اقبال اور تہذیبِ فرنگ

تحریر: رباب اختر

کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا

اقبال کی شاعری میں زیادہ تر مخاطب مسلم نوجوان ہیں۔۔۔ وہ کہ جن میں کچھ کر دکھانے کا جوش اور جذبہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔۔۔ جنہیں صحیح سمت رہنمائی بھی اقبال نے اپنے دیوان لکھ کر دی۔۔ مسلم نوجوانوں کو ان کے آباء اور اسلاف کی سیرت دکھائی کہ کس طرح جذبۂ ایمانی کی بدولت ان کا پوری دنیا پہ راج اور دبدبہ تھا،

آج انہیں کا وارث اگر محکوم ہے تو فقط اس وجہ سے کہ اس میں وہ جذبہ نہیں رہا اپنے دین اور اسلاف کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر مغربی علوم اور تہذیب نے اسے فرنگی غلام بنا رکھا ہے۔۔

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

اقبال واضح طور پر مغربی تہذیب کی آزاد خیالی اور علوم کی لادینیت سے نالاں تھے کہ جس کے حصول کے بعد مسلم نوجوان نہ صرف اپنی اصل تہذیب کو بھولا بلکہ دین اسلام کی تعلیمات کو بھی یکسر فراموش کرگیا۔۔ یہ دین تو مغلوب ہونے نہیں بلکہ غالب ہونے کو آیا تھا پھر اس کا پیروکار کیسے مادیت پرستی کے ہاتھوں مغلوب نظر آتا ہے۔۔۔؟؟

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

بلکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مغربی اور جدید علوم حاصل کرنے کے ساتھ مسلمان اس فرنگی تہذیب کو اپنے دین اسلام سے مرعوب کرتے، ان تک اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اپنے کردار و عمل سے پہنچاتے تو آج وہ قوم ہمارے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ہستی کے اخلاق اور شخصیت سے واقف ہوتی۔۔۔ تو جو ان کی شان میں گستاخی تواتر سے کی جاتی ہے ان میں کچھ کمی ہوتی یا انہیں مسلم قوم کا رعب و دبدبہ باز رکھتا یا انہیں انہی کی قوم کے افراد کی مخالفت کا سامنا ہوتا۔۔۔۔ کرنے کو مسلم نوجوان اب بھی یہی کرسکتا ہے خودی کو پہچان لے خود میں ایمانی جذبہ بیدار کرے۔۔ مغربی اور جدید علوم ضرور سیکھے لیکن اپنے دین کو ساتھ لے کر چلے کہ اپنے نام کے ساتھ اپنے کردار و عمل سے خود کو اسلاف کا وارث ثابت کر دکھائے۔۔۔ ہر نوجوان اسی جذبے اور لگن سے بڑھے تو جس طرح قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے اسی طرح وہ ایک مضبوط قوم بن کر پھر سے غالب آجائیں گے۔۔ ان شاءاللہ

جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا
تو کرلیتا ہے یہ بال و پرِ روح الامیں پیدا

Muhammad Naeem Shehzad
About the Author: Muhammad Naeem Shehzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shehzad: 144 Articles with 120871 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.