ہم بنے لکھاری

تحریر:صدف نایاب
جی تو دوستوں یہ بات ہے، نہ نہ،بڑی پرانی نہیں۔ صرف دو سال پہلے کی جب ہم پر ایک مضمون نگاری کے مقابلے میں شرکت کا بھوت سوار ہوا۔ اصل میں تو یوں کہہ لیجیے کہ لکھنے لکھانے کا شوق تو بچپن سے ہی تھا۔ مگر کبھی اس کو باقاعدہ صلاحیت کے روپ میں نہ جانا تھا۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اپنی اس خدادا صلاحیت کو ہم پہچانتے ہی نہ تھے۔ بہرحال اس مقابلے میں حصہ لیا بڑے چاؤ سے مضمون لکھ کر بھیجا مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نا ہوئی۔ ہم نے اپنے دل ناداں کو یہ کہہ کر سمجھایا۔ کہ تم ابھی نومولود ہو اس میدان میں، یہ تو وہ لوگ ہی بازی مارتے ہیں جو لکھنے کا فن جانتے ہیں۔ خیر وقت گزرتا گیا۔ کراچی سے ہماری خالہ ساس آئیں انھیں جب ہمارے اس شوق کا پتہ چلا تو ایک اور مضمون نویسی کے مقابلے سے روشناس کروایا۔ ہم نے اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس بار اﷲ نے ہمیں کامیابی عطا کی۔

زندگی کی گاڑی یوں ہی گھر بچوں کے ساتھ چلتی گئی پھر ایک وقت آیا جب ہماری تحریریں چھپنے لگیں۔ ہم بڑے خوش ہوتے اور خوش ہونے والی بات بھی تھی کہ ہم بھی کسی قابل ٹھہرے۔ ہر وقت اسی سوچ میں غرق رہتے کس کی کہاں شایع ہورہی ہے؟ ہماری کب شایع گی، ہماری کیوں نہیں شایع ہوئی؟ لکھنے میں اتنا وقت لگانا کہ نماز تک کا ہوش نہ رہنا۔ پھر بعد میں اس بات پر بھی کڑھنا کہ نماز رہ گئی۔پھر تحریروں کا معیار بھی گرنے لگا۔ غرض یہ کہ ایک وقت آیا جب ہم خود ہی الجھنے لگے کہ گھر بچے اور لکھنا سب ساتھ ساتھ کیسے کریں؟

شروع شروع میں تو یہ ایک شوق تھا مگر آہستہ آہستہ لکھنے کے مقاصد سمجھ آنا شروع ہوئے۔ سب سے پہلی بات جو اس زمر میں اتی ہے وہ یہ کہ لکھنے سے انسان کی اپنی ہی تربیت ہوتی ہے۔ پھر جو اصلاح وہ دوسروں کی کرنا چاہتا ہے۔ جب وہ ہی سبق وہ بار بار دہراتا ہے تو اسے خود بھی یاد ہو جاتا ہے۔ دوسری بات صرف اﷲ کی رضا کے لیے لکھو یعنی ہمارے لکھے ہوئے سے اور ہماری تحریروں کے پڑھنے سے جو لوگ بھی کچھ سیکھیں گے۔ اﷲ انھیں ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنا دے۔ ہماری نیت خالص اﷲ کے لیے ہونی چاہیے اور یہ ہی اصل مقصد ہے لکھنے کا۔

لکھنا ایک ایسی سرگرمی ہے جو انسان کے جذبات اور احساسات کو بھی تقویت بخشتی ہے۔بعض اوقات ہم پریشان ہوتے ہیں یا اپنے اردگرد اور معاشرے میں پھیلی کسی برائی پر کڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں جہاد بالقلم ہی وہ واحد زریعہ ہوتا ہے جس کے زریعے حق بات آگے پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس میدان میں ہمیں مشکل کا بھی سامنا رہا۔بچوں کے ساتھ بیٹھ کر لکھنا اور جیسے ہی کوئی موبائل یا لیپ ٹوپ کھولا ادھر بچے آدھمکے۔اس طرح کی چھوٹی موٹی پریشانیاں بہت آئیں۔ مگر ایک پریشانی جس کے بعد ہم نے لکھنے کے لیے صحیح سمت کا تعین کیا تو ہوا کچھ یوں کہ ہم نے ایک مضمون میں حصہ لیا ،جس کا عنوان بالکل ہمارے مزاج کے متضاد تھا۔ دن رات ایک کر کہ تحقیقی مضمون لکھا۔ مگر سر درد کے باعث اس کے کافی عرصے تک کچھ نہ لکھ سکے۔ کیوں کہ مضمون کا مواد ڈھونڈنا ایسے لوگوں سے رابطہ کرنا سب کچھ کافی مشکل تھا۔

اس سوچ کے بعد ہم باقاعدہ پلاننگ کر کے اپنے مقصد امر بالمعروف ونہی عن المنکر جیسے فریضہ کو سوچ کر لکھنے لگے اور ہمارے اندر کا سارا کِبر اور غرور بھی خاک میں ملتا گیا۔ ہم ندامت کے آنسو لیے بار گاہ الٰہی میں شکربجالائے۔ ایک جھٹکے میں وہ سارا خمار آسمان سے زمین پر پٹخ دیا ور اپنی اس قابلیت پر جو کہ ہماری نہیں اﷲ کی دی ہوئی ہے۔ پر شکرانہ بھی ادا کیا اور توبہ استغفار کو بھی لازم پکڑ لیا۔لکھنے جیسی مہارت اﷲ کی دین ہے۔ اس پر اترانے کے بجاے شکر کرنا چاہیے۔ہمارے اﷲ کا ہم پر سب سے زیادہ حق ہے۔ اس لیے اسے قدم قدم پر ادا کرنے کی فکر کیجئے۔ آپ کا حق خود بخود آپ کے پاس چل کر آئے گا۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.