بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ کے رسولﷺ نے اللہ اور رسولﷺ کو ایذا پہنچانے والوں سے کیا سلوک کیا،
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے توہینِ رسالت پر کیا رویہ
اختیار کیا، فقہاء نے گستاخوں کے لیے کیا احکامات دیئے، اس بارے میں ائمہ
سلف کے فتاویٰ کو پڑھنے حالاتِ حاضرہ میں عالم اسلام کی کیا ذمہ داری ہے
سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ قرآن خود بیان کرتا ہے، ”جو نفرت ان کافروں کی
زبانوں سے ظاہر ہے وہ تو تم کو معلوم ہے او ر جو بغض ان کے سینوں میں چھپا
ہے وہ بہت زیادہ ہے“۔ یہود و نصاریٰ روز اول سے ہی شانِ اقدسﷺ میں نازیبا
کلمات کہتے چلے آرہے ہیں۔ کبھی یہودی عورتوں نے آپکو گالیاں دیں۔ کبھی کافر
مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے۔ اُس زمانے میں شاعری کا دور دورہ تھا، کسی کی
ہجو کے لیے قصیدہ کہا جاتا تھا، آج کافروں نے توہینِ رسالت کا انداز بدل
دیا ہے اور فلموں و کارٹونوں کے ذریعے مذاق اڑایا جاتا ہے۔ نبیﷺ نے شان ِ
نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل
کروایا۔ کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کو حکم دے کر اور کبھی
پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے۔ کبھی کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
حُبِّ رسولﷺ میں خود گستاخِ رسولﷺ کے جگر کو چیر دیا اور کبھی عزم کر لیا
کہ خود زندہ رہوں گا یا گستاخِ رسولﷺ۔ کبھی نذر مان لی کہ فلاں گستاخ کو
ضرور قتل کروں گا۔ جو گستاخ مسلمانوں کی تلوار سے بچے رہے انہیں اللہ تعالیٰ
نے عذابوں میں مبتلا کیا۔ رسوائیوں کا شکار رہے۔ قبر نے اپنے اندر رکھنے کے
بجائے باہر پھینک دیا کہ عبرت کا نمونہ بن جائے۔ تاریخ میں گستاخِ رسولﷺ کی
گستاخی اور اسکی عبرتناک سزا کے چند واقعات درج ذیل ہیں:
عصما بنت مروان کا قتل
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ خطمہ قبیلے کی ایک
عورت نے ہجو کی۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ اس عورت سے کون نبٹے گا۔ حضرت عمیر بن
عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جا کر اسے قتل کر دیا تو نبیﷺ نے فرمایا، ”دو
بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں یعنی اس عورت کا خون رائیگاں ہے اور اس
میں کوئی دو آپس میں نہ ٹکرائیں“ ۔ بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی
ہے عصما بنت مروان بنی عمیر بن زید کے خاندان سے تھی،وہ یزید بن زید بن حصن
الخطیمی کی بیوی تھی، یہ رسول اللہﷺ کو ایذاء اور تکلیف دیا کرتی تھی۔
اسلام میں عیب نکالتی اور نبیﷺ کے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی۔ عمیر بن عدی
الخطمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جن کی آنکھیں اس قدر کمزور تھیں کہ جہاد میں
نہیں جا سکتے تھے۔ ان کو جب اس عورت کی باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا
تو کہنے لگے کہ اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسولﷺ
کو بخیر و عافیت مدینہ منوّرہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔ رسول
اللہﷺ اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپﷺ غزوہ بدر سے تشریف لائے تو عمیر بن عدی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے تو اس
کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ
پلا رہی تھی۔ حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اس عورت کو
ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ حضرت عمیر رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے بچّے کو اس سے الگ کر دیا پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے
پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہوگئی۔ پھر نماز ِ
فجر رسول اللہﷺ کے ساتھ ادا کی۔ جب نبی کریمﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت
عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا: کیا تم نے بنت مروان کو
قتل کیا ہے؟ کہنے لگے :جی ہاں! میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں،اے اللہ کے
رسولﷺ۔ حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات سے ذرا ڈر سا لگا کہ کہیں
میں نے رسول اللہﷺ کی مرضی کے خلاف تو قتل نہیں کیا۔ کہنے لگے، ”اے اللہ کے
رسولﷺ! کیا اس معاملے کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز واجب ہے“؟ فرمایا کہ دو
بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں۔ پس یہ کلمہ رسول اللہﷺ سے پہلی مرتبہ
سنا گیا۔ حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے
اردگرد دیکھا تو فرمایا تم ایسے شخص کو دیکھنا پسند کرتے ہو، جس نے اللہ
اور اس کے رسولﷺ کی غیبی مدد کی ہے، تو حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کو دیکھ لو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ”لو یہ نابینا تو
ہم سے بازی لے گیا، اس نے ساری رات عبادت میں گزاری“۔ نبیﷺنے فرمایا، ”اسے
نابینا نہ کہو،یہ بینا ہے“ ۔
ابو عفک یہودی کا قتل
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ مورخین کے حوالے سے شاتمِ رسول ابو عفک یہودی کا
قصہ بیان کرتے ہیں کہ بنی عمرو بن عوف کا ایک شیخ جسے ابو عفک کہتے تھے، وہ
۱۲۰ سال کا بوڑھا آدمی تھا۔ جس وقت رسولﷺ مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو یہ
بوڑھا لوگوں کو آپﷺ کی عداوت پر بھڑکاتا تھا اور مسلمان نہیں ہوا تھا، جس
وقت رسول اللہﷺ بدر کی طرف نکلے اور غزوہ بدر میں آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے
کامیابی عطا فرمائی تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کردیا اور بغاوت اور سرکشی
پر اتر آیا۔ رسولﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مذمت
میں ہجو کرتے ہوئے ایک قصیدہ کہا۔ اس قصیدے کو سن کر عاشقِ رسولﷺ سالم بن
عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہی حالت ہوئی جو ایک عاشقِ رسولﷺ کی ہونی
چاہئے اور انہوں نے نذر مانی کہ میں ابو عفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل
کرتے ہوئے خود جان دے دوں گا۔ پس رسول اللہﷺ کی اجازت کی ضرورت تھی، جو مل
گئی۔ حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ موقع کی تلاش میں تھے، موسمِ گرما کی
ایک رات ابو عفک قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے صحن میں سویا ہوا تھا۔ حضرت سالم
بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دی،
جس سے وہ بستر پر چیخنے لگا مگر اس مردود کا کام تمام کردیا ۔
انس بن زنیم الدیلمی کی گستاخی
انس بن زنیم الدیلمی نے رسولﷺ کی ہجو کی۔ اس کو قبیلہ خذاعیہ کے ایک بچے نے
سن لیا، اس نے انس پر حملہ کردیا۔ انس نے اپنا زخم اپنی قوم کو آکر دکھایا۔
واقدی نے لکھا ہے کہ عمرو بن سالم خزاعی ”قبیلہ خزاعیہ“ کے چالیس سواروں کو
لے کر رسول اللہﷺ کے پاس مدد طلب کرنے گیا۔ انہوں نے آکر اس واقعہ کا تذکرہ
کیا جو انہیں پیش آیا تھا۔ جب قافلے والے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا، ”یا
رسول اللہﷺ!انس بن زنیم الدیلمی نے آپﷺ کی ہجو کی ہے تو آپﷺ نے اس کے خون
کو رائیگاں قرار دیا ۔
ایک گستاخِ رسولؐ عورت کا قتل
ایک عورت رسول اللہﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا، ”میری دشمن کی
خبر کون لے گا؟ تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس عورت کو
قتل کردیا ۔
گستاخ رسول مشرک کا قتل
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، ”مشرکین میں سے ایک آدمی نے
رسول اللہﷺ کو گالی دی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا، میرے اس دشمن کی خبر کون
لے گا؟“ تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اورعرض کرنے
لگے، ”یا رسول اللہﷺ! میں حاضر ہوں“۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے
قتل کردیا تو رسول اللہﷺ نے اس کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو
دے دیا“ ۔
ابو رافع یہودی
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ”الجامع الصحیح“ میں درج ذیل واقعہ نقل کیا
ہے۔ یہ ایک بہت بڑے اسلام دشمن اور دشمنِ رسول ﷺ ابو رافع یہودی کے بارے
میں ہے۔ وہ رسول اکرمﷺ سے خوب دشمنی رکھتا تھا اور لوگوں کو بھی رسول اللہﷺ
سے دشمنی کرنے پر ابھارتا تھا۔ صحیح بخاری میں اس بارے میں جو واقعہ ہے،
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو یوں بیان فرماتے ہیں، ”رسول
اللہﷺ نے ابو رافع یہودی (کے قتل) کے لیے چند انصاری صحابہ رضوان اللہ
تعالیٰ علیہم اجمعین کو بھیجا اور سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کو ان کا امیر مقرر کیا۔ ابو رافع رسول اکرمﷺ کو تنگ کیا کرتا تھا اور
آپﷺ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ سرزمین حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا
اور وہیں سکونت پذیر تھا۔ جب وہ اس قلعے کے قریب پہنچے تو سورج غروب ہو چکا
تھا۔ لوگ اپنے مویشی لے کر (اپنے گھروں کو) واپس ہوچکے تھے۔ سیدنا عبداللہ
بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا، ”تم لوگ یہیں ٹھہرے
رہو! میں (اس قلعہ پر) جا رہا ہوں اور دربان پر کوئی تدبیر کروں گا تاکہ
میں اندر جانے میں کامیاب ہوجاؤں“۔ چنانچہ وہ (قلعہ کے پاس) آئے اور دروازے
کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا جیسے کوئی
قضائے حاجت کررہا ہو۔ قلعے کے تمام آدمی اندر داخل ہوچکے تھے۔ دربان نے
آواز دی، ”اے خدا کے بندے! اگر اندر آنا ہے تو جلدی آجا۔ میں اب دروازہ بند
کر دوں گا“۔ (سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا) چنانچہ
میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی حرکات و سکنات دیکھنے لگا۔ جب سب
لوگ اندر آگئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور کنجیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر
لٹکا دیا۔ سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، ”اب میں
ان کنجیوں کی طرف بڑھا اور انہیں اٹھا لیا۔ پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول
لیا۔ ابو رافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جارہی تھیں۔ اور وہ اپنے
خاص بالاخانہ میں تھا۔ جب رات کے وقت قصہ گوئی کرنے والے (داستان گو) اس کے
پاس سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کے مخصوص کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ اس تک
پہنچنے کے لئے اس دوران میں جتنے دروازے کھولتا تھا، انہیں اندر سے بند
کرتا جاتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر قلعے والوں کو میرے متعلق علم ہو
بھی جائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ
کرلوں۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ ہی گیا۔ اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے
اہل و عیال کے ساتھ (سو رہا) تھا۔ مجھے کچھ اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ کہاں
ہے“؟ اس لئے میں نے آواز دی، ”ابو رافع!“ وہ بولا، ”کون ہے“؟ اب میں نے
آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا
تھا، یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام نہیں کر سکا۔ جب وہ چیخا تو میں
کمرے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا۔ پھر دوسری مرتبہ
اندر گیا۔ میں نے پھر آواز بدل کر پوچھا، ”ابو رافع یہ آواز کیسی تھی“؟ وہ
بولا، ”تیری ماں غارت ہو۔ ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے“۔
(سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں) میں نے پھر (آواز
کی طرف بڑھ کر)تلوار کی ایک ضرب لگائی۔ اگرچہ میں اس کو خوب لہولہان کر چکا
تھا مگر وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر
رکھ کر دبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ مجھے اب یقین ہو گیا کہ میں اسے
قتل کر چکا ہوں۔ چنانچہ میں نے ایک ایک کر کے دروازے کھولنے شروع کردیے۔
بالآخر ایک زینے پر پہنچا۔ میں یہ سمجھا کہ میں زمین پر پہنچ چکا ہوں،
(لیکن میں ابھی پہنچا ہی نہ تھا) اس لیے میں نے اس پر پاؤں رکھ دیا اور
نیچے گر پڑا۔ چاندنی رات تھی۔ اس طرح گر پڑنے سے میری پنڈلی زخمی ہوگئی۔
میں نے اس کو اپنی پگڑی سے باندھ لیا اور آخر دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے
یہ ارادہ کر لیا تھا کہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک یہ معلوم نہ
کر لوں کہ آیا میں اسے قتل کر چکا ہوں یا نہیں؟ جب مرغ نے اذان دی تو اسی
وقت قلعہ کی فصیل (دیوار) پر ایک آواز دینے والے نے کھڑے ہوکر آواز دی:
لوگوں! میں اہل حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔ تب میں
اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا چلنے کی جلدی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے
ابو رافع کو میرے ہاتھوں قتل کرا دیا ہے۔ پھر میں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں
حاضر ہوا اور آپﷺ کو ابو رافع کے قتل کی اطلاع دی۔ رسول اللہﷺنے فرمایا:
اپنا پاؤں آگے کرو۔ میں نے اپنا پاؤں آگے کیا تو آپﷺ نے اس پر اپنا دست
مبارک پھیرا،میرا پاؤں فوراً اتنا اچھا ہوگیا جیسے کبھی اس میں مجھ کو
تکلیف ہوئی ہی نہ تھی“۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃاللہ علیہ، ابو رافع
یہودی کے قتل کے بارے میں مذکورہ بالا حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے
ہیں، ”اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں پر اچانک چھاپہ
مار کاروائی کی جا سکتی ہے۔ جس سے مسلمانوں کو انتہائی درجہ کی اذیتیں لاحق
ہو رہی ہوں“۔
یہودی طاغوت کعب بن اشرف کا قتل
رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے فرمایا،
”کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کو
بہت زیادہ ستا رہا ہے“۔ اس پر سیدنا محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔ ”یا رسول اللہﷺ! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں
اس کو قتل کر ڈالوں“؟ آپﷺ نے فرمایا، ”ہاں مجھے یہ پسند ہے“۔ انہوں نے عرض
کیا، ”کیا آپﷺ مجھے اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ بقدر ضرورت اس سے جو مناسب
سمجھوں، بات کرلوں (خواہ ظاہراً وہ بری اور ناجائز ہی ہو)“؟ آپﷺ نے فرمایا،
”اجازت ہے“۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور
اس سے کہا، ”یہ شخص (اشارہ رسول اکرمﷺ کی جانب تھا) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا
ہے اور اس نے ہمیں مشقت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس لیے میں تم سے قرض لینے
آیا ہوں“۔ اس پر کعب بن اشرف کہنے لگا، ”ابھی آگے آگے دیکھنا ہوتا ہے کیا؟
خدا کی قسم! تم بالکل اکتا جاؤ گے“۔ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے کہا، ”چونکہ ہم نے اس کی اطاعت کر لی ہے، اس لیے جب تک یہ معاملہ
کھل نہ جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں۔ میں
تم سے ایک وسق (ساٹھ صاع کے برابر ہوتا ہے جو تقریباً ایک سو تیس کلو کے
برابر بنتا ہے) یا (راوی نے بیان کیا) دو وسق غلہ بطور قرض لینے آیا ہوں۔
(حدیث کے ایک راوی سفیان کہتے ہیں، ہم سے حدیث کے ایک راوی عمرو رضی اللہ
تعالیٰ عنہ بن دینار نے یہ حدیث کئی مرتبہ بیان کی لیکن ایک وسق یا دو وسق
غلے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ میں نے ان سے پوچھا۔ کیا حدیث میں ایک وسق یا دو
وسق غلے کا بھی ذکر ہے؟ انہوں نے کہا! میرا بھی خیال ہے کہ حدیث میں ایک
وسق یا دو وسق کا ذکر آیا ہے)۔ کعب بن اشرف نے کہا، ہاں! میرے پاس کوئی چیز
گروی رکھ دو۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، کونسی چیز تم گروی
چاہتے ہو؟ کعب بن اشرف نے کہا، اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ سیدنا مسلمہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، تم عرب کے نہایت خوبصورت مرد ہو، ہم تمہارے
پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں، کل کلاں انہیں اسی بات پر
گالیاں اور طعنے دیے جائیں گے کہ یہ تو وہی ہے نا کہ جسے ایک وسق یا دو وسق
غلے کے بدلے گروی رکھا گیا تھا۔ یہ تو ہمارے لیے بہت بڑی ذلت ہوگی، البتہ
ہم تمہارے پاس اپنے ”لائمہ“ گروی رکھ دیتے ہیں (حدیث کے ایک راوی سفیان
کہتے ہیں ، لائمہ سے مراد ہتھیار اور اسلحہ تھا)۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے دوبارہ ملاقات کرنے کا وعدہ کیا۔ (کچھ دنوں کے بعد) وہ رات
کے وقت کعب بن اشرف کے پاس آئے۔ ان کے ساتھ ابو نائلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
بھی تھے اور وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جا
کر انہوں نے آواز دی۔ وہ باہر آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا: اس وقت (اتنی
رات گئے) باہر کہاں جا رہے ہو؟ کعب بن اشرف نے کہا، باہر محمد بن مسلمہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ اور میرے رضاعی بھائی ابو نائلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
ویسے بھی ایک بہادر، معزز اور شریف آدمی کو اگر رات کے وقت نیزہ بازی کے
لیے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے۔ عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن دینار نے
بیان کیا کہ جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر گئے تو ان کے
ساتھ دو آدمی اور تھے۔ سفیان سے پوچھا گیا، کیا عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ
بن دینار نے ان کے نام بھی لیے تھے؟ انھوں نے بتایا کہ عمرو رضی اللہ
تعالیٰ عنہ بن دینار نے بعض کا نام لیا تھا۔ عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن
دینار کے علاوہ دوسرے راوی سفیان بن عینیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو
عبسزبن جبر، حارث بن اوس اور عباد بن بشر اپنے ساتھ دو آدمی اور لائے تھے،
اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب ہماری طرف آئے گا تو میں اس کے بال
اپنے ہاتھوں میں لے لوں گا اور انہیں سونگھوں گا۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے
گا کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہو
جانا اور اسے قتل کر ڈالنا۔ عمرو بن دینار نے ایک دفعہ یہ بیان کیا کہ محمد
بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا پھر میں اس کا سر تمہیں بھی
سنگھاؤں گا۔ بالآخر کعب بن اشرف چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا۔ اس کے سر سے
خوشبو پھوٹ رہی تھی۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، آج سے
زیادہ عمدہ خوشبو میں نے پہلے کبھی نہیں سونگھی۔ عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کے سوا دوسرے راوی سفیان بن عینیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا، کعب بن
اشرف اس بات پر بولا، میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی
رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی نظیرنہیں۔ عمرو رضی اللہ تعالیٰ
عنہ بن دینار کہتے ہیں، محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: کیا
تمہارے سر کو سونگھنے کی اجازت ہے؟ اس نے کہا سونگھ سکتے ہو۔ محمد بن مسلمہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعب بن اشرف کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے
ساتھیوں نے بھی سونگھا۔ پھر دوسری دفعہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے سر کو سونگھنے کی اجازت مانگی۔ اس نے دوسری دفعہ بھی اجازت دے دی۔ پھر
جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوری طرح اسے اپنے قبضہ میں کر
لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ۔ چنانچہ انھوں نے اسے قتل
کر دیا پھر نبی اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اس کامیاب کاروائی کی
اطلاع دی۔
ام ولد باندی کا قتل
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی ام
ولد باندی تھی جو نبیﷺ کو گالیاں دیتی تھی اور آپﷺ کی شان میں گستاخی کرتی
تھی یہ اس کو روکتا تھا مگر نہ رکتی تھی، یہ اس کو ڈانٹتا تھا مگر وہ نہ
مانتی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ جب ایک رات پھر نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخیاں
کرنی شروع کی تو اس نابینا نے ہتھیار(خنجر) لیا اور اس کے پیٹ پر رکھا اور
وزن ڈال کر دبا دیا اور مار ڈالا۔ جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ حضورﷺکے یہاں
ذکر کیا گیا۔ آپﷺ نے لوگوں کو جمع کیا پھر فرمایا: اس آدمی کو اللہ کی قسم
دیتا ہوں، جس نے کیا جو کچھ کیا، میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے تو
نابینا کھڑا ہوگیا، لوگوں کو پھلانگتا ہوا، اس حالت میں آگے بڑھا کہ وہ
کانپ رہا تھا حتیٰ کہ حضورﷺ کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ یا رسولﷺ میں
ہوں اسے مارنے والا، یہ آپﷺ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی، میں
اسے روکتا تھا وہ رکتی نہ تھی، میں دھمکاتا تھا وہ باز نہ آتی تھی اور اس
سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح ہیں وہ مجھ پر مہربان بھی تھی لیکن آج
رات جب اس نے آپﷺ کو گالیاں دینی اور برا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے
خنجر لیا اس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اسے مار ڈالا۔ نبی پاکﷺ نے
فرمایا،: ” لوگوں گواہ رہو !اس کا خون بے بدلا (بے سزا) ہے“ ۔
گستاخ یہودیہ کا قتل
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت نبیﷺ کو
گالیاں دیتی اور برا کہتی تھی تو ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا،یہاں تک
کہ وہ مر گئی تو رسول اللہﷺ نے اس کے خون کو ناقابل ِ سزا قرار دے دیا ۔
اوپر والا قصہ تو مملوکہ باندی کا تھا مگر غیرت ایمانی نے کسی قسم کا خیال
کیے بغیر جوش ایمانی میں جو کرنا تھا کردیا تو حضورﷺ نے اس کا بدلہ باطل
قرار دیا۔ دوسرا قصہ غیر مملوکہ غیر مسلم کا ہے۔ دونوں واقعات سے معلوم ہوا
کہ حضورﷺ کی توہین کرنے والا مباح الدم (خون جائز ) بن جاتا ہے اور حق کا
علمبردار سزاؤں کا غیر مستحق ہوجاتا ہے بلکہ ثواب کا حق دار ہوجاتا ہے۔ اگر
عورت بھی گستاخی کی مرتکب ہو تو اس کی سزا میں کمی واقع نہ ہو گی، شرعی حد
کے طور پر قتل ہی کی جائے گی ۔
گستاخِ رسولﷺ ”جن“ کا قتل
ایک مرتبہ مکہ کے پہاڑ ابو قبیس سے بلند آواز کے ساتھ چند اشعار اسلام کی
برائی میں سنے گئے۔ یہ ’جن‘ کی آواز تھی۔ اس میں یہ مضمون بھی تھا کہ
مسلمانوں کو مار ڈالو۔ شہر سے بت پرستی مت چھوڑو۔ کفار بہت خوش ہوئے اور
اترا کر کہنے لگے کہ غیب سے بھی تمہارے قتل اور شہر بدر کرنے کا حکم ہوتا
ہے۔ مسلمانوں کو اس سے بڑا صدمہ ہوا۔ نبیﷺ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا
گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم اطمینان رکھو، یہ آواز ”مسعر“ نامی ’جن‘ کی
تھی، بہت جلد اللہ اس کو سزا دے گا۔ تیسرے دن حضورﷺ نے مسلمانوں کو خوشخبری
دی کہ آج بہت بڑا جن ”مسحج“ نامی میرے پاس آکر مسلمان ہوا اور میں نے اس کا
نام عبداللہ رکھا۔ اس نے مجھ سے ”مسعر“ کو قتل کرنے کی اجازت چاہی اور میں
نے اجازت دے دی، آج ”مسعر“ مارا جائے گا۔ مسلمان خوش ہوکر انتظار میں تھے۔
شام کے وقت اسی پہاڑ سے چند اشعار بلند آواز کے ساتھ سننے میں آئے، جن کا
مضمون تھا ”ہم نے مسعر کو اس وجہ سے قتل کر دیا ہے کہ اس نے سرکشی کی، حق
کی توہین کی اور برائیوں کا راستہ بنایا اور رسول پاکﷺ کی شان میں بے ادبی
کی، میں نے ایک چمکتی ہوئی تیز تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا ہے“ ۔ علامہ
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث اس اضافت کے ساتھ نقل کرتے ہیں ”حضرت علی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، یا رسول اللہﷺ، اللہ اسے (مسحج جن کو)
جزائے خیر دے“ ۔
فتح مکہ کے روز کچھ مجرموں کا خون رائیگاں
نبی اکرمﷺ نے جب مکہ مکرّمہ کو کفار و مشرکین کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا،
آپﷺ نے تمام اہل مکہ کے لیے آزادی کا پروانہ جاری کردیا تھا سوائے اُن
لوگوں کے جنہوں نے اس سے پہلے مسلمانوں کو بہت پریشان کر رکھا تھا خواہ وہ
اپنے عمل اور کردار سے پریشان کر رہے تھے یا اپنے قول اور گفتار سے پریشان
کر رہے تھے۔ دور حاضر کے عظیم مصنف فضیلۃ الشیخ صفی الرحمان مبارک پوری نے
”سیرت النبیﷺ“ کے موضوع پر اپنی عالمی شہرت یافتہ کتاب ”الرحیق المختوم“میں
ان افراد کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مختلف کتب تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا
ہے کہ فتح مکہ کے روز عام معافی کے اعلان کے باوجود جن کا خون رائیگاں قرار
دیا گیا تھا وہ کُل تیرہ افراد تھے جن میں سے ۹ مرد اور ۴ عورتیں تھیں اور
وہ درج ذیل ہیں:
1)عبدالعزٰی بن خطل
2)حارث بن نفیل (تاریخ میں اس کا نام حویرث ابنِ نقید بھی آیا ہے)
3)مقیس بن صبابہ کنافی
4)حارث بن طلاطل خزاعی
5)ارنب (غالباً کنیت ام سعد تھی۔ یہ ابن خطل کی لونڈیوں میں سے ایک تھی)
6)عبداللہ بن سعد ابی سرح رضی اللہ تعالیٰ عنہ
7)عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ
8)ہبار بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
9)کعب بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
10)وحشی بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
11)ہند بن عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
12)قرتنا رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یہ ابن خطل کی لونڈیوں میں سے ایک تھی،پہلے
بھاگ نکلی بعد میں آ کر مسلمان ہوگئی)
13)سارہ یا ام سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یہ بنی مطلب میں سے کسی شخص کی
لونڈی تھی، اسی کے پاس سے حاطب بن بلتعہ کا خط برامد ہوا تھا)۔
مذکورہ بالا فہرست میں سے اول الذکر پانچ تو اس اعلان کے مطابق قتل کر دیے
گئے کہ چاہے ان میں سے کوئی (ابنِ خطل)کعبہ کے پردوں کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔
رسولِ کریمﷺ کے بارے میں گستاخیاں اور آپﷺ کو اذیتیں ان کی طرف سے انتہا کو
پہنچی ہوئی تھیں۔ گویا اپنے قول و فعل سے پریشان کرتے تھے جبکہ بقیہ آٹھ
افراد کا جرم قدرے کم تھا۔ انہوں نے اپنے جرائم سے توبہ کی، معافی کے
خواستگار ہوئے، اسلام قبول کیا اور اسلام میں رہتے ہوئے اچھا کردار اور
رویہ پیش کیا،لہٰذا ان کو معاف کر دیا گیا۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے الصارم المسلول میں تحریر کیا ہے کہ ابن
خطل اشعار کہہ کر رسول اللہﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا اور دو باندیوں کو وہ
اشعار گانے کے لیے کہا کرتا تھا۔ عبد العزیٰ ابن خطل اور دونوں باندیوں کو
بھی اس گستاخی پر رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر قتل کرنے کا حکم دیا۔
جن کے نام ارنب اور قرتنا تھے۔ ارنب قتل کی گئی۔ قرتنا بھاگ نکلی اور بعد
میں آکر مسلمان ہو گئی۔ ابن خطل جان بچانے کے لیے کعبہ کا پردہ پکڑ کر لٹکا
ہوا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ ابن خطل
تو کعبہ کے پردے سے لٹکا ہوا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اسے پھر بھی قتل کردو۔
اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر حویرث ابن نقید کو قتل کا حکم ارشاد فرمایا۔ یہ
ان لوگوں میں شامل تھا جو رسول اکرمﷺکو ایذاء پہنچایا کرتے تھے۔ حاکم رحمۃ
اللہ علیہ نے بیان کیا یہ شاعر بھی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
اس کو قتل کیا۔
سیف بن عمر التمیمی نے اپنی کتاب ”الردةو الفتوح“ نے اپنے شیوخ سے روایت
کیا ہے کہ ”مہاجر“ جب علاقہ یمامہ کے امیر تھے، ان کی عدالت میں دو گلوکارہ
لونڈیوں کا معاملہ پیش کیا گیا۔ ان میں سے ایک رسول کریمﷺ کے مذمت میں
اشعار گایا کرتی تھی۔ مہاجر نے اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا اور اگلے دونوں دانت
نکال دیے۔ دوسری گلوکارہ مسلمانوں کی ہجو کیا کرتی تھی، مہاجر نے اس کا بھی
ایک ہاتھ کاٹ دیا اور اگلے دونوں دانت نکال دیے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے ان کو لکھا، ”تم نے رسولِ کریمﷺ کی ہجو کرنے والی گلوکارہ کو
جو سزا دی، مجھے اس کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ اگر مجھے پہلے پتہ چل جاتا
تو میں تم کو اس کے قتل کا حکم دیتا۔ اس لیے کہ انبیاء کی توہین کی وجہ سے
جو سزا دی جاتی ہے، وہ دوسرے سزاؤں سے مختلف ہوتی ہے“ ۔
قاضی عیاض اس حدیث کے ذیل میں یوں رقم طراز ہیں: ”قاضی ابو محمد بن نضر
فرماتے ہیں کہ تمام علماء نے اس مسئلہ میں ان کی تائید کی ہے اور کسی نے اس
مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا۔ ائمہ حدیث نے اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ
جو شخص نبی کریمﷺ کے غصہ کا سبب ہے، خواہ وہ کسی وجہ سے ہو یا حضورﷺ کو
زبانی یا عملی طور پر تکلیف پہنچائے وہ واجب القتل ہے“۔ (الشفاء ج۲، ص۱۹۶،
اردو ترجمہ ص ۳۸۷)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ان کو خبر ملی کہ ایک مسجد
کا منافق پیشِ امام ہر نماز میں سورة عبس پڑھتا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کو غصہ آیا کہ سورہ عبس تو وہ سورة ہے کہ جس میں رسول
اللہﷺ کو تنبیہ کی گئی تھی، یہ امام ہر نماز میں اہتمام سے کیوں پڑھتا ہے۔
(سورة عبس کا شان ِ نزول یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ حریص تھے کہ مکہ کے سردار بھی
ایمان لے آئیں تو ابو جہل کی رکھی گئی شرط پر کہ ہم رئیسانِ مکہ کی الگ
محفل رکھو تو ہم تمہاری بات سنیں گے، ان کو دعوت ِ دین دے رہے تھے۔ اتنے
میں ابن مکتوم جو نابینا صحابی تھے محفل میں آگئے۔ حضور کو ناگوار گزرا کہ
کہیں اس بات پر یہ لوگ اٹھ کر نہ چلے جائیں تو اللہ تعالیٰ نے سورة عبس کی
آیات نازل کیں)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس منافق پیش امام کے گھر
تشریف لے گئے۔ اس امام کو گھر سے باہر بلوایا اور پوچھا کہ تم ہر نماز میں
سورة عبس کیوں پڑھتے ہو؟ اس امام نے کہا ”بس مجھے پسند ہے“۔ حضرت عمر رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی وقت تلوار نیام سے نکالی اور اس کا سر قلم کردیا۔
(تفسیر روح البیان، ج ۱۰،ص۳۳۱، علامہ اسماعیل حقی)۔ مجاہد سے مروی ہے کہ
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا، جو رسولِ پاکﷺ
کو برا کہتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بطور سزا اسے قتل کیا
اور پھر فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ یا انبیاء میں سے کسی کو برا کہے اس قتل
کردو“۔ نبیﷺ کا فیصلہ نہ ماننا بھی گستاخی ہے اور ارتداد کا سبب ہے۔
عدالتِ نبویﷺ کے فیصلہ سے اختلاف کفر ہے
دو شخص اپنا جھگڑا عدالتِ نبوی میں لائے۔ آپﷺ جھوٹے کے خلاف سچے آدمی کے حق
میں فیصلہ دے دیا۔ جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا اس نے کہا میں اس پر راضی نہیں
ہوں۔ اس کے ساتھی نے کہا تم کیا چاہتے ہو؟ کہا میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے فیصلہ کروانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ وہ دونوں حضرت ابوبکر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے قصہّ بیان کیا، حضرت ابوبکر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”تمہارا فیصلہ وہی ہے جو الله کے رسولﷺ نے
کیا ہے۔ اس کے منافق ساتھی نے اسے بھی تسلیم نہ کیا اور کہا ہم عمر رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلتے ہیں۔ چنانچہ دونوں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے پاس حاضر ہوئے۔ جس کے حق میں فیصلہ ہوا تھا، اس نے کہا:ہم پہلے رسول
اﷲ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور پھر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں۔
دونوں نے میرے حق میں فیصلہ صادر فرمایا ہے، مگر میرا ساتھی نہیں مانتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوسرے شخص سے پوچھا تو اس نے بھی واقعہ
اسی طرح دہرایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر کے اندر داخل ہوئے اور
تلوار لے کر باہر آئے اور آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تلوار انکار کرنے
والے شخص کے سر پر دے ماری اور اسے قتل کر دیا۔ تب یہ آیتِ کریمہ”فلا و
ربک“ (النساء ۶۶) نازل ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ”جسے
نبیﷺ کا فیصلہ منظور نہیں، اس کا فیصلہ عمر کی تلوار کرے گی“۔ پس معلوم
ہوا کہ رسو ل اللہﷺ کے فیصلہ سے اختلاف کفر ہے۔ (تفسیرِروح المعانی، جلد ۵،
ص ۶۷، مطبوعہ بیروت۔ الصارم المسلول ص ۸۰۔ ۷۹۔ تفسیرِمظہری جلد ۲، ص ۱۵۴)
حضرت علی ابن طالب سے رسول اللہﷺ کا ارشاد روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے
فرمایا: جو کسی نبی کو برا کہے، اسے قتل کردیا جائے۔ جو صحابہ کو برا کہے
اسے کوڑے لگائے جائیں۔ (الصارم المسلول ۹۲: ۲۹۹)
رسولﷺ کے روضے میں ستون وفود کے بارے میں روایت ہے کہ وہاں جب مختلف علاقوں
سے وفد آتے تھے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ننگی تلوار لے کر حضورﷺ کے
پیچھے کھڑے ہوتے تھے کہ کوئی گستاخی سے بات نہ کرے۔ حضرت حصین رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
فرمایا کہ ”جو شخص رسو ل کریمﷺ کو گالی دے اسے قتل کیا جائے“۔ (الصارم
المسلول، ص۲۷)
بدر کے قیدیوں میں سے صرف (گستاخِ رسول اللہﷺ) نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی
معیط کا قتل
آپﷺ بدر سے مدینے لوٹے تو نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو قتل کرنے کا
حکم دیا۔ بدر کے قیدیوں میں سے کسی اور کو قتل نہیں کیا گیا۔ البرزا نے ابن
عباس سے روایت کیا کہ عقبہ پکارا: اے گروہ قریش! کیا بات ہے کہ مجھے
باندھ کر قتل کیا جارہا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ”تمہارے کفر اور
رسول اللہﷺ پر افتراء پردازی کی وجہ سے“۔ (الصارم المسلول، اردو ترجمہ ص
۲۰۱)
بدر کے تمام قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کے لیے
امتیازی سلوک کے بارے میں علامہ ابن تیمیہ رقم طراز ہیں ”تمام قیدیوں میں
سے ان دو کے قتل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ اپنے قول و فعل سے اللہ اور اس
کے رسولﷺ کو ایذاء دیتے تھے جو آیات نضر کے بارے میں نازل ہوئیں وہ معروف
ہیں۔ اسی طرح عقبہ اپنی زبان اور ہاتھوں سے جو ایذاء دیتا تھا وہ بھی معروف
ہے۔ اس شخص نے مکہ میں رسول کریمﷺ (میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں) کا گلا
اپنی چادر سے پورے زور سے دبایا۔ یہ آپﷺ کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اسی طرح
رسول کریمﷺ سجدہ کی حالت میں تھے تو اس نے آپﷺ کی پشت مبارک پر اونٹ کا
اوجھ لاکر رکھ دیاتھا۔ (الصارم المسلول، اردو ترجمہ ص ۲۰۳)۔ |