انسان کبھی کبھی مُفت کا غم پال لیتا ہے جو اُس کا غم بھی
نہیں ہوتا بلکہ غم ہی نہیں ہوتا ۔
بات صرف اتنی سی ہوتی ہے کہ اُس نے دوسری طرف نگاہ ہی نہیں کی ہوتی اور
سوچنے کا زاویہ نہیں بدلا ہوتا ۔ اُس کا زہن ایک جگہ پھنس کر رہ جاتا ہے
اور اُس کا وجود دھنس کر رہ جاتا ہے بلکہ ضد پر اُتر آتا ہے کہ جو میں نے
سوچا ، جو میں نے کہا ، جو میں نے پسند کیا وُہی دُرست ہے اور ویسا ہی ہونا
چاہیے۔
اس جزباتی پن میں غلط فیصلوں کا امکان بڑھتا ہے ۔
غُصہ کی حالت میں بھی اسی قسم کے نقصانات کا انیشہ ہے اور اپنی صحت کا
نقصان ہوتا ہے ۔
غُصہ کی حالت میں بھی اپنی پوسیشن بدلنے سے یا پانی پینے سے اس میں کمی لائ
جاسکتی ہے۔
غُصہ کو مُثبت سمت بھی دی جاسکتی ہے کہ بجاۓ غُصہ کھانے یا کسی کو نُقصان
پہنچانے کے بجاۓ کوئ کام کر کے دکھا دیا جاۓ اور مُخالف کو اس طرح جواب دیا
جاے ۔
کسی سے تعلق خراب ہو سکتا ہے اور ببیٹھے بٹھاۓ ایک خوش انسان غم زدہ بھی ہو
سکتا ہے ۔
عورت اور مرد کی محبت ازدواجی رشتوں بلکہ ہر قسم کے رشتوں میں دراڑ بھی پڑ
سکتی ہے اور بوس boss یا بیگم سے جھاڑ بھی پڑ سکتی ہے۔
جب زہن اُلجھ جاۓ تو اُس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ
جہاں پر ہو وہ جگہ وقتی پر چھوڑ دے اور زہن کسی اور طرف موڑ دے ۔ یہ ممُکن
نہ ہو تو موضوع بدل لے۔
اصل مقصد تو زہنی کیفیت کا بدلنا ہے۔ بہت سی اُلجھنیں زہن کی کارستانیاں
ہوتی ہیں اور زہن سُلجھنے سے وہی انسان اگلے ہی لمحہ ٹھیک لگنے لگتا ہے جس
کی وجہ سے اُلجھن پیدا ہوئ تھی ۔ کسی ایک طرف توجہ مرکوز کرنے اور مصروفیت
اختیار کرنے سے بھی زہنی اُلجھنوں سے بچا جا سکتا ہے ۔ ہوسکتا ہے زہن تبدیل
ہو جاۓ اور دل نہ بدلے ۔
دل تو خُدا کے ہاتھ میں ہیں اور وہ پلٹ بھی سکتا ہے ۔
اور دلوں کا اطمئنان تو خُدا نے اپنی یاد میں ہی رکھا ہے۔
|