حضرت سیدنا ابرہیم علیہ السلام ( ٢١٦٠ تا
١٩٨٥ ق م) کے فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام جو حضرت سارہ عراقیہ کے بطن سے
تھے ‘ ان کے فرزند حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل ہے ‘ اس کا معنی
ہے عبداللہ ‘ اللہ کا بندہ ( البقرہ ٤٠)
بنی اسرائیل کا اصل وطن شام تھا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے عہد میں یہ مصر
چلے گئے تھے تو عمالقہ نے شام پر قبضہ کر لیا۔ حکم ہوا عمالقہ سے جہاد کرو‘
وطن آزاد کراؤ ‘ انہوں نے جہاد سے انکار کر دیا ‘ اس کی پاداش میں چالیس
سال تیہ کے ریگستان میں بھٹکتے رہے‘ پھر بھی خدا کی نوازشات جاری رہیں‘ جن
میں بادلوں کا سایہ فگن رہنا‘ پانی کے چشمے جاری ہونا اور من و سلوی ( من
بمعنی ترنجبن‘ یہ قدرتی شکر کی قسم جو اونٹ کٹارے یا اس قسم کی دوسری جڑی
بوٹیوں کے کانٹوں پر شبنم کی طرح گر کر جم جاتی ہے ۔ سلوی بٹیر کو کہتے ہیں‘
یہ وادی سینا کا خاص پرندہ تھا) کا ملنا شامل ہے ِ
جب تیہ کے ریگستان میں بنی اسرائیل پیاس سے تنگ آگئے تو حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے بارگاہ ایزدی میں پانی کے لئے دعا کی‘ حکم ملا فلاں پتھر پر عصا
مارو۔ تب بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔ یہ چٹان(پتھر) ابھی تک صحرائے سینا میں
موجود ہے (البقرہ ٥٧ اور ٦٠بالترتب ) |