روزِ قیامت سمندروں میں آگ کیسے لگے گی؟

زمین سے سورج آگ کا دہکتا ہوا گولہ دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے، کبھی آپ کے ذہن میں یہ سوال آیا ہو کہ کیا سورج کی بھڑکتی آگ پانی ڈال کر بجھائی جا سکتی ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ سائنس اس سلسلے میں کیا جواب دیتی ہے۔

عام انسان کے دماغ میں تو فوری طور پر تو یہی خیال آئے گا کہ اربوں گیلن پانی ہو تو شاید سورج کے شعلے ختم ہو جائیں۔ایسا سوچنا قابل فہم ہے کیونکہ آگ کیمیائی ردعمل کا نتیجہ ہوتی اور آکسیجن ملنے کے نتیجے میں بھڑکتی ہے۔ اس پر پانی ڈال کر آکسیجن ختم کرنے کی کوشش ہوتی ہے تاکہ اس کی شدت میں کمی آسکے لیکن خلا میں تو آکسیجن ہوتی نہیں تو پھر وہاں پانی کیا کام دے گا؟

شاید آپ کے لیے یہ بات حیران کن ہو کہ سورج دیکھنے میں تو آگ سے بنا ہوا ہے مگر یہ وہ آگ نہیں جو ہم زمین پر دیکھتے ہیں بلکہ یہ آگ جوہری فیوزن (Nuclear fusion) کے نتیجے میں بھڑکتی ہے۔اس کو پیدا ہونے کے لیے آکسیجن کی ضرورت نہیں ہوتی۔لہٰذا سورج پر پانی ڈالا گیا تو آگ میں کمی آنے کی بجائے الٹا ردعمل ہوگا اور وہ زیادہ بھڑک جائے گی۔وجہ یہ کہ پانی کی شکل میں ہم سورج کو زیادہ ہائیڈروجن فراہم کردیں گے جو جوہری فیوزن کا ایندھن ہے۔

نتیجے میں وہ زیادہ بھڑک کر روشن ہوجائے گا۔ اگر بہت زیادہ پانی ڈالا جائے تو سورج کے درجہ حرارت میں کمی ضرور آئے گی مگر وہ عارضی ثابت ہوگی۔ویسے بھی اربوں گیلن پانی سورج تک لے جانا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ وہ پہنچنے سے پہلے ہی ابل کر بخارات کی شکل اختیار کرلے گا۔

قرآن نے چودہ سو سال پہلے کہا “ وَاِذَا الۡبِحَارُ سُجِّرَتۡۙ (سورہ التکویر ،پارہ تیس) اور جس دن سمندروں کو آگ لگ جائے گی“ جو دعویٰ قرآن نے چودہ سو سال پہلے کیا آج جدید سائنس بھی اسے تسلیم کر رہی ہے۔نزول قرآن کے وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس پہ مشتمل ہے اور اگر پانی کو تحلیل کر دیا جائے تو اس کی ہائیڈروجن آگ پکڑ لے گی اور پانی بجائے آگ بجھانے کے آگ بھڑکا دے گا۔

قرآن کی طرف سے پیش کردہ اس بات کی تصدیق اج جدید سائنس کر رہی ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن اس کائنات کے سب راز جاننے والے خالق و مالک کا کلام ہے۔اللٰہ تعالٰی ہمارا خاتمہ ایمان پہ فرمائے۔آمین

YOU MAY ALSO LIKE: