حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا " خبردار تم میں سے ہر شخص اپنی رعیت کا نگہبان ہے اور
(قیامت کے دن ) تم سے ہر شخص کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑے گا
، لہٰذا امام یعنی سربراہ مملکت وحکومت جو لوگوں کا نگہبان ہے اس کو اپنی
رعیت کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی، مرد جو اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے
اس کو اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی عورت جو اپنے خاوند
کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے ، اس کو ان کے حقوق کے بارے میں جواب
دہی کرنی ہوگی اور غلام مرد جو اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اس کو اس کے
مال کے بارے میں جواب داہی کرنا ہوگی لہٰذا آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک تم
میں سے ہر ایک شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنی رعیت کے بارے
میں جواب دہ ہوگا ۔" (بخاری ومسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے سب سے اچھا ہو اور میں تم
سب میں اپنے گھر والوں کے لئے زیادہ اچھا ہوں۔(ابن حبان)
ایک میل کی گئی تحریر کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آپکے سامنے رکھتا ھوں
اس امید کہ ساتھ کہ ہم اپنے اندر کے جانور کو سیدھے راستے پر لا سکے.....
میرے گھر والے میری شادی کرنا چاہتے تھے۔مجھے اس چیز سے کوئی خاص مطلب نہ
تھا ۔گھر والوں نے اک لڑکی دیکھی ۔۔اور پسند کی ۔مجھے تصویر دیکھائی
گی۔۔مجھے تو اک عام سے لڑکی لگی۔کوئی خاص چیز تو نظر نہ ائی۔میں نے کہا اپ
لوگوں کو پسند ہے تو اوکے کر دو۔منگنی ہو گئی۔میں نے نہ تو کبھی کال کی نہ
کبھی ان کے گھر گیا ۔مجھے یہ سب چیزیں کی فکر ہی نہ تھی۔میں اپنی زندگی میں
خوش تھا ۔اچھا کما لیتا تھا۔اپنا کام تھا۔اوپر فلیٹ تھا ۔باہر سے کھانا
کھاتا اور سو جاتا ۔پورا دن نیچے کام پر گزارتا تھا ۔دل کیا تو گھر بھی چلے
جاتے تھے ہم۔شادی کا دن ا گیا ۔میں نے گھر کہا ۔۔بس نکاح کرو ۔اور کوئی رسم
وغیرہ رہنے دو۔۔مجھے بس یہی تھا۔اک لڑکی کی زمےداری اٹھانی ہے بس۔کھانے
پینے اور جو وہ ضرورت کی چیزیں مانگے لا دو بس ۔۔مطلب کے شادی نہ بھی ہوتی
تب بھی اپنا گزارہ ہو رہا تھا۔شادی ہو بھی جائے تو فرق تو انا نہیں
تھا۔۔۔شادی ہوئی لڑکی کو گھر لے آئے باقی وہ جو رسم وغیرہ ہوتی ہے۔۔یہ تو
سب گھر والوں کی ہوتی ہے ۔۔رخصتی وغیرہ کے بعد میں گھر ا گیا۔خیر میں نے
کہی پڑھا تھا ۔شادی کے دو نفل ادا کرنے ہوتے ہیں۔۔میں نے وہ بھی ادا کر لے
وہ اسی بہانے عشا کی نماز بھی پڑھ لی۔ویسے کبھی دل میں ایا تو نماز پڑھی لی
نہیں تو نہ سہی۔اور میں سو گیا۔جو میری روٹین تھی مجھے نیند ائی اور میں سو
گیا۔۔۔نہ تو مجھے خوشی تھی اور نہ ہی غم ۔شادی کا۔اگلے دن میں اٹھا اور کام
پر آگیا ۔دو دن اسے ہی گزار گے۔۔۔
بات چیت ہوئی بس اتنی جتنا اس نے پوچھا جواب دے دیا ۔اس سے زیادہ کچھ
نہیں۔۔اس نے پوچھا کیا اپ شادی سے خوش نہیں میں نے کہا ۔مجھے دکھ بھی
نہیں۔میں لوگوں میں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لیتا ہو بس۔۔نہ کبھی میں نے اس کی
تعلیم پوچھی نہ کچھ اور ۔میں نے کون سا جاب کروانی تھی۔اک دو بار گھر
چھوڑنے گیا اس کو امی کے کہنے پر ۔۔نہ میں نے اس کو پردے کا کہا۔نہ حجاب کا
اس کو جو اچھا لگے کر لے۔مطلب کے اپنا عمل دخل کچھ نہ تھا۔
۔سوچنے پر تو وہ بھی مجبور تھی ۔بندہ ہے کہ کیا چیز۔میں سویا ہوا تھا ۔میرا
پئر کا انگھوٹا اس نے پکڑا اور کہا اٹھے نماز پڑھ لے۔۔میں نے ارد گرد
دیکھا۔خیر میں نے اس کو کچھ کہا نہیں ویسے کوئی ملازم اٹھتا تھا جب اس کی
خیر نہ ہوتی تھی ۔۔میں بولا کچھ نہیں میں نے سوچا۔چلاو اب اٹھ گیا تو نماز
بھی پڑھ لو۔۔دو رکعت نماز ادا کی اور پھر بستر پر ۔اب وہ میرے پاس ہئ بیٹھ
گی۔قران پڑھنے لگی ۔میں مست ہو کہ سویا ہوا۔اواز تو اہستہ اہستہ ارہی تھی
خیر میں اٹھا نہایا ناشتہ بنا دو اواز ائی میں نے کہا نہیں ۔میں لیٹ کرتا
ہو اور میں اپنے کام پر خیر لیٹ تھا میں گھر نہیں گیا اور فلاٹ پر ہی سو
گیا ۔۔اگلے دن میں گھر گیا تو امی نے کلاس لی ۔کہ گھر کیوں نہیں ایا۔اب
تیری شادی ہو گی ہے۔جتنا مرضی لیٹ ہو جائے گھر انا ہے ۔وہ پاس ہی کھڑی
تھی۔میں اچھا کہا کر جا کے کمرے میں سو گیا۔تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی کمرے
میں اگی ۔میں نے پوچھا امی سے تم نے کہا اس نے کہا میں تو امی کو نہیں کہا۔
اگلی صبح اس نے پھر مجھے اٹھا دیا ۔اور خود جائے نماز پر کھڑی نماز ادا کی
نیت اب بندہ اس کو کیا کہے ۔۔خیر ہم نے بھی شرم وشرمی وضو کر کے نماز ادا
کر ہی لی ۔اس کے بعد اس نے کہا اپ میری بات سنے ۔میں نے کہا جی کہے۔میں اپ
کی بیوی ہو ۔میں نے کہا ہاں جی ۔بیوی کے کچھ حقوق ہوتے ہیں میں نے کہا۔پتہ
ہے۔اس کے بعد وہ قران پڑھنے لگی۔میں خاموش اپنے موبائل پر لگا رہا۔اگلی رات
وہ شرارتیں کرنے لگی ۔اور جسے تسے اس کے حقوق ادا کے۔۔یا اس نے اپنے حقوق
لے لیے۔
وہ لڑکی اہستہ آہستہ میری زندگی میں انولو ہونے لگی۔خیر اپنے بھی مزے ہونے
لگے۔ہر چیز تیار ملنے لگی۔کپڑے جوتے وغیرہ۔ہر چیز اپنی جگہ پر ملتی کہی بھی
پھنک دو۔نماز پڑھنے لگا تھا اب۔مطلب زندگی اب بہتر ہوئی تھی ۔اس کے انے سے
اور کافی مل گل گے تھے ہم ۔اس نے قران پڑھنا تو میرا سر اس کی گود میں ہوتا
۔یا اس کی ٹانگ پر۔۔اواز پیاری تھی ۔اکثر سو بھی جاتا۔جب تک میں خود نہ
اٹھتا وہ جاگتی نہیں قران پڑھتی رہتی ۔اب میں کام پر اکثر لیٹ بھی ہونے
لگا۔۔اس کی گود میں سر رکھ کے سونے کا مزہ ہی الگ تھا ۔اک بات اور گھر سے
کام پر جاتے وقت میں نے اسے ہی اس کو اواز دی اور اس کا ماتھا چوم لیا۔شام
کو گھر ایا ۔تو رنگ روپ ہی بدلہ ہوا۔اتنا خوش بندہ میں نے دیکھ ہی نہں۔میں
نے سوچا یہ تو کام ہی بڑا سستا ہے۔۔اب ہر روز ماتھا چوم کر جاتا۔وہ کہی بھی
مصروف ہو گھر کے کاموں میں اس نے کوئی نہ کوئی بہنہ کر کے کمرے میں انا
۔۔تاکہ میں اس کا ماتھا چوم سکو۔نرم لحجا کمال کی گفتگو۔کمال کی محبت
پسندکےکھانے۔سکوں کی نیند ۔۔زندگی مکمل ہو گی۔
زندگی میں لوگ کسے خاموشی سے داخل ہوتے ہیں اور اپ پر حکمرانی کرنے لگتے
ہیں۔کیا جرات ہماری جو انکار کر سکے اسےکی بار تو دل نکال کر دینے کو بھی
دل کیا۔خاموش محبت بہت پیاری ہوتی ہے۔۔محبت الفاظوں کی نہیں احساس کی ہوتی
ہے۔۔۔محبت کا تعلق عزت سے ہے۔عورت کو احساس دو تم میری ہو ۔وہ روح تک دے
دیتی ہے اس پر بھی اپ کا حق ہوتا ہے۔۔۔عورت مرد کے لے سکوں ہے۔
حضرت احوص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد
فرماتے ہوئے سنا: غور سے سنو عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو اس لئے کہ
وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم ان سے اپنی عصمت اور تمہارے مال کی حفاظت وغیرہ
کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ ہاں اگر وہ کسی کھلی بے حیائی کا
ارتکاب کریں تو پھر ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ دو یعنی ان کے ساتھ
سونا چھوڑدو لیکن گھر ہی میں رہو اور ہلکی مار مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری
فرمانبرداری اختیار کرلیں تو ان پر (زیادتی کرنے کے لئے) بہانہ مت ڈھونڈو۔
غور سے سنو! تمہارا حق تمہاری بیویوں پر ہے (اسی طرح) تمہاری بیویوں کا تم
پر حق ہے۔ تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی ایسے شخص کو
نہ آنے دیں جس کا آنا تم کو ناگوار گزرے اور نہ وہ تمہارے گھروں میں تمہاری
اجازت کے بغیر کسی کو آنے دیں۔ غور سے سنو! ان عورتوں کا تم پر حق یہ ہے کہ
تم ان کے ساتھ ان کے لباس اور ان کی خوراک میں اچھا سلوک کرو (یعنی اپنی
حیثیت کے مطابق ان کے لئے ان چیزوں کا انتظام کیا کرو)۔
حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فر
مایا جب کوئی شخص اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے اور وہ پوری
رات اس(بیوی) سے نا راض رہے تو صبح تک فر شتے ( بیوی پر) لعنت بھیجتے رہتے
ہیں ۔( سنن ابی داوُد، جلد دوم کتاب النکا ح :2141
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا
کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے خا وند کی اجازت کے بغیر کو ئی ہد یہ
دے۔
(سنن ابی دا وُد، جلد دوم کتاب السبیوع :3547
۔ گھر داری عورت کو اس کی خوبصورتی یا قابلیت اور صلاحیت سے محروم نہیں
کرتی بلکہ عورت کو مکمل کرتی ہے...دوسری طرف دور حاضر کی عورت کو بھی
محبوبہ بننے کا شوق زیادہ ہے لیکن گھرداری والی مکمل اسلامی تعلیمات سے
آگاہ بیوی بننے سے کتراتی ہیں۔ مشرق تا مغرب یہی دیکھاہے اور دکھایا بھی
چاہئے کہ گھرداری والی مکمل دین اسلام والی عورت کو ہر معاشرے میں عزت ملتی
ہے۔ کیونکہ ایک مشرقی ؤ اسلامی عورت کی پہچان ہی اس کی گھر داری ہے جس سے
آجکل کی نوجوان لڑکیاں جان چھڑانا چاہتی ہیں.وہ بھول جاتی ہیں کہ مرد توجہ
اور اہمیت چاہتا ہے۔ ماں اور بہنوں سے پیار اور اہمیت کا عادی مرد بیوی سے
بھی توجہ اور محبت کی امید رکھتا ہے جبکہ عورت بچوں اور گھرداری میں شوہر
کے جذبات اور فطری تقاضوں کو ادا کرنے میں بعض اوقات حق تلفی کر جاتی
ہیں.تو پھر ان حالات میں مرد کا دوسری عورتوں کی طرف متوجہ ہونا عجب بات
نہیں۔ کاش کبھی کوئی ڈرامہ ایسا بھی بنایا جائے جس میں بیوی کو محبوبہ کے
روپ میں پیش کیا جائے تاکہ مشرق کی عورت کو بیوی بننے ساتھ محبوبہ بننے کا
شعور دین اسلام کی روشنی میں بھی دیا جا سکے۔عورت ہمیشہ محبوب بیوی کے روپ
میں حسین لگتی ہے-
مرد حضرات بھی توجہ فرماۓ اور اپنے حقوق سرور کائنات محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرے کیونکہ باہر سے حرام اور مردار
کھایا جائے تو گھروں اور زندگیوں میں سکون اور برکت کیسے آ سکتی ہے؟
گھرداری کی توہین سے ہمیشہ عورت نہ صرف اپنا مقام گنواتی ہے بلکہ اپنا مرد
بھی گنوا دیتی ہے۔ مرد خواہ کس قدر آزاد خیال کیوں نہ ہو لیکن اس کے دل میں
ہر وقت گھرداری والی ماں راج کرتی ہے۔ مشرق کی بیوی کو محبوبہ بننے کے لئے
کچن یعنی اپنے شوہر کے معدے سے ہو کر دل میں جانا پڑتا ہے پھر بحیثیت
مسلمان ھونے کے ناطے وہ مکمل بہو اور ماں کے روپ میں ذمہ داریاں نبھانا
اپنی جگہ ایک الگ عمل ھے لیکن شوہر کی منظور نظر بننے کےلئے بیوی کم اور
محبوبہ زیادہ بننا پڑتاہے مگر دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ھوۓ کیونکہ
ایسا کرنے سے محبوبہ بیوی کا شوہر پھر دوسری عورت میں محبوبہ تلاش نہیں
کرتا اور جب تلاش ختم ھو جاۓ تو معاشرہ بھی پاک دامن, نیک, نسل کی بنیاد
رکھتا ہے. |