یقین جا نیے کہ آج حکمرانوں کے منہ سے کشکول توڑنے اور
بھیک سے نجات دِلاکر مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کے وعدوں اور دعووں
کی باتیں سُنتے سُنتے قوم کے کان پک گئے ہیں،ماضی میں جتنا کہا جاتارہا،
اگر اِس میں ایک فیصد بھی سچ ثابت ہوجاتاتو مُلک اور قوم کا حال اِتنا بُرا
نہ ہوتا جیسا کہ آج ہے ، اَب قوم کو وعدوں ، دعووں اور اعلانات سے بہلایا
نہیں جاسکتاہے،یہ 21ویں صدی ہے ،دنیا حقائق جاننے اور سچ دیکھنے اور پرکھنے
کی عادی ہوگئی ، خوابوں کی باتیں پرا نی ہوگئیں ہیں، اَب جو کچھ کرنا ہے ،
حق اور سچ کی بنیا د پر فوراََ کردکھانا ہوگا ، ورنہ ، سب کچھ بیکا رہوگا۔
اَب جیسا کہ موجودہ حکومت سو دن بعد اور چھ ماہ میں مُلک اور قوم کی ترقی
اور خوشحالی کو سُرخاب کے پَر لگانے کی باتیں کررہی ہے ۔جو کہ اچھی بات ہے
مگراِس میں کتنی صداقت ہے۔ یہ تو آنے والے دِنوں میں لگ پتہ جائے گا کہ سر
پر کتنے بال ہیں ؟ بس قوم ہمیشہ کی طرح انتظار کرے ، کیوں کہ ستر سال سے
حکمرانوں نے قوم کو اچھے دن کا انتظار ہی تو کرایا ہے ،ابھی پاکستا نی قوم
اِسی اُمید پر کچھ دن اور زندہ رہ لے، تواِس میں کیا حرج ہے ۔؟ دیکھ لیتے
ہیں کہ یہ حکومت آسمان سے کون سے ستارے توڑ لگائے گی؟
بہر کیف ،پچھلے دِنوں ایک بار پھر وزیرخزانہ اسد عمراور وزیرخارجہ شاہ
محمود قریشی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنے سینہ چوڑے کرکے اور
گردنیں تان کر دعوے کئے ہیں کہ ادائیگیوں کا توازن کا اب کوئی بحران نہیں ،
وہ ختم ہوچکا، 12ارب ڈالر کاخلا ء تھا،سعودی عرب نے چھ ارب ڈالر فراہم کئے
اور باقی کچھ رقم چین سے ملی ہے، ہم نے نہ صرف پرانے معاہدوں پر نظرثانی کی
ہے، بلکہ نئے معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے ہیں،سی پیک سے متعلق غلط فہمیوں
کو دور کرنے کا بھی موقع ملا ہے ، ہماری توجہ طویل المیعاد استحکام پر
مرکوز ہے، مستقل توازن کے لئے برآمدات میں اضافہ ضروری ہے ،دوسرے سے باہمی
اسٹرٹیجک تعلقات کو اقتصادی پارٹنر شپ میں بدلنے کا موقع ملا، پندرہ معاہدے
ہوئے ، بیجنگ کے تعاون سے برآمدات کو دوگنا کیا جائے گا ‘‘وغیرہ وغیرہ ایسے
کئی سُنہرے خواب دکھاکرقوم سے دعوے کئے گئے ہیں یہ ساری باتیں اپنی جگہہ
ہیں۔ مگر یہ ٹھیک ہے کہ چین اور سعودی عرب کے دوروں کے دوران پاکستان کو
بہت کچھ ملا ہے، اَب ایسا بھی نہیں ہوناچاہئے کہ حکومت ہر چیز اپوزیشن اور
عوام کے سامنے سب کچھ کھول کر رکھ دے اور اپوزیشن کے ہر سوال کا جواب دے ،
کچھ نکات ایسے ہوتے ہیں۔ جن کے ثمرات وقت آنے کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ یقین
ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور اِن کی ٹیم کا دورہ چین اور سعودی عرب مُلکی
معیشت اور قوم کی ترقی کے لئے سنگِ میل ثابت ہوں گے۔سُو ، اپوزیشن کو ہر
دورے پر یہ سوال خود بھی نہیں کرناچاہئے کہ ملاکیا ہے؟اِس حکومت سے پہلے
والی حکومتوں نے اپنے دوروں کے بعد کِسے کیا جواب دیاتھا جو موجودہ حکومت
کسی کواپنے دوروں سے متعلق بتائے۔
بے شک یہاں یہ امر قابل ستائش ہے کہ میری پاکستا نی قوم میں بڑی لچک اور
صلاحیت ہے ، یہ ستر سال سے ہر قسم کے حالات کا جانفشانی سے مقابلہ کررہی ہے،
گر کر اُٹھنے اور اپنی منزل پالینے کا یہی جذبہ تو ہے ،جو اِسے زندہ قوموں
میں شمار کئے ہوئے ہے ۔اگر یہ بھی اِس میں نہ ہوتاتو یہ کب کی مایوسیوں کی
گہری کھا ئی میں گر چکی ہوتی ، تاہم موجودہ حکومت کے آگے بڑھنے اور قوم کو
قرضوں کے بوجھ سے نجات دِلانے والے عزم اور حوصلے سے پوری پاکستانی قوم کو
قوی اُمیدہوچلی ہے کہ اگلے آنے والے دن ، ہفتے ، ماہ اور سال ماضی سے بہت
بہتر ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہر پاکستانی کو محسوس ہونے لگاہے وہ وقت کوئی
زیادہ دور نہیں ہے جب کئی ہزار ارب کے بوجھ تلے دبی سرزمین پاکستان قرضوں
سے چھٹکارہ پا ئے گی اور معاشی واقتصادی اور سیاسی و سماجی لحاظ سے ایک نئے
اور وتابناک پاکستان کے روپ میں دنیا کے نقشے پر چکمگاتی ، چہچہاتی ،لہراتی
اور بل کھاتی ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کرتی نمودار ہوگی اور چاردانگِ
عالم میں اِس کی بھی کامیابیوں کے ڈنکے بجیں گے۔
آج سوفیصد وزیر اعظم عمران خان اوراِن کی حکومت کا عزم بتارہا ہے کہ یہ کچھ
ایسا اچھا کر گزرنے کی لائین پر گامزن ہیں، جو پچھلی کئی دہائیوں سے کوئی
حکومت نہیں کرسکی تھی ، وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے اِس جذبہ متحرک اور
اضطراب کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اَب یقینی طور پربائیس کروڑ پاکستانیوں
کے بھی اچھے دن آنے کو ہیں، بس قوم کسی کی باتوں پر کان نہ دھرے ،اور حکومت
کے سو دن گزرنے کا انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ جنازوں پہ نہیں ، جہالت پر
رونا دھونا شروع کردے تو میری قوم کے بھی سُنہرے دن ضرور آجا ئیں گے۔اِس
موقع پرقوم کے لئے بس سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ اپوزیشن
کی جھوٹی باتوں کو سُنتی رہی اور مایوسیوں کے سمندر میں ڈوبتی رہی تو پھر
مایوسی کے اندھیرے قوم کے حوصلے پست سے پست کرتے جا ئیں گے اور ہاتھ اِس کے
سِوائے مایوسیوں کے کچھ نہیں آئے گا۔حالانکہ پاکستانی قوم یہ بات بھی اچھی
طرح سے جانتی اور سمجھتی ہے کہ پاکستان کو غریب اور مفلوک الحال عوام سے
زیادہ ستر سال کے عرصے میں ہر دومیں آنے والے سِول اور آمر حکمرانوں اور
اِن کے قیمتی غلاموں اوراِن کے چیلے چانٹوں نے ہی لوٹ کھایاہے مگر پھر بھی
تعجب یہ ہے کہ اِن قومی لٹیروں کی کرپشن نے قوم کی آنکھیں ابھی تک بند کی
ہوئیں ہیں۔
افسوس ہے کہ ماضی کے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اِن کے گولڈن چیلے چانٹوں ا
ور غلاموں نے مل کر قوم کی غربت کا چہر ہ دنیا کو دکھا کر قرضے لئے اور
پوری قوم کو بھوک و افلاس، تنگدستی، عدم تحفظ، ناانصافی اور غیر یقینی پن
کے دلدل میں دھنسا کر اپنی آف شور کمپنیاں بنائیں اور سوئیس بینکوں میں
اپنے اور اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں یاروں کے ناموں سے کھاتے کھلواکر
اربوں روپے رکھوا ئے اور اَب جو اپنی گردنوں کے گرد قانون کا شکنجہ تنگ
ہوتا دیکھ کر کنی کٹا کر چلتے بننے کی راہیں تلاش کررہے ہیں آخر کارعبرت
ناک انجام کو پہنچتے قومی لٹیروں کو لگ پتہ گیاہے کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی
ہے اِسی لئے اپنے کڑے احتساب سے بچنے کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر چیختے چلاتے
پھر رہے ہیں کہ ہم پر منی لانڈرنگ کا محض الزام ہے ، مگراصل میں بیک ڈور سے
چاہ رہے ہیں کہ چاہے ہمارا سب کچھ لے لو، مگر ہماری جان چھوڑدو۔(ختم شُد)
|