ایک زمانہ تھا جب بچوں کے ادب پر بہت زیادہ توجہ دی
جاتی تھی۔ بچوں کے بہت سے رسالے شائع ہوتے تھے اور ان میں اپنے وقت کے بڑے
بڑے شاعر اور نامور ادیب بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھا کرتے تھے۔
پرانے وقتوں کے بچوں کے رسائل دیکھیں یا بچوں کے ادب کے بارے میں ماضی کے
درکھولیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے جو بھی بڑے بڑے لکھاری ادیب تھے
وہ بچوں کے لیے لازماً کچھ نہ کچھ لکھتے تھے اور ان عظیم شخصیات کی بچوں پر
لکھی گئی کہانیاں اور نظمیں آج بھی اسی طرح مقبول و معروف ہیں۔ ایسی بے
مثال شخصیات میں بہت سے نام ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔
علامہ اقبال
علامہ اقبال نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں دنیا میں شاید کم ہی شاعر
ہوں گے جنہیں اقبال جتنا مقام ملا ہو اس قدرعروج کے باوجود بھی علامہ اقبال
نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت کچھ لکھا۔اس عظیم تخلیق کار نے امت
مسلمہ میں نئی روح پھونکی۔ وہ 9نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے
گھر پیدا ہوئے۔ نامور عالم مولانا سید میر حسن کے شاگرد رہے۔ اسکاچ مشن
اسکول سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ شاعری کا باقاعدہ آغاز تب ہی ہوا۔ داغ سے اصلاح لی۔
فلسفے کے مضمون میں ایم اے کیا۔ انجمن حمایت اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر
تک قائم رہا۔
اورنیٹل کالج میں پڑھایا۔ پھر گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے پروفیسر ہو گئے۔
1905ء میں یورپ کا رخ کیا۔ کیمبرج یونیورسٹی ٹرنئی کالج میں داخلہ لے لیا۔
بیرسٹری کے لیے لنکنز ان کا رخ کیا۔ میونخ یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ
ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ’’ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقاء‘‘ کے عنوان سے
تحقیقی مقالہ لکھا۔ وطن لوٹ کر وکالت کا پیشہ اپنایا ۔ تدریس سے بھی جڑے
رہے۔ دھیرے دھیرے مسلم قومیت کا تصور اقبال کے سامنے واضح ہونے لگا۔ انہوں
نے اپنے افکار کو اشعار اور نثر کی شکل دی ۔ خیالات پھیلنے لگے۔ مسلم لیگ
کو پنجاب میں منظم کرنے میں ان کا کردار کلیدی رہا۔ عالمی مسائل پر ان کے
تجزیے اور آراء کی اہمیت بڑھنے لگی۔ ان کے پیغام کو برصغیر کے مسلمان اہمیت
دینے لگے۔ 1923ء میں انہیں سرکاخطاب ملا۔
الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں انہوں نے ہندوستان کے
اندر ایک آزاد مسلم ریاست کا خاکہ پیش کیا ۔ اقبال ہی کی کوششوں کے طفیل
قائداعظم ہندوستان لوٹے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔ ان کی شاعری نے نئی
نسل میں انقلابی روح پھونکی ۔ ان کی کتب کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے۔
انہیں پاکستان میں قومی شاعر کا درجہ حاصل ہے۔ وہ 21اپریل 1938کو لاہور میں
انتقال کرگئے۔
میرزا ادیب
میرزا ادیب کی موت بڑا المیہ تھا جو بچوں کے ادب کو برداشت کرنا پڑا…………
’’میرزا ادیب‘‘ 4اپریل 1914ء کو بھاٹی گیٹ لاہور میں پیدا ہوئے ان کا
پیدائشی نام ’’مرزا دلاور علی‘‘ تھا………… پھر جب ادب کے سمند رمیں نمودار
ہوئے تو اپنا نام ’’دلاور علی‘‘ سے ’’میرزا ادیب‘‘ رکھ لیا۔
وہ بڑے تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے نثر کی کوئی بھی ایسی صنف نہ تھی جس پر
انہوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔ اس میں کہانی، افسانہ نگاری، سفر نامہ، خود
نوشت، خاکہ نگاری، ڈرامہ، ناول، تالیف و ترجمہ تک جیسی اہم اصناف شامل ہیں۔
آپ بچوں کے واحد ادیب ہیں جن کے نام سے بچوں کے ادب میں باقاعدہ طور پر ایک
ایوارڈ ’’میرزا ادیب ایوارڈ‘‘ متعارف کرایا گیا ہے۔ جو کہ ایک ادبی تنظیم
’’پاکستان ینگ رائیٹرز فورم ‘‘ کی کوشش ہے۔ اردو میں سب سے زیادہ انعامات
کی حقدار ’’کتب‘‘ جس ادیب کی قرار پائیں وہ آپ ہی تھے اس کے علاوہ ان کے
دوڈرامائی مجموعوں کو ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ بھی ملا۔ ’’دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد
شعبہ بچوں کا ادب‘‘ کی طرف سے 1992ء میں "Writer Best"کا پہلا ایوارڈ بھی
دیا گیا۔
’’ادب‘‘ کی دنیا کا سب سے بڑا انعام ’’تمغہ حسن کارکردگی‘‘1982ء میں
پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ہاتھوں حاصل کیا۔
آپ کی بے شمار کتب بھی منظر عام پر آئیں جن میں سب سے زیادہ مقبولیت
’’صحرانورد کے خطوط‘‘ کو ملی جو کہ 1939ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کو اتنی
مقبولیت حاصل ہوئی کہ بہت کم عرصے میں اس کے 50 سے زائد ایڈیشن شائع ہوئے
اب اسی کتاب کے نئے ایڈیشن بھی شائع ہو رہے ہیں جو کہ ان کی بڑھتی ہوئی
مقبولیت کا منہ بولتا اور آنکھوں دیکھا زندہ ثبوت ہے۔
ان کی دیگر تصانیف میں ’’خوابوں کے مسافر، فصیل شب ، ماموں جان، مٹی کا دیا،
لہو اور قالین، شیشہ ورنگ، پس پردہ اور شیشے کی دیوار‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
’’مٹی کا دیا‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمر ی کی داستان ہے۔
کتابوں کے علاوہ ان کی شارٹ اسٹوریز کی 10کتابیں، تین ناول، 102سے زائد
ڈرامے اور خاص طور پر بچوں کے لیے کئی سو (تقریباً ساڑھے تین سو) کہانیاں
اور ڈرامے لکھے۔ یہ بچوں سے محبت کا عملی ثبوت بھی ہے۔ انہوں نے ’’ادب لطیف‘‘
اور دیگر کئی ادبی رسائل و جرائد کے علاوہ ریڈیو میں ’’اسکرپٹ رائٹر اور
ڈرامہ نویس‘‘ کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔ ان خدمات کے باوجود تقدیر
کا لکھا بھی اٹل ہوتا ہے ۔ گزرتے ہوئے وقت کی اٹھتی دھول میں میرزا ادیب کی
آنکھوں کے آگے اندھیرے راج کرنے لگے، ہاتھوں میں ریشہ آگیا کانوں سے کچھ
زیادہ سنائی نہیں دیتا تھا بہت آہستہ بولتے اور لاٹھی کے سہارے چلتے تھے
ہاں ضرور باہر کمزور ہو گیا تھا مگر اندر بہت مضبوط اور توانا تھا کئی دنوں
تک ہسپتال کے بیڈ پر پڑے رہے بالاخر 31 جولائی کی کڑکتی دھوپ میں ان کی روح
پرواز کر گئی…… اور وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔
غلام عباس
غلام عباس کا نام افسانوں دنیا کے ماتھے پر جھومربنا ہوا ہے وہ17نومبر1909ء
کوامر تسر مشرقی پنجاب ، بھارت میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر1982ء کی رات
کراچی میں وفات پائی۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ غلام عباس بچوں کے ادب سے بھی
وابستہ رہے انہوں نے بچوں کے لیے بہت کچھ تخلیق کیا۔غلام عباس نے ابتدائی
تعلیم دیال سنگھ ہائی سکول، لاہور میں پائی۔ تعلیمی سلسلہ ٹوٹ ٹوٹ کر جڑتا
رہا۔ 1941ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ادیب عالم کیا، 1942ء میں میٹرک
اور یہیں سے 1944ء میں ایف ۔ اے کیا۔ بی ۔اے کا امتحان دینا چاہتے تھے لیکن
حالات نے اجازت نہ دی۔
آپ کے والد کا نام میاں عبد العزیز تھا۔غلام عباس کی تعلیم وتربیت لاہور
میں ہوئی اور ادبی زندگی کا آغاز تیرہ برس کی عمر میں ہوا،دیال سنگھ ہائی
سکول کے طالب علم تھے۔یہ زمانہ 1922ء کا ہے جب انہوں نے اپنا اولین افسانہ
’’بکری‘‘قلم بند کیا۔پندرہ برس کی عمر میں ان کا پہلا ترجمہ ’’جلا وطن
‘‘(مصنف ٹالسٹائی)تھا جوجنوری 1925ء میں رسالہ ’’ہزار داستان ‘‘لاہور میں
شائع ہوا۔انیس برس کی عمر میں فری لانس ادیب اور صحافی کے طور پر عملی
زندگی کا آغاز کیا۔1928ء تا 1937ء تک بچوں کے معروف رسالے ’’پھول ‘‘لاہور
اور خواتین کے محبوب پرچے ’’تہذیب نسواں‘‘کے نائب مدیرر ہے۔واضح رہے کہ یہ
دونوں پرچے دار الاشاعت لاہور کے مالک اور ادبی دنیا کی مشہور ومعروف ہستی
امتیاز علی تاج کی زیر نگرانی نکلا کرتے تھے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران 1938ء میں آل انڈیا ریڈیو،دہلی سے منسلک ہوئے اور
ریڈیو کے رسالہ ’’آواز‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔انہوں نے اسی سال ریڈیو کا ایک
اور رسالہ بہ زبان ہندی’’سارنگ‘‘بھی جاری کیا۔قیام پاکستان کے ساتھ 1947ء
میں پاکستان آگئے،ریڈیو کی ملازمت بر قرار رہی۔1948ء میں ریڈیو پاکستان کا
رسالہ ’’آہنگ ‘‘ان کی ادارت میں جاری ہوا۔1949ء میں کچھ وقت مرکزی وزارت
اطلاعات ونشریات سے وابستہ ہو کر بطور اسٹنٹ ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز خدمات
انجام دیں۔ 1949ء میں ہی بی بی سی لندن سے بطور پروگرام پروڈیو سر وابستہ
ہوئے 1952ء میں وطن واپس آکر ایک بار پھر ’’آہنگ ‘‘کی ادارت سنبھالی جہاں
سے 1967ء میں ریٹائر ہوئے۔بی بی سی کی ملازمت کے دوران فرانس اور سپین میں
کچھ وقت گزارا۔دو شادیاں کیں،پہلی شادی 1939ء میں اور دوسری 1952ء میں۔پہلی
بیوی کا تعلق علی گڑھ سے تھا جبکہ دوسری برطانوی نثراد اور انگریز خاتون
تھیں،جنہوں نے مولانا احتشام الحق تھانوی کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔غلام
عباس نے ریٹائر زندگی کراچی میں گزاری۔یکم نومبر 1982ء کی رات حرکت قلب بند
ہونے سے انتقال ہوا اور پی ای سی ایچ سو سائٹی کراچی سے قبرستان میں دفن
ہوئے۔ان کااولین مطبوعہ افسانہ:’’مجسمہ ‘‘مطبوعہ ’’کارواں‘‘لاہور 1933ء کو
شائع ہوا۔اوراولین مطبوعہ تحریر:’’جلا وطن ‘‘(ٹالسٹائی کی کہانی کا ترجمہ)
مطبوعہ ’’ہزار داستان ‘‘1924ء میں شائع ہوئی ایسے ہی ۔اولین تحریر:
’’بکری‘‘ (کہانی)تکمیل 1922ء جب یہ کہانی شائع ہوئی(اس وقت دیال سنگھ ہائی
سکول کے طالب علم تھے)
اے حمید
بچوں کے لئے لکھنے والوں میں ایک بڑا نام اے حمید کا ہے ۔اے حمید بڑے نثر
نگار تھے فطری مناظر کا تذکرہ ان کی تحریروں میں نغمے کی سی کیفیت پیدا کر
دیتا تھا۔ وہ پریوں کی دنیا ہوتی ۔ باغات کا بیان ہوتا تو ذہن میں پھول کھل
اٹھتے ، ان پرتتلیاں رقص کرتیں، چاند کاذکریوں کرتے کہ پڑھنے والا چاندنی
میں نہاجائے۔ چائے کی خوشبو پر بات کرتے، تو پڑھنے والے کو چائے کی طلب
ہونے لگتی۔ یہ تھا کمال ان کی نثر کا ۔ وہ اشیاء کا بڑی باریکی بینی سے
جائزہ لیتے اور انہیں اسی مہارت سے پیش کر دیتے ۔
ناقدین کے نزدیک اے حمید اپنے عہد کے ترجمان، جذباتی اور رومانی، فطرت سے
عشق کرنے والے افسانہ نگار ہیں۔ ایک خاص فضا اور ماحول کے انہوں نے کئی
افسانے لکھے جنہیں بڑصغیر کے قارئین نے بہت پسند کیا۔
ان کا پورانام عبدالحمید تھا وہ25اگست 1928ء کو امرتسر، برطانوی ہندوستان
میں پید اہوئے۔ میٹرک امرتسر سے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد پرائیویٹ امیدوار
کی حیثیت سے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے ایف اے
پاس کیا۔ لکھنے کا شوق بچپن سے تھا جو ریڈیو پاکستان کی سمت لایا اور وہ
اسسٹنٹ اسکرپٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ باصلاحیت تو تھے کچھ ہی عرصہ بعد وائس آف
امریکا سے وابستہ ہو گئے۔
صحافت اپنی جگہ، اصل میں تو ادیب تھے۔ اس جانب آنے کے بعد تیزی سے شہرت کے
زینے عبور کیے۔ 1948ء میں پہلا افسانہ ’’منزل منزل‘‘ ادب لطیف میں شائع
ہوا، تو اردو کے تمام ادیبوں کو ان کی خبر مل گئی۔ ناقدین نے کہا ، وہ
چھوٹے اور معمولی واقعے سے کہانی بنانے کا فن خوب جانتے ہیں۔ بعد میں آنے
والے افسانوں نے اس پر تصدیق کی مہرثبت کر دی۔ جزئیات اور کردار نگاری پر
خوب عبور تھا۔ ان کے کردار خوش گفتار ، خوش لباس ہوتے، ان میں توانائی بھری
ہوتی ۔ اپنی تحریروں میں انہوں نے ایک عجیب نوع کی رومانی فضا تعمیر کی اور
پھر عمر بھر اسی فضا کے دھندلکوں میں رہنا پسند کیا۔
آنے والی تخلیقات نے رومانوی افسانہ لگاری میں ان کی شناخت کو مستحکم کیا۔
افسانوں کا پہلا ہی مجموعہ بے حدمقبول ہوا۔ فکشن نگاری کے ساتھ وہ اخبارات
کے لیے کالم بھی لکھتے رہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے تواتر سے لکھا۔ ان
شعبوں نے بھی ان کی شہرت کو مہمیز کیا۔
تعریف کرنے والے بہت ، توتنقید کرنے والے بھی کچھ کم نہ تھے۔ ان کی
رومانویت سے کچھ بڑے ادیب نالاں نظر آتے تھے۔ ان کے ہاں ماضی پرستی کی لہر
تھی، جو ترقی پسندوں کو ناگوار گزرتی۔ وہ گزرے ہوئے زمانہ کا نوحہ بیان کیا
کرتے۔ اس میں کھو جاتے۔ مخالفین کے مطابق وہ شعوری طور پر ان موضوعات پر
لکھتے تھے، انہیں علم تھا کہ قارئین اس سے محفوظ ہوتے ہیں۔ قاری انہیں پڑھ
کر گریز اور فرار کی رات پر چل پڑے۔ حال سے چھپ کرماضی میں پناہ لے لیتا۔
عملی زندگی کی سچائی کو بھلا دیتا ہے اور رومانویت میں کھو جاتا ۔
ایسا نہیں ہے کہ وہ معاشرتی حقائق سے لاعلم تھے، ان کے ہاں سماجی شعور تھا،
مگر رومانیت غالب رہتی۔ انداز بیان اتنا سحر انگیز اور دل نشین کہ عام سی
جگہ اور انسان بھی جادوئی اور ماورائی معلوم ہوتے۔ پڑھنے والا سرشار ہو
جاتا۔ ان کی تخلیقات منزل منزل، ڈربے ، اردو شعر کی داستان، اردو نثر کی
داستان، مرزا غالب لاہور میں، دیکھو شہر لاہور، یادوں کے گلاب، گلستان ادب
کی سنہری یادیں، لاہور ی یادیں، امرتسر کی یادیں کے زیر عنوان شائع ہوئیں۔
بیش ترکتب بیسٹ سیلر ثابت ہوئیں۔ آخر الذکر کو ان کی خود نوشت کہا جاسکتا
ہے۔
انہوں نے بچوں کے لیے بھی بہت لکھا۔ عنبرناگ ماریا سیزیز کی بہت پزیرائی
ہوئی۔ اس نے ایک عرصے تک پڑھنے والوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ اس میں
بھی بڑی گرفت اور طلسم تھا۔ آج بھی انہیں پڑھا جائے تو آدمی کھو جاتا ہے۔
یہی طلسم ان کے ڈراموں میں نظر آتا ہے۔انہوں نے بچوں کے مشہور و مقبول
ڈرامہ ’’عینک والا جن‘‘ لکھا جس نے بچوں کے تمام ڈراموں پرسبقت حاصل کر کے
ریکارڈ قائم کیا۔
2011میں ان پر بیماریوں نے حملہ کیا۔ انہیں سانس کی تکلیف کی شکایت پر
اسپتال میں داخل کروایا گیا۔ علاج کے ساتھ تکلیف بڑھتی گئی۔ آخری دنوں میں
گفتگو نہیں کر سکتے تھے۔ مسلسل کئی روز مصنوعی تنفس کی مشین پر رہے۔
29اپریل 2011 ء کو حالت بگڑ گئی۔ اسی روزان کا انتقال ہوا۔ اے حمید تو چلے
گئے مگر قارئین اب تک ان کے حصار سے نہیں نکل سکے۔ یوں لگتا ہے، ان کا اثر
کئی برس باقی رہے گا۔
محی الدین نواب
کہتے ہیں کہ محی الدین نواب کو پڑھنے کے لیے قاری کے پاس عمر خضر اور قارون
کا خزانہ ہونا چاہیے کہ ان کی کتب خریدتارہے اور بیٹھا پڑھتا رہے۔ جب باقی
لکھاری لکھتے لکھتے تھک جاتے ہیں تو صرف اور صرف محی الدین نواب کا جادو سر
چڑھ کر بولتا ہے۔ نت نئے الفاظ اور منفرد ترین خیالات جو نواب کا مقدر ہیں،
ان کے عالی درجہ دماغ پر یوں وارد ہوتے ہیں کہ قاری چاہے بھی تو کہانی کی
بازگشت سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔کیوں کہ یہ کہانی ایک جیتی جاگتی زندگی بن
جاتی ہے، افسانے کا خول توڑ کر باہر نکل آتی ہے۔
محی الدین نواب6ستمبر1930ء کو بنگال میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ دادا مصور
تھے۔ ان کی تعلیم کا آغاز ہندی زبان میں ہوا۔ پھر ایک کرسچن مشنری سکول میں
داخل ہوئے تو انگریزی میں بھی انہیں مہارت حاصل ہو گی۔ اُردو انہیں اپنے
گھر سے ملی تھی اور بنگلا زبان باہر سے۔ فارسی اور عربی انہوں نے دوران
تعلیم سیکھی۔ وقت نے انہیں موقع نہ دیا کہ وہ کسی استاد قلم کار سے اصلاح
لیتے لیکن مطالعہ شروع سے ہی ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ وہ اوائل عمر سے
ہی لکھنے لگے۔ 23 سال کی عمر میں ان کی پہلی کہانی ’’ایک دیوار، ایک شگاف‘‘
کراچی کے ایک نام وررسالے ’’رومان‘‘ میں شائع ہوئی اور انہیں اس کا معقول
معاوضہ ملا جس سے انہوں نے اپنے دوستوں کو دعوت عام دی۔ اپریل 1970ء میں وہ
مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان آئے اور لاہور میں ٹھہرے۔ لاہور میں جلد ہی
انہوں نے اپنا زور قلم منوا لیا اور اس ہیرے کا انتخاب ایک بہت بڑے اشاعتی
ادارے نے کر لیا وہ کراچی منتقل ہو گئے۔ تب دولت ان کے گھر کی باندی بن گئی
اور ان کی شہرت کا ڈنکاہر سو بجنے لگا۔ لاریب نواب صاحب اُردو میں سب سے
مہنگے رائٹر تھے۔ انہوں نے ایک طویل سلسلہ وار کہانی ’’دیوتا‘‘ لکھتے ہوئے
انٹرنیشنل ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ اس سے پہلے طویل ترین کہانی کا ریکارڈ
ہولڈر ایک جاپانی رائٹر تھا جو زیادہ دیر نواب صاحب کے طوفانی قلم کے سامنے
جم نہ سکا۔ ان کی یہ داستان عصر حاضر کی داستان الف لیلہ ولیلہ ہے۔
اب تک اُن کی ایک سو سے زائد کتب سامنے آچکی ہیں۔ ان کے بہت سے ناول بہت
مشہور ہوئے مثلاً پتھر، جرم وفا، اندھیر نگری، حیا کی سولی پر، آدھا چہرہ ،
قصہ نصف صدی کا، شارٹ کٹ ، پل صراط ، ناگزیر وغیرہ۔ ان کی کہانیوں پر مبنی
بہت سی کتابیں بھی ریکارڈ سیل کر چکی ہیں مثلاً ایمان کا سفر، کچرا گھر،
ایمان والے، کمبل، شعلوں کی سیج ، بدل الجمع ، طاعون، راہِ خارزار وغیرہ۔
نواب صاحب نے بنگال، انڈیا اور پاکستان کے بڑے بڑے فلم ڈائریکٹرز کے لیے
فلمیں بھی لکھیں۔ ان کے ناول ’’آدھا چہرہ‘‘ کی ڈرامائی تشکیل بھی کی گئی۔
اُن کی کہانیوں کو توڑ موڑ کر بھی فلمیں بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس کوشش میں
اصل کہانی خراب ہو جاتی ہے، اس لیے وہ اس بات اور چوری کو پسند نہیں کرتے
مگر اپنے اعلیٰ ظرف کی بدولت خاموش رہتے رہے۔
نواب صاحب قلم کا گھوڑا بھگانے میں شہ سوارتھے۔ ان کی ایک مٹھی میں الفاظ
بند ہوتے تھے تو دوسری میں خیالات ۔ الفاظ سانس لینے کو رکتے تو خیالات
برسنے لگتے تھے اور ابھی خیالات تھمنے کا نام نہیں لیتے کہ الفاظ پھر اپنا
رنگ جمادیتے ۔ ان کی مٹھیاں کھلتی اور بند ہوتی جاتی تھیں، قاری کہانی میں
دوبتا چلا جاتا تھا۔ کہانی نواب صاحب پر وارد نہیں نازل ہوتی تھی، آسمان سے
اﷲ مالک کا خاص انعام ان پر اترتا تھا۔ نواب صاحب انسانی نفسیات پر بہت غور
و فکر کرتے ہوئے کہانی لکھتے ۔ پھر انہیں بنگلا، ہندی اردو، انگریزی، عربی
فارسی، پنجابی اور سندھی زبانوں پر دسترس حاصل تھی، لہٰذا کئی زبانوں کا
ادب پڑھتے رہتے ۔ وہ بہت مقامات پر رہ چکے تھے۔ اور ان میں تحقیق کا مادہ
بہ درجہ کمال موجود تھا۔ وہ مکمل تحقیق و تدبر کے بعد ہی کچھ لکھتے تھے۔ ان
تمام عوامل سے ہی وہ اتنے بڑے لکھاڑی بنے ۔ محی الدین نواب کی والدہ انہیں
’’نواب‘‘ نہیں بلکہ ’’نواب صاحب‘‘ کہلوانا پسند کرتی تھیں…… اور پھر نواب
صاحب نے واقعی ا ن کا ارمان پورا کر دکھایا۔ نواب صاحب نئی نسل کا انٹرنیٹ
اور موبائل فون پر وقت گنوانا، بہت برا خیال کرتے تھے کہ جدید دور کی یہ دو
نعمتیں وقت گنوانے کے لیے نہیں، صرف زندگی سنوارنے کے لئے استعمال کرنی
چاہیے۔ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ اس عظیم الشان فن کارنے تنگی ترشی
کازمانہ بھی دیکھا مگر یہ حالات سے نبرد آزما رہے اور آج ان کا نام ہی ان
کا تعارف ہے۔ نواب صاحب نے بچوں کے لئے بھی بہت سی کہانیاں لکھیں جو تعلیم
و تربیت سمیت بچوں کے مختلف رسالوں میں چھپتی رہیں۔
محمد علی چراغ
بچوں کے لیے لکھنے والوں میں ایک بڑا نام محمد علی چراغ کا تھا۔ بچوں کے
لیے خدمات سرانجام دے کر وہ بھی اپنا نام امر کر گئے آج وہ اس دنیا میں
نہیں ہیں مگر ادب کے حوالے سے ان کا نام تاریخ کا حصہ بن گیا ہے ۔ محمد علی
چراغ کا انتقال ہوا تو بہت سے چاہنے والوں نے ان میں یاد کی شمع جلائیں ان
کے لیے کلمات خیر کہے۔ انہیں شاہ کمال قبرستان رحمان پورہ میں سپرد خاک کیا
گیا۔ محمد علی چراغ نے اپنے شاندار علمی، ادبی کیریئر میں مختلف اداروں میں
خدمات سرانجام دیں جن میں نیشنل بک سنٹر، نیشنل بک کونسل آف پاکستان ،
نیشنل بک فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ محمد علی چراغ آخری دونوں مولانا ظفر علی خاں
ٹرسٹ میں بحیثیت ریسرچ آفیسر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کی عمر74برس
تھی۔ وہ بچوں کے مشہور رسالے تعلیم و تربیت کے بھی ایڈیٹررہے اس کے علاوہ
انہوں نے45کے قریب کتابیں لکھیں جنہیں بڑے اشاعتی اداروں نے شائع کیا۔ محمد
علی چراغ نے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے لیے بھی ڈرامے لکھے۔انہیں بعض
بڑی اور قد آور شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملاجن میں قدرت اﷲ شہاب ،
ابن انشاء ممتاز مفتی، اشفاق احمد، سیدقاسم محمود، فہمیدہ ریاض ، احمد فراز
، ابوالحسن نغمی اور یونیسکو کے عہدیدار بھی شامل ہیں۔ محمد علی چراغ اعلیٰ
تعلیم یافتہ تھے اورانہوں نے صحافت اور پنجابی میں ماسٹرڈگری پنجاب
یونیورسٹی سے حاصل کر رکھی تھی۔ محمد علی چراغ کے والد حاجی چراغ دیں بھی
معروف ادیب اور شاعر تھے۔ مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کے چیئرمین خالد محمود،
خازن مجیب الرحمن شامی نے محمد علی چراغ کے انتقال کو ادب اور تحقیق کے
شعبے میں ایک سانحہ قراردیا ہے۔ ظفر علی خاں ٹرسٹ کے لیے ان کی گراں قدر
خدمات کو سیکرٹری ٹرسٹ راجہ اسد علی خاں نے شاندار الفاظ میں خراج عقیدت
پیش کیا ہے۔
|