ترقی و خوشحالی کا تعلق معاشرے کی اقدار و روایات اور
تہذیب و ثقافت سے ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں ایک قدر مشترک نظر آتی
ہے اور وہ ہے ان اقوام کی تعلیم کے میدان میں پیش قدمیاں، جس جس ترقی یافتہ
قوم کو میزانیہ پر رکھ کر دیکھ لیں چاہے ان اقوام کی زبانیں، مذہبی رجحانات
اور اعتقادات، نسلی وابستگیاں کچھ بھی ہوں لیکن ان تمام ترقی یافتہ ممالک
میں تعلیم کی اہمیت مشترک ہے اور نتیجہ پھر وہی کہ دنیاوی اور اخلاقی ترقی
ان کے قدم چومتی ہے۔
دنیا کی ہر ترقی یافتہ ریاست فتنہ فساد برپا کرنے والے شرپسند عناصر کو
انکے مذموم ارادوں سے باز رکھنے کی پالیسی پر سختی سے عمل درآمد کرتی ہے
تاکہ لاقانونیت، جہالت، فتنہ فساد سے ان ممالک کے سماجی ڈھانچے، قانون کے
نفاذ اور معاشی و معاشرتی ترقی کو یقینی بنایا جاسکے یعنی حرف عام میں رٹ
آف دی اسٹیٹ قائم رکھی جاسکے کیونکہ جب کسی ملک میں قانون کی عملداری متاثر
ہوتی ہے ایسی تباہی مچتی ہے کہ الامان الحفیظ، مثال کے طور پر اگر دیکھنا
ہی ہے تو ہم سمیت دوسرے ممالک افغانستان، عراق، لیبیا، یمن، شام، صومالیہ
اوربے شمار ممالک کی مثال ہمارے سامنے نشان عبرت کے طور پر موجود ہے، لیکن
ہم ہیں کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن دبائے بیٹھے ہیں۔ کیا دنیا کا کوئی
ایسا ملک بھی ہے کہ جو علم، صنعت و حرفت میں پیچھے رہ جانے کے باوجود بھی
اقوام عالم میں ترقی یافتہ ملک کے طور پر موجود ہے ؟
ہمارا ملک کہ جسے رب العزت نے کئی نعمتوں سے نواز ہے، بہت سے ممالک ہیں
دنیا میں کہ جن کے پاس سمندر ہے تو دریا نہیں، وادیاں ہیں تو پہاڑ نہیں۔
ہمارا ملک ان خوش نصیب ممالک میں ہے کہ ہمارے ملک میں سمندر، دریا، صحرا،
وادیاں، فلک شگاف پہاڑ، چاروں موسم، ہر قسم کی سبزیاں، پھل، ڈرائی فروٹ اور
ان گنت نعمتیں ہیں کہ جن میں سے کچھ سے تو واقف بھی نہیں۔ ان قدرتی نعمتنوں
کے ساتھ ساتھ بلاشبہ ہمارے ملک کے انجینئر، ڈاکٹر، ماہرین اور محنت کش دنیا
میں اپنی مثال آپ ہیں۔
کاش ہمارے ملک میں تعلیم کے میدان میں انقلابی اور فوری اقدامات کئے جائیں
تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی تعلیم کے زیور سے ایسے ہی آراستہ ہوسکیں کہ
جیسا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی نسلیں ہیں۔ ہمارا ملک اسلام کے نام پر
وجود میں آیا جی ہاں اسی اسلام کے نام پر کہ جسکے بہترین لیڈر حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے کے سلسلے میں بے شمار احکامات دئے جن
میں مشہورعام احکامات میں سے ہے کہ “علم کا طلب کرنا یا حاصل کرنا ہر
مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے“۔ علم سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ جنگوں میں کفار کے قیدیوں کو بھی رہائی دینے کا ایک دروازہ یہ
تھا کہ وہ (کفار) مسلمانوں کو دنیاوی علم سکھائیں اور صلے میں ان قیدی کفار
کو آزادی دے دی جاتی تھی (اللہ کمی بیشی معاف کرے)۔
کاش اربوں روپے ڈیم کے لئے اکھٹے کرنے کے بجائے پہلے علم کی ترویج میں
اربوں روپے خرچ کئے جائیں تاکہ ایسی نسلیں تیار ہوسکیں کہ وہ دنیاوی علوم
کو حاصل کرکے معاشرے اور قوم کی ترقی میں اپنا مثبت اور قابل فخر کردار ادا
کرسکیں۔ تعلیم کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ علم کے حاصل کرنے والے کے لئے
ہی بہت حد تک ممکن ہوجاتا ہے کہ اسے اللہ عزوجل اور اس کی تخلیقات کا علم
ہوسکے اور وہ علم کے ساتھ عمل کرکے اپنی دنیا اور آخرت کو بہترین بناسکے۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ رب العزت ہمیں دینی و دنیاوی علوم کو حاصل کرکے
مثبت اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دنیا و آخرت میں سرخروئی
نصیب فرمائے آمین۔
|