشکل ہے۔۔۔۔ ،اسی لئے پر لے درجے کے نالائق سیاستدان بھی عوام کی اس
مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ انکے فون کے بغیر تھانے میں سیدھے منہ
کوئی بات بھی نہیں کرتا، رپٹ درج ہو بھی جائے تو نوابوں جیسے تفتیشی افسران
ملزمان کومہمانوں والا پروٹوکول دیتے اور مدعیان سے ملزمان والا رویہ
اختیار کئے ہوتے ہیں ،میں نے گوجرانوالہ کے تھانوں میں یہ سلوک اپنی آنکھوں
سے دیکھا ہے،عوام کے ساتھ اس بدسلوکی پر کڑھتے رہنا معمول بن گیاہے ، اس
موضوع پر لکھ لکھ قلم بھی تھک گیا ہے مگر حکومت سے لے کر عدالت تک ڈرامے
بازی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ، پولیس کے عدم تعاون پر عام آدمی رٹ
پیٹیشن دائر کرے تو وکیل کی فیس ادا کرنے اورعدالتی عملے سے لٹ جانے کے بعد
جج تک پہنچتا ہے اور جج صاحب پھر واپس اسی تھانے میں تفتیش بھیج دیتے ہیں
جہاں سے ذلیل ہو کر ٹھوکریں کھاتا ہوا یہ عام آدمی عدالت کا دروازہ
کھٹکھٹانے پہنچاتھا ، اس ہتک آمیزسلوک اس ظالمانہ فرسودہ نظام پر کوئی نہیں
بولتا ،پ ، ان بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افسروں کو اتنا ظلم دیکھ کر نیند
کیسے آجاتی ہے ، پولیس کی بد دیانتی کا کا یہ حال ہے کہ ایک طرف جھوٹی
درخواستوں پر پورا محلہ اور ملزم کا پورا خاندان اٹھا کر تھانے میں بند کر
دیا جا تا ہے ، دوسری جانب مقتولین کے ورثاء میتیں سڑک پر رکھ کر ماتم بپا
کرتے ہیں مگر انکی کوئی نہیں سنتا ، میرا چیلنج ہے کوئی بھی مقامی اعلیٰ
افسر سائل بن کر میرے ساتھ کسی بھی تھانے میں دادرسی کے لئے داخل ہونے کی
جرات کر کے دیکھ لے، اسکا وہ حشر ہو گاکہ دو منٹ میں اسے اپنا تعارف کرانا
پڑ جائے گا ، تھانوں میں سول معاملات پولیس مداخلت معمول کی بات ہے ، لوگوں
کے لین دین کے معاملات ، اراضی کے قبضے دینے لینے ہوں تو پولیس سے بہتر
خدمات کہیں اور نہیں مل سکتیں، اصلاح کے لئے یہ یقین پیدا کرنا چاہئے کہ
رزق تو اﷲ نے ہر حال میں دینا ہی ہے ،دیہاڑی لگانے تو ڈکیٹ بھی نکلتا ہے ،
پولیس والا بھی اسی نیت سے ڈیوٹی پر آئے تو دونوں میں فرق باقی نہیں رہتا ،
عوام کے ساتھ بھلائی کریں گے تو دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی ہی ملے گی
، انسانوں سے جانوروں والا سلوک بند کر دیں ، بے گناہ بیٹے مار کر ماؤں کی
آہیں مت لیں،حکمران بھی ڈرامے بازی کی سیاست چھوڑیں اور خدمت کو اپنا شعار
بنائیں ورنہ یوم حساب تو آ کے ہی رہے گا ، یہ اﷲ رب العزت کا وعدہ ہے۔
گوجرانوالہ میں سی آئی اے پولیس کے ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ آئے دن کسی
نہ کسی گینگ کو گرفتار کرتے ہیں ، انکی شہرت مشکل سے مشکل کیسز کو حل کرنے
کی ہے ، مدت سے انکی یہی شاندارکارکردگی چلی آرہی ہے ،چنانچہ بہت سے کیسز
میں عوام کی خواہش ہوتی ہے کہ تفتیش انہی کے سپرد کی جائے ، پولیس کے نئے
افسران اور دیگرجونیئرز کو انکی کارکردگی سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور ان
جیسے افسر کوا پنا رول ماڈل بنانا چاہئے ۔ |