معشرتی رجحانات اور لبرل انتہاپسندی

آسیہ بی بی کے معاملے پر پچھلے دنوں ہمارا ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہا اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں پائے جانے والے مختلف رجحانات سامنے آئے جو درج ذیل ہیں۔

لبرل: ایسے افراد کے نزدیک مذہب عقائد اور ان کا احترام دقیانوسی باتیں ہیں جن کی آج کے ترقی یافتہ دور میں کوئی جگہ نہیں ایسے لوگوں کا مقصد مذہبی معاملات کو کم تر اور حقیر ثابت کرنا ہوتا ہے کیوں کہ مذہب ان کی بہت سی ناجائز عادتوں پر قدغن لگاتا ہے جو انھیں کسی طرح قبول نہیں ایسے افراد لبرلز کہلاتے ہیں اور ان کی اچھی خاصی تعداد آپ کو میڈیا میں بھی نظر آئے گی جو مذہبی رحجانات کو کمتر اور دقیانوسی سمجھ کر ان پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔

عام مسلمان: ایسے افراد متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور مذہبی معاملات میں جذباتی ہوتے ہیں یہ افراد ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں بچپن سے ہی ان کو مذہبی رجحانات سے واقفیت کروا دی جاتی ہے نماز کی پابندی اور قرآن پاک کی تلاوت ان کے معمولات میں شامل ہوتا ہے اس طرح کے افراد دنیاوی معاملات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اس طرح ایک مشرقی مذہبی سوچ جنم لیتی ہے جو دین کے ساتھ ساتھ اپنے حدود میں رہتے ہوئے دنیاوی معاملات میں بھی اپنا حصہ ڈالتی ہے۔

مذہبی انتہا پسند: ایسے لوگ شدت پسند رجحانات کے حامل ہوتے ہیں ان کے نزدیک ان کا نظریہ ہی درست ہوتا ہے اور ان کے نظریے سے اتفاق نہ کرنے والا کافر ٹھہرتا ہے۔بعض اوقات اس طرح کے لوگ ریاست کے لئے چیلنج بن جاتے ہیں ان کی جڑیں عوام میں بڑی مضبوط ہوتی ہیں اس کی وجہ مذہبی تعلیم اور مطالعہ کی کمی ہے ایسے افراد کو معاشرہ مذہبی انتہا پسند کا نام دیتا ہے۔

اعتدال پسند: اس طبقے میں وہ علمائے کرام شامل ہیں جو اپنے آپ کو ان فتنوں سے الگ تھلگ کرکے اپنے کام میں مگن ہیں وہ افراد کی ایسی کھیپ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو معاشرے کے لئے کارگر بھی ہو اور اس کی اصلاح کا باعث بھی بنے ان کے وسائل محدود اور مسائل لاتعداد ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس جہاد میں مصروف عمل ہیں پچھلے دنوں آسیہ بی بی کے معاملے پر اس طبقے نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا نہ کوئی شیشہ ٹوٹا اور نہ کوئی پتھر اپنی جگہ سے ہلا حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق کی شہادت کی خبر پر بھی انتہائی صبر اور تحمل سے کام لیا گیا اور ریاست کو نقصان پہنچائے بغیر اس عظیم غم کو برداشت کیا گیا۔ یہ کوئی خلائی مخلوق نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمیں ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ صرف مذہبی رجحانات کو انتہاپسندی کا نام دیا جاتاہے لیکن کیا لبرلزم اپنی انتہا پر نہیں ہے لفظ انتہاپسندی سے ہی ظاہر ہے کہ اس سے مراد معاشرے کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنا ہے کیا آج ہم ذرائع ابلاغ پر جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ انتہا پسندی نہیں؟ کیا مذہبی رجحانات کی نفی کرکے اس کی جگہ مغربی معاشرے کو رائج کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی کیا فلموں اور ڈراموں کے ذریعے خاندانی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں ہو رہی کیا آج ہمارے قومی ٹی وی پر چلنے والے ڈراموں میں طلاق، شادی شدہ عورت کا غیر مرد سے تعلق، بے راہ روی، معاشرے کے ہر شعبے میں مخلوط نظام کی ترویج کے موضوعات نہیں دکھائے جا رہے کیا عورت کی آزادی کے نام پر عورت تک پہنچنے کی آزادی پر کام نہیں ہو رہا کیا آج یہ کوشش نہیں کی جا رہی کہ کسی طریقے سے پاکستان کے وجود کے نظریے کو ہی تبدیل کردیا جائے کیا آج کے معاشرے میں یہ سوچ ہموار نہیں کی جا رہی کہ مذہبی رجحانات اور مذہبی وضع قطع رکھنے والے افراد دہشت گردوں کے حامی ہیں داڑھی جو کے شائر اسلام میں شامل ہے کا مذاق نہیں اڑایا گیا کیا پائنچے اونچے رکھنے پر دقیانوسی کے طعنے نہیں دیے گئے میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ کرنے والے لبرل انتہا پسند نہیں ہیں؟ کیا ان کے اس طرز عمل سے عدم برداشت کا مادہ نہیں جلکتا یہ وہی عدم برداشت تھا جو سلمان تاثر کے لبوں پر آیا اور ذرائع ابلاغ نے اس کی خوب تشہیر کی اور اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

ان لبرلز کا خیال ہے کہ ریاست انتہا پسندوں (یہ انتہا پسندی کے الفاظ صرف مذہب کے لیے استعمال کرتے ہیں) کے ہاتھوں یرغمال ہے جیسا کہ پچھلے دنوں آسماء شیرازی صاحبہ نے اپنے کالم میں تحریر کیا ان محترمہ اور اس طرح کے بہت سے کرداروں نے پوری کوشش کی کہ ریاست کسی طرح احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرے اور بدقسمتی سے اپوزیشن نے بھی درپردہ اس موقف کی حمایت کی اس طرح کے اور بھی بہت سے کردار آپ کو یہاں ملیں گے جو دراصل اس وقت ریاست کو یرغمال بنائے بیٹھے ہیں اور اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ کسی طرح پاکستان سے اسلامی نظریئے کو حذف کر دیا جائے۔

مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے جس پر لوگ جان قربان کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے جب ایک طبقے کے ان رجحانات کو طاقتور ترین ذرائع ابلاغ کے ذریعے ٹھیس پہنچائی جائے گی مذہبی طبقہ کو دیوار سے لگایا جائے گا تو کیوں مذہبی انتہاپسندی وجود میں نہیں آئے گی کیا ذرائع ابلاغ کے طاقتور ہونے سے پہلے ہمارے معاشرے میں اس حد تک انتہاپسندی تھی کیا نظریہ پاکستان کے تبدیل کرنے کی باتیں ہوتی تھی کیا مذہبی رجحانات رکھنے والے افراد کو دہشت گردوں کا حامی قرار دے کر ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا؟ مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دینے میں لبرل انتہا پسندی کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور اسی کے نتیجے میں انتہا پسند لیڈروں کو اپنی دکان چمکانے کا موقع ملتا ہے۔

معاشرے کا درمیانی طبقہ جوان دو انتہاؤں کے بیج پس رہا ہے وہ نہ تو مذہبی انتہا پسندی کا حامی ہے اور نہ ہی لبرل انتہا پسندی کا اس کی مثال اس اسپرنگ کی طرح ہے جسے دونوں طرف سے دبایا جا رہا ہے حکومت کو چاہئیے کہ مذہبی انتہاپسندی کے خلاف بیان دینے کے بجائے لبرل انتہا پسندی کو کنٹرول کرے جو درحقیقت مذہبی انتہا پسندی کی اصل وجہ ہے۔
 

Imran Ahmed Memon
About the Author: Imran Ahmed Memon Read More Articles by Imran Ahmed Memon: 8 Articles with 6821 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.