موجودہ دور دین بے زاری کا دور ہے، جس کا فایدہ اٹھاتے
ہوئے بعض لوگوں نے اپنی کج علمی اور کج فہمی کے ذریعے شرعی اصطلاحوں کو مسخ
کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ امارت بھی ایک اہم شرعی اصطلاح ہے، جو وسیع معنوں
میں استعمال ہوتی ہے اور جس کے احکامات علما و فقہا نے تفصیل کے ساتھ اپنی
کتابوں میں ذکر کر دیے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد صرف اور صرف عوام کو اس شرعی
اصطلاح سے واقف کرانا اور اس کی ہمہ گیریت پر روشنی ڈالنا ہے، اس لیے تفصیل
سے گریز کرتے ہوئے نہایت اختصار کے ساتھ چند باتیں ذکر کر دی ہیں۔
امارت کے معنی
لفظ-امارت- کا اطلاق امیر کے منصب کے لیے اور کبھی زمین کے اس حصے پر ہوتا
ہے جس پر کوئی امیر حکم رانی کرتا ہے۔ اصطلاحِ فقہ میں امارت کا لفظ فی
الجملہ اسی معنی میں مستعمل ہے جو لغوی معنی ہے، البتہ امارت عام معاملات
میں ہوا کرتی ہے اور اس کا حصول امام المسلمین (مسلمانوں کے سربراہِ اعلیٰ)
کی طرف سے ہوتا ہے۔
ويطلق على منصب الأمير، وعلى جزءٍ من الأرض يحكمه أمير.والاصطلاح
الفقهيّ لا يخرج عن هذا المعنى في الجملة، إلاّ أنّ الإمارة تكون في
الأمور العامّة، ولا تستفاد إلاّ من جهة الإمام، أمّا الولاية فقد تكون
في الأمور العامّة، وقد تكون في الأمور الخاصّة، وتستفاد من جهة الإمام
أو من جهة الشّرع أو غيرهما، كالوصيّة بالاختيار والوكالة.(الموسوعہ
الفقہیہ الکوتیہ)
امارت کی تقسیم اور اس کا شرعی حکم
امارت کی دو قسمیں ہیں؛ امارتِ عامہ اور امارتِ خاصہ۔
امارتِ عامہ سے مراد خلافت یا امامتِ کبریٰ ہے اور یہ فرضِ کفایہ ہے۔ جو
امور فرضِ کفایہ ہیں؛ جیسے قضا، صدقات کی وصولی اور لشکر تیار کرنا وغیرہ ،
ان میں سے بہ وقتِ ضرورت کسی خاص فرض کی انجام دہی کے لیے امارتِ خاصہ قائم
کی جاتی ہے۔ یہ تخصیص کبھی تو مکانی ہوتی ہے، جیسے کسی شہر یا خاص خطے کی
حکومت اور کبھی زمانی ، جیسے کہ امیر الحج اور اس طرح کے دیگر امرا۔
امارتِ خاصہ عامۃ المسلمین کے مصالح کے پیشِ نظر وجود میں آتی ہے اور امیر
المؤمنین کی صواب دید پر مبنی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ قبائل و شہروں کے لیے
اپنے نائب کی حیثیت سے عمال اور گورنر بنا کر بھیجا کرتے تھے اور خلفاے
راشدین نے بھی اس پر عمل کیا۔ احکامِ سلطانیہ کی کتابوں کے مصنفین نے اپنی
کتابوں میں امام المسلمین کی لازمی ذمے داریوں میں اس کو بھی شمار کیا ہے،
چناں چہ امیر المؤمنین پر یہ واجب ہے کہ گرد و نواح کے شہروں، لشکروں اور
ان مصالح کے لیے جن کو امام براہِ راست انجام نہیں دے سکتا ہے، امیر مقرر
کر دے۔
تنقسم الإمارة إلى عامّةٍ وخاصّةٍ: أمّا العامّة فالمراد بها الخلافة
أو الإمامة الكبرى، وهي فرض كفايةٍ، وينظر تفصيل أحكامها في مصطلح
(إمامة كبرى). وأمّا الإمارة الخاصّة: فهي لإقامة فرضٍ معيّنٍ من
فروض الكفاية دون غيره، كالقضاء والصّدقات والجند إذا دعت الحاجة إلى ذلك
التّخصيص. وقد يكون التّخصيص مكانيّاً، كالإمارة على بلدٍ أو إقليمٍ
خاصٍّ. كما يكون زمانيّاً، كأمير الحاجّ ونحوه. والإمارة الخاصّة من
المصالح العامّة للمسلمين والمنوطة بنظر الإمام. وكان الرّسول ﷺ ينيب عنه
عمّالاً على القبائل والمدن، وفعل ذلك الخلفاء الرّاشدون. وعدّها أصحاب
كتب الأحكام السّلطانيّة من الأمور اللّازمة على الإمام، فيجب عليه أن
يقيم الأمراء على النّواحي والجيوش والمصالح المتعدّدة فيما لا يستطيع أن
يباشره بنفسه. (ایضاً)
حضرت عمر کا فرمان
حضرت تمیم داری ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں
لوگوں نے تعمیرات میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مکان تعمیر کرنا شروع کردیا
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اے عرب کے رہنے والو! زمین کے
ساتھ رہو گے، کیوں کہ جماعت کے بغیر اسلام کی کوئی حثییت نہیں ہے، امارت کے
بغیر جماعت کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اطاعت کے بغیر امارت کی کوئی حثییت نہیں
ہے، جس شخص کو اس کی قوم اس کی سمجھ کی وجہ سے اپنا امیر مقرر کرے، وہ شخص
اپنے لیے اور قوم کے لیے خیر کی زندگی ہوگا، اور جس شخص کے جاہل ہونے کے
باوجود اس کی قوم سے اپنا امیر بنا لے، وہ شخص خود بھی ہلاک ہوگا اور لوگوں
کے لیے بھی ہلاکت کا باعث بنے گا۔
عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَالَ تَطَاوَلَ النَّاسُ فِي الْبِنَاءِ فِي
زَمَنِ عُمَرَ فَقَالَ عُمَرُ يَا مَعْشَرَ الْعُرَيْبِ الْأَرْضَ
الْأَرْضَ إِنَّهُ لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ وَلَا جَمَاعَةَ
إِلَّا بِإِمَارَةٍ وَلَا إِمَارَةَ إِلَّا بِطَاعَةٍ فَمَنْ سَوَّدَهُ
قَوْمُهُ عَلَى الْفِقْهِ كَانَ حَيَاةً لَهُ وَلَهُمْ وَمَنْ سَوَّدَهُ
قَوْمُهُ عَلَى غَيْرِ فِقْهٍ كَانَ هَلَاكًا لَهُ وَلَهُمْ۔(سننِ دارمی)
امارت طلب کرنے کی مذمت
عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: اے
عبدالرحمن بن سمرہ! امارت طلب نہ کرو، اس لیے کہ اگر تمھیں طلب کرنے کے بعد
امارت دے دی گئی تو تم اس کے حوالے کردیے جاؤ گے اور اگر بغیر مانگے تمھیں
امارت مل جائے تو تمھاری مدد کی جائے گی، اور جب تم کسی بات پر قسم
کھاؤاور بھلائی اس کے علاوہ میں پاؤ تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کردو اور
وہ چیز کرو جو اس سے بہتر ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ ، قَالَ: قَالَ
النَّبِيُّ ﷺ: يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، لَا تَسْأَلِ
الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ
وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُوتِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ
أُعِنْتَ عَلَيْهَا، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتَ
غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ، وَأْتِ
الَّذِي هُوَ خَيْرٌ. (بخاری)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،حضرت نبی کریم ﷺ نے حضرت زید،
جعفر اور عبداللہ بن رواحہ کو لشکر دے کر بھیجا اور زید بن حارثہ کو امیر
بنایا۔ جب وہ سب کے سب شہید ہوگئے تو حضرت نبی کریم ﷺ نے خبر پہنچنے سے قبل
ہی ان تینوں کی شہادت کی خبر دی اور فرمایا : زید نے جھنڈا تھاما، وہ شہید
ہوگئے، پھر جعفر نے اور پھر عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا تھاما، وہ دونوں بھی
شہید ہوگئے۔ پھر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے جھنڈا
تھام لیا۔ آپ یہ بتا رہے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- بَعَثَ زَیْدًا
وَجَعْفَرًا وَعَبْدَ اللَّہِ بْنَ رَوَاحَۃَ وَدَفَعَ الرَّایَۃَ إِلَی
زَیْدٍ فَأُصِیبُوا جَمِیعًا قَالَ أَنَسٌ فَنَعَاہُمْ رَسُولُ اللَّہِ
-ﷺ- إِلَی النَّاسِ قَبْلَ أَنْ یَجِیئَ الْخَبَرُ قَالَ : أَخَذَ
الرَّایَۃَ زَیْدٌ فَأُصِیبَ ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِیبَ ثُمَّ
أَخَذَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَأُصِیبَ ثُمَّ أَخَذَ
الرَّایَۃَ بَعْدُ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِ اللَّہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ ۔
قَالَ فَجَعَلَ یُحَدِّثُ النَّاسَ وَعَیْنَاہُ تَذْرِفَانِ۔(سنن کبریٰ
بیہقی)
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو امارت کا اہل ہو وہ نائب بن سکتا ہے
اور اگر وہ دیکھے کہ کوئی اور اہل موجودہ نہیں تو بغیر مقرر کیے بھی امیر
بن سکتا ہے، جیسا کہ خالد بن ولید نے کیا۔ لیکن اہل کے موجود ہوتے ہوئے،
ہواے نفس سے خود امارت کا دعویٰ کرنا درست نہیں۔
وَفِیہِ دَلاَلَۃٌ عَلَی أَنَّ النَّاسَ إِذَا لَمْ یَکُنْ عَلَیْہِمْ
أَمِیرٌ وَلاَ خَلِیفَۃُ أَمِیرٍ فَقَامَ بِإِمَارَتِہِمْ مَنْ ہُوَ
صَالِحٌ لِلإِمَارَۃِ وَانْقَادُوا لَہُ انْعَقَدَتْ وِلاَیَتُہُ حَیْثُ
اسْتَحْسَنَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- مَا فَعْلَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ مِنْ
أَخْذِہِ الرَّایَۃَ وَتَأَمُّرِہِ عَلَیْہِمْ دُونَ أَمْرِ النَّبِیِّ
-ﷺ- وَدُونَ اسْتِخْلاَفِ مَنْ مَضَی مِنْ أُمَرَائِ النَّبِیِّ -ﷺ-
إِیَّاہُ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔(سنن کبریٰ بیہقی)
امیر ہونا بڑی ذمے داری کا کام ہے
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول
کیا آپ ﷺ مجھے عامل نہ بنائیں گے؟ تو آپﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے
پر مار کر فرمایا: اے ابوذر تو کمزور ہے اور یہ امارت امانت ہے، اور یہ
قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے، سوائے اس کے جس نے اس کے حقوق پورے
کیے اور اس بارے میں جو اس کی ذمےداری تھی اس کو ادا کیا۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللّهِ أَلَا تَسْتَعْمِلُنِي
قَالَ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَی مَنْکِبِي ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ
إِنَّکَ ضَعِيفٌ وَإِنَّهَا أَمَانَةُ وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ
خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا وَأَدَّی الَّذِي
عَلَيْهِ فِيهَا. (مسلم)
ایک روایت میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے
فرمایا: اے ابوذر ! میں تم کو کمزور محسوس کر رہا ہوں، اور میں تمھارے
واسطے و ہی پسند کرتا ہوں جو اپنے واسطے پسند کرتا ہوں کہ تم کبھی دو شخص
کی امارت یا یتیم کے مال کی ولایت قبول نہ کرنا (یعنی امیر بننا اور یتیم
کے مال کا ولی بن جانا بہت بڑی ذمہ داری کا اور مشکل کام ہے)۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أنَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ : يَا أَبَا ذَرٍّ
إِنِّي أَرَاكَ ضَعِيفًا، وَإِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ
لِنَفْسِي لَا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَيْنِ وَلَا تَوَلَّيَنَّ عَلَى
مَالِ يَتِيمٍ.(مسلم)
صحابۂ کرام کا احتیاط
رافع بن ابی رافع سے روایت ہے، جب لوگوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو
منصبِ خلافت کے لیے چن لیا تو رافع کہتے ہیں، میں نے کہا : یہ تو وہی شخص
ہیں جنھوں نے مجھے نصیحت کی تھی کہ میں کبھی بھی دو آدمیوں پر امیر بننا
قبول نہ کروں گا۔ چناں چہ میں مدینہ پہنچا اور ابوبکر سے بات کی اور پوچھا؛
اے ابوبکر ! آپ مجھے جانتے ہیں ؟ فرمایا : اچھی طرح۔ میں نے عرض کیا : آپ
کو یاد ہے آپ نے مجھے کسی وقت نصیحت کی تھی کہ میں آدمیوں پر امیر نہ
بنوں ، حالاں کہ اب آپ پوری امت کی امارت قبول کررہے ہیں! حضرت ابوبکر رضی
اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوچکی ہے اور لوگوں کو
زمانۂ کفر سے نکلے زیادہ وقت نہیں گزرا، اس لیے مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ
اسلام سے نہ پھر جائیں اور باہم انتشار کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس لیے میں
ناپسندیدگی کے باوجود اس میدان میں اترا ہوں اور وہ بھی اپنے ساتھیوں کے
مسلسل اصرار کے بعد۔ رافع فرماتے ہیں : آپ مجھے اس طرح اپنے اعذار گنواتے
رہے یہاں تک کہ میں نے ان کا عذر قبول کرلیا۔
عن رافع بن أبي رافع قال: لما استخلف الناس أبا بكر، قلت: صاحبي الذي
أمرني أن لا أتامر على رجلين، فارتحلت فانتهيت إلى المدينة فتعرضت لأبي
بكر، فقلت له يا أبا بكر أتعرفني؟ قال: نعم؟ قلت: أتذكر شيئا قلته لي
أن لا أتأمر على رجلين، وقد وليت أمر الأمة؟ فقال: إن رسول الله ﷺ قبض
والناس حديث عهد بكفر فخفت عليهم أن يرتدوا وأن يختلفوا فدخلت فيها وأنا
كاره، ولم يزل بي أصحابي، فلم يزل يعتذر حتى عذرته. ابن راهويه والعدني
والبغوي وابن خزيمة.(کنزالعمال)
شیخین میں سے دونوں اپنا دامن بچا رہےتھے
محمد بن سیرینؒ سے مروی ہے کہ بنی زریق کے ایک آدمی نے بتایا کہ جب وہ دن
-جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی- آیا تو حضرت ابوبکر اور حضرت
عمر نکل کر انصار کے پاس گئے اور ابوبکر نے ارشاد فرمایا: اے انصار کی
جماعت ! ہم تمھارے حق کا انکار نہیں کرتے کیوں کہ تمھارے حق کا انکار کوئی
مومن نہیں کرسکتا۔ اللہ کی قسم ہم کو جو خیر حاصل ہوئی تم اس میں ہمارے
(برابر کے) شریک ہو، لیکن عرب قریش ہی کے کسی آدمی کے امیر بننے پر راضی
ہوں گے اور اسی کا اقرار کریں گے، کیوں کہ قریش زبان میں سب سے فصیح ترین،
وجاہت میں لوگوں میں سب سے بڑھ کر اور ٹھکانے میں عرب کے درمیان میں اور
جسمانی توانائی میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ لہٰذا آئو اور عمر کی بیعت کرلو۔
لوگوں نے کہا : نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کیوں ؟ لوگ بولے :
ہم کو خوف ہے کہ ہم پر اوروں کو ترجیح دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
نے فرمایا : جب تک میں زندہ ہوں تم پر کسی کو ترجیح نہ دی جائے گی، لہٰذا
تم ابوبکر کی بیعت کرلو۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ
عنہ سے فرمایا : تم مجھ سے زیادہ قوی ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا
: آپ مجھ سے زیادہ افضل ہیں۔ دونوں نے اپنی اپنی بات دہرائی۔ تیسری مرتبہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : میری قوت
آپ کی فضیلت کے ساتھ ہے یعنی میں آپ کا بھرپور تعاون کروں گا۔ پھر لوگوں
سے فرمایا : ابوبکر سے بیعت کرلو۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے
وقت لوگ حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح کے پاس بھی آئے، لیکن انھوں نے فرمایا:
تم میرے پاس آئے ہو، حالاں کہ تمھارے درمیان ثانی اثنین ہے۔
عن محمد بن سيرين أن رجلا من بني زريق قال: لما كان ذلك اليوم خرج أبو
بكر وعمر حتى أتوا الأنصار فقال: يا معشر الأنصار إنا لاننكر حقكم ولا
ينكر حقكم مؤمن وإنا والله ما أصبنا خيرا إلا شاركتمونا فيه، ولكن لا
ترضى العرب ولا تقر إلى على رجل من قريش لأنهم أفصح الناس ألسنة؛ وأحسن
الناس وجوها وأوسط العرب دارا وأكثر الناس شحمة في العرب، فهلموا إلى عمر
فبايعوه، فقالوا: لا فقال عمر: فلم؟ فقالوا: نخاف الأثرة فقال: أما ما
عشت فلا بايعوا أبا بكر، فقال أبو بكر لعمر: أنت أقوى مني، فقال عمر:
أنت أفضل مني، فقالاها الثانية، فلما كانت الثالثة قال له عمر: إن قوتي
لك مع فضلك، فبايعوا أبا بكر، وأتى الناس عند بيعة أبي بكر أبا عبيدة
بن الجراح فقال: تأتوني وفيكم ثاني اثنين.(کنزالعمال)
امارت کی حرص کرنے والوں کا انجام
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:
عنقریب تم (لوگ) امارت کے حریص ہوں گے اور قیامت کے دن (اس عمل پر) تمھیں
ندامت ہوگی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ:
إِنَّكُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَى الْإِمَارَةِ وَسَتَكُونُ نَدَامَةً يَوْمَ
الْقِيَامَةِ، الحدیث. (بخاری)
|