افادات: مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ
ترتیب: مولانا ندیم احمد انصاری
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ذات قرآن مجید اور حضرت نبی کریم ﷺ
اور امت کے درمیان ایسا واسطہ ہیں کہ اگر ان پر زبانیں کھولی گئیں تو پورا
دین مشکوک ہو کر رہ جائے گا۔ اسی لیے علما نے اس بابت بہت احتیاط برتی ہے
اور کسی کو اجازت نہیں دی کہ جس شخص کی صحابیت ثابت ہو اسے برائی کے ساتھ
یاد کرے۔ اس کے باوجود آج بعض لوگ اس در پر ہیں کہ تاریخ کی روشنی میں فیضِ
صحبتِ نبوت کو غلط ثابت کریں۔ان حالات میں دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ اس
موضوع پر کچھ تحریر کیا جائے کہ کل قیامت میں یارانِ نبی کے دفاع کرنے
والوں میں میرا نام شامل ہو سکے،لیکن موضوع کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے
ہم نے یہاں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ کی مشہور تفسیرِ قرآن -معارف
القرآن- سے بعض اقتباسات مع جدید عنوانات پیش کرنے پر اکتفا کیا ہے۔حضرت
موصوف کا ایک مستقل رسالہ بھی بزبانِ اردو اس موضوع پر بنام -مقامِ صحابہ-
مطبوع ہے، تفصیل وہاں ملاحظہ فرمالیں۔
ارشادِ خداوندی
وَمَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِيْرَاثُ
السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ
قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ
الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ ۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ
اللّٰهُ الْحُسْنٰى ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ ۧ (الحدید)
اور تمھارے لیے کون سی وجہ ہے کہ تم اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرو، حالاں
کہ آسمانوں اور زمین کی ساری میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ تم میں سے جنھوں نے
(مکہ کی) فتح سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی لڑی، وہ (بعد والوں کے) برابر نہیں
ہیں۔ وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں، جنھوں نے (فتحِ مکہ کے) بعد
خرچ کیا، اور لڑائی لڑی۔ یوں اللہ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے،
اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (توضیح القرآن)
لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ،
یعنی مسلمانوں میں فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں ؛ ایک
وہ جو فتحِ مکہ سے پہلے ایمان لے آئے اور مومن ہو کر اللہ کی راہ میں مال
خرچ کیا ، دوسرے وہ جو فتحِ مکہ کے بعد جہاد میں شریک ہوئے اور فی سبیل
اللہ خرچ میں بھی یہ دونوں قسمیں اللہ کے نزدیک برابر نہیں ، بلکہ درجاتِ
ثواب کے اعتبار سے ان میں تفاضل ہے ۔ فتحِ مکہ سے پہلے ایمان لانے والے اور
جہاد کرنے والے اور خرچ کرنے والے درجۂ ثواب کے اعتبار سے بڑھے ہوئے ہیں ،
دوسری قسم سے یعنی جن لوگوں نے فتحِ مکہ کے بعد اسلامی خدمات میں شرکت کی۔
تمام صحابہ کرامؓ کا باقی امت سے امتیاز
آیاتِ مذکورہ میں اگرچہ صحابۂ کرام میں باہمی درجات کا تفاضل ذکر کیا گیا
ہے لیکن آخر میں فرمایا: وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى، یعنی
باوجود باہمی فرقِ مراتب کے اللہ تعالیٰ نے حسنیٰ یعنی جنت و مغفرت کا وعدہ
سب ہی کے لیے کرلیا ہے ۔ یہ وعدہ صحابۂ کرام کے ان دونوں طبقوں کے لیے ہے
جنھوں نے فتحِ مکہ سے پہلے یا بعد میں اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور مخالفینِ
اسلام کا مقابلہ کیا۔ اس میں تقریباً صحابۂ کرام کی پوری جماعت شامل ہو
جاتی ہے، کیوں کہ ایسے افراد تو شاذ و نادر ہی ہو سکتے ہیں جنھوں نے مسلمان
ہو جانے کے باوجود اللہ کے لیے کچھ خرچ بھی نہ کیا ہو اور مخالفینِ اسلام
کے مقابلے و مقاتلے میں بھی شریک نہ ہوئے ہوں ، اس لیے قرآنِ کریم کا یہ
اعلانِ مغفرت و رحمت پوری جماعتِ صحابۂ کرام کے لیے عام اور شامل ہے ۔
ابن حزمؒ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ قرآن کی دوسری آیت سورۂ انبیاء کو
ملاؤ جس میں فرمایا ہے: اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا
الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ۔ لَا يَسْمَعُوْنَ
حَسِيْسَهَا ۚ وَهُمْ فِيْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَ۔ یعنی جن
لوگوں کے لیے ہم نے حسنیٰ کو مقرر کردیا ہے، وہ جہنم سے ایسے دور رہیں گے
کہ اس کی تکلیف دہ آوازیں بھی ان کے کانوں تک نہ پہنچیں گی اور اپنی دل
خواہ نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
حسنیٰ کے معنی
آیاتِ زیر بحث میں وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى، مذکور ہے اور اس
آیت میں جن کے لیے حسنیٰ کا وعدہ ہوا ان کے لیے جہنم کی آگ سے بہت دور
رہنے کا اعلان ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے اس کی ضمانت دے دی
کہ حضراتِ صحابہ سابقین و آخرین میں سے کسی سے بھی اگر عمر بھر میں کوئی
گناہ سرزد ہو بھی گیا تو وہ اس پر قائم نہ رہے گا، توبہ کر لے گا یا پھر
نبی کریم ﷺ کی صحبت و نصرت اور دین کی خدماتِ عظیمہ اور ان کی بےشمار حسنات
کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا اور ان کی موت اس سے پہلے نہ
ہوگی کہ ان کا گناہ معاف ہو کر وہ صاف و بے باق ہو جائیں، یا دنیا کے مصائب
و آفات اور زیادہ سے زیادہ برزخ میں کوئی تکلیف ان کے سیئات کا کفارہ ہو
جائے۔
کسی صحابی کو آخرت میں عذاب نہیں ہوگا
جن احادیث میں بعض صحابۂ کرام پر مرنے کے بعد عذاب کا ذکر آیا ہے، وہ
عذابِ آخرت و عذابِ جہنم کا نہیں برزخی یعنی قبر کا عذاب ہے۔ یہ کوئی بعید
نہیں ہے کہ صحابۂ کرام میں سے اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہو اور اتفاقاً
توبہ کر کے اس سے پاک ہو جانے کا بھی موقع نہیں ہوا تو ان کو برزخی عذاب کے
ذریعے پاک کردیا جائے گا، تاکہ آخرت کا عذاب ان پر نہ رہے۔
صحابہ کرامؓکا مقام تاریخی روایات سے نہیں پہچانا جاتا
خلاصہ یہ ہے کہ حضراتِ صحابۂ کرام عام امت کی طرح نہیں، وہ رسول اللہ ﷺ
اور امت کے درمیان اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ایک واسطہ ہیں ، ان کے بغیر نہ
امت کو قرآن پہنچنے کا کوئی راستہ ہے اور نہ معانی قرآن اور تعلیماتِ
رسول اللہ ﷺ کا۔ اس لیے اسلام میں ان کا ایک خاص مقام ہے، ان کے مقامات کتبِ
تاریخ کی رطب و یابس روایات سے نہیں پہچانے جاتے ، بلکہ قرآن و سنت کے
ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔
صحابۂ کرام سے خطا ہوئی بھی تو وہ اجتہادی تھی
ان میں سے اگر کسی سے کوئی لغزش اور غلطی بھی ہوتی ہے تو اکثر وہ اجتہادی
خطا ہوتی ہے جس پر کوئی گناہ نہیں ، بلکہ حسبِ تصریحِ احادیثِ صحیحہ ایک
اجر ہی ملتا ہے اور اگر فی الواقع کوئی گناہ ہی ہوگیا تو اول وہ ان کے عمر
بھر کے اعمالِ حسنہ اور رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی نصرت و خدمت کے مقابلے
میں صفر کی حیثیت رکھتا ہے ، پھر ان میں خشیت اور خوفِ خدا کا یہ عالم تھا
کہ معمولی سے گناہ سے بھی لرز جاتے اور فوراً توبہ کرتے اور اپنے نفس پر اس
کی سزا جاری کرنے کے لیے کوشش کرتے تھے۔ کوئی اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے
باندھ دیتا اور جب تک توبہ قبول ہو جانے کا یقین نہ ہو جائے بندھا کھڑا
رہتا تھا اور پھر ان میں سے ہر ایک کی حسنات اتنی ہیں کہ وہ خود گناہوں کا
کفارہ ہو جاتی ہیں۔
صحابۂ کرام سب کے سب مغفور ہیں
ان سب پر مزید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطاؤں کی مغفرت کا عام اعلان
اس آیت میں اور دوسری آیات میں فرما دیا اور صرف مغفرت ہی نہیں بلکہ رضی
اللہ عنہ ورضوا عنہ فرما کر اپنی رضا کی بھی سند دے دی۔ اس لیے ان کے آپس
میں جو اختلافات اور مشاجرات پیش آئے، ان کی وجہ سے ان میں سے کسی کو برا
کہنا یا اس پر طعن و تشنیع کرنا قطعاً حرام اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے
مطابق موجبِ لعنت اور اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ نعوذ باللہ منہ۔
آج کل تاریخ کی جھوٹی سچی، قوی، ضعیف روایات کی بنا پر جو بعض لوگوں نے
بعض حضراتِ صحابہ کو مورد طعن و الزام بنایا ہے ، اول تو اس کی بنیاد جو
تاریخی روایات پر ہے وہ بنیاد ہی متزلزل ہے اور اگر کسی درجے میں ان روایات
کو قابلِ التفات مان بھی لیا جائے تو قرآن و حدیث کے کھلے ہوئے ارشادات کے
خلاف ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ، وہ سب مغفور ہیں ۔
صحابۂ کرامؓ کے بارے میں اجماعی عقیدہ
صحابۂ کرامؓ کے بارے میں پوری امت کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابۂ
کرام کی تعظیم و تکریم ، ان سے محبت رکھنا ، ان کی مدح و ثنا کرنا واجب ہے
اور ان کے آپس میں جو اختلافات اور مشاجرات پیش آئے، ان کے معاملے میں
سکوت کرنا ، کسی کو موردِ الزام نہ بنانا لازم ہے۔ عقائدِ اسلامیہ کی تمام
کتابوں میں اس اجماعی عقیدےکی تصریحات موجود ہیں ۔ امام احمدؒ کا رسالہ جو
بروایت اصطخری معروف ہے، اس کے بعض الفاظ یہ ہیں :
لا یجوز لاحد ان یذکر شیئا من مساویھم ولا یطعن علیٰ احد منھم بعیب ولا نقص
فمن فعل ذلک وجب تادیبہ۔ (شرح العقیدۃ الواسطیتہ معروف بہ الدرۃ المفیتہ )
کسی کے لیے جائز نہیں کہ صحابۂ کرام کی کسی برائی کا ذکر کرے، یا ان میں
سے کسی پرطعن کرے یا کوئی عیب یا نقصان ان کی طرف منسوب کرے اور جو ایسا
کرے اس کو سزا دینا واجب ہے۔
اور ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں صحابۂ کرام کے متعلق فضائل و خصوصیات
کی بہت سی آیات اور روایاتِ حدیث لکھنے کے بعد لکھا ہے:
وھذا مما لا نعلم فیہ خلافا بین اہل الفتہ والعلم من اصحاب رسول اللہ (ﷺ)
والتابعین لھم باحسان وسائر اہل السنة والجماعة فانھم مجمعون علیٰ ان
الواجب الثناء علیھم و الاستغفار لھم والترحم علیھم والترضی عنھم واعتقاد
محبتھم وموالاتھم وعقوبة من اساء فیھم القول ۔
جہاں تک ہمارے علم میں ہے ہم اس معاملے میں علما، فقہا، صحابہ و تابعین اور
تمام اہل السنۃ و الجماعۃ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پاتے، کیوں کہ سب کا
اس پر اجماع ہے کہ امت پر واجب یہ ہے کہ سب صحابۂ کرام کی مدح و ثنا کرے
اور ان کے لیے استغفار کرے اور ان کو اللہ کی رحمت و رضا کے ساتھ ذکر کرے ،
ان کی محبت اور دوستی پر ایمان رکھے اور جو ان کے معاملے میں بےادبی کرے اس
کو سزا دے۔
(ماخوذ ا ز معارف القرآن)
٭٭٭٭ |