مسلمان تعلیمی پسماندگی کا شکار کیوں ہیں

امت مسلمہ جو کھبی اقوام عالم پر غالب تھی۔اور دنیا کا اقتدار جو کھبی مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا۔اس وقت مسلمان مذھبی توانائی،سیاسی توانائی اور علمی توانائی کے لحاظ سے عروج پر تھے۔ جسکی اصل وجہ مسلمانوں کا دین تھا۔ کیونکہ اسلام دین فطرت ہے وہ نہ قدیم و جدید کی بحث میں الجھتا ہے اور نہ چیزوں کی اچھائی اور برائی کا ایسا تصور دیتا ہے یعنی مسلمان اس بات کے پابند ہے کہ ہر اچھی اور دانائی کی بات کو اپنی سمجھ کر قبول کرلیں۔ اور کسی قسم کی تنگدلی و احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو۔جس کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلمنے ان الفاظ میں دی ہے(کلمتہ الحکمتہ ضالتہ الحکیم فحیث وجدھافھو احق بھا) یعنی ہر اچھی اور دانائی کی بات دانشمند کی گمشدہ پونجی ہے جہاں بھی وہ ملے اس کا وہ زیادہ مستحق ہے ایک اور روایت میں(ضالتہ المئومن)فرمایا ہے یعنیمومن کی گمشدہ پونجی ہےاور اس حدیث کا کتاب العلم میں ذکر کیا جانا اس بات پر دلیل ہے کہ علم اس کا اولین محل ہے۔اور اسلام نےامت مسلمہ کوعلم کے دونوں قسموں کی طرف رہنمائی کی ہے۔خواہ وہ علم وحی ہے. جس کا تعلق وحی الہی سے ہے یا علم عقلی جس کا تعلق عقل انسانی سے ہے۔ قران حکیم میں فرمان الہی ہے (خلق الانسان من علق ۔اقراءوربک الاکرم۔ الذی علمہ بالقلم۔ علمہ الانسان ما لم یعلم)یہ وہ پہلی حقیقت ہے جس سے قران حکیم نے پردہ ہٹایا کہ انسان کی پیدائش جس مادہ سے ہوی ہے اس کے اعتبار سے اگرچہ وہ کسی عزت وشرف کا مستحق نہیں ہے لیکن پروردگار عالم کا کرم یہ ہے کہ انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا،اور انسان کو وہ سکھایا جو وہ جانتا نہ تھا۔ اور دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا۔(وعلمہ ادمالاسماءکلھا)یعنی آدم کواسماء کل کا علم دیا گیا۔ الاسماء سے مراد اشیاءکی ذات،ان کے خواص،علم کے اصول،صفتوں کے قوانین اورآلات کی کیفیات وغیرہ ہیں جس پر تحقیق کر کے موجودہ علم وفن کے مختلف شعبے قائم ہوئے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح علم وحی کی تفصیلات بیان کئیں اسی طرح عقلی علوم کی چیزوں سے استفادہ کرکے رہنمائی فرمائی۔ شاید آپ کو یہ سنکر تعجب ہو کہپیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس اپنے زمانے کے جدید ترین قوت وآلات استعمال فرمائے۔ مثال کے طور پر(دبابہ)یہ خاص قسم کی گاڑی تھی جوتیر سے حفاظت کے لیے موٹا چمڑامنڈھ کربنائی جاتی اور قلعہ شکنی کے لیے استعمال کی جاتی تھی ۔(ضبر)لکڑی پر کھال منڈھ کر چھتری کی طرح بنائی جاتی جس کے ذریعے پیٹھ کی تیر سے حفاظت ہوتی تھی۔(منجنیق)یہ ایک قسم کی مشین تھی جس کے ذریعے وزنی پتھر دشمنوں پر برسائے جاتے تھے ۔(حسک) یہ ایک خاردار گھاس کی شکل کا ہتھیار تھا جس کو قلعہ اور لشکر کے چاروں طرف بکھیر کرراستہ کو مخدوش کیا جاتا تھا۔ بلکہ ابن ہشام کہتے ہےکہ طائف والو پر سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منجنیق چلائی اور حسک اپنے ہاتھ مبارک سے بکھیری۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرزعمل کی تفصیل سے اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے۔ جس کو مذھب کے بارے میں غلط تصور نے ایک بڑے طبقہ میں یہ خیال عام کردیا ہے۔ کہ صرف مروجہ مذھبی مراسم واعمال کی پابندی سے وہ سب کچھ مل جائے گا جس کو دنیا والے انتھک محنت وقربانی سے حاصل کرتے ہے۔ حالانکہ یہ بات قدرت کے قانون عدل کے خلاف ہے۔ اور اسی کی وجہ سے مسلمان تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے۔ اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علم وحی اور علم عقلی کو ایک دوسرے سے الگ تصور کیا جاتا ہے۔ یعنی جو قدیم علوم ہیں وہ دین ہے اور جو جدید علوم ہیں وہ دنیا ہے۔ یہاں تک کے ان علوم کی درسگاہیں تک جدا جدا ہے۔ جس کے نتیجےمیں مدرسوں اور کالجوں میں پڑھنے والے ایک دوسرے کو حریف سمجھتے ہیں۔ اسلام تو دین و دنیا کی تفریق سےبلکل ناآشنا ہے وہ تو دنیا کو(مطیتہ الاخرہ) یعنی آخرت کی سواری سمجھتا ہے اور یہ دین و دنیا کا تفریق ہی وہ اصل دیوار ہے جو مسلمانوں کی دنیوی ترقی کے درمیان حائل ہے۔ علمائے مذھب نے تو خالص مذھبی درسگاہیں قائم کرکے بہت سے لازوال کردار پیش کئے اور اس کے برخلاف موجودہ دور کی ترقی و ایجادات کی دوڑ میں مسلمان بہت پست ہیں۔ اور اس پستی کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے سربراہوں نےخالص دنیاوی اغراض کے لئے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی قیام کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ ریاستیں تو مکمل تعلیم دینے میں ناکام ہو چکی ہے جس کا فائدہ صاحب ثروت لوگوںکو ہوا جنہوں نے تعلیمی ادارے قائم کرکے اس کو ایک کاروبار کے طور پر چلایا۔ جس کے نتیجےمیں تعلیم کا حصول صرف ان لوگوں کے لئے ممکن ہوا جن کے پاس مال تھا اور جن میں ان کی فیسیں برداشت کر نے کی طاقت تھی۔ اور باقی لوگ حصول علم سے محروم رہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ علماء حضرات جس طرح صاحب ثروت اصحاب کو چندہ دینے کی ترغیب دیتے ہے اور ان کو بہت زیادہ فضائل بیان کرکے چندہ وصول کرتے ہےجس سے بڑے بڑے دارالعلوم بناتے ہیں اور ان کے خرچے اٹھاتے ہیں۔ ان کویہ بھی ترغیب دینی چاہیئں کہ آئیں اسی طرح اپنی مددآپ کے تحت ایسی کالجیں اور یونیورسٹیاں بنائیں جو دینی مدرسوں کی طرح خود کفیل ہو۔ اور جو ان لوگوں کے زیراثر نہ ہوجنہوں نے اس مقدس فریضہ کو کاروبار بنایا ہوا ہے۔تاریخ کا یہ مسلمہ فیصلہ ہے کہ دنیا کی ہر قوم خود ہی اپنی زندگی کے لئے گہوارہ تیار کرتی اور پھر خود ہی اپنی موت کے لئے قبر کھودتی ہیں۔ محض حکومت کے سہارے نہ کوئی قوم زندہ رہتی ہے اور نہ اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر سکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ کوشش دو طرفہ ہو۔ یعنی علم وحی اور علم عقلی کے نمائندے ملکر جامع درسگاہیں قائم کرنے کی جدوجہد کریں تاکہ امیر وغریب ایک جیسی تعلیم حاصل کرے۔ جس کی بدولت امت مسلمہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ پا سکے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جانشینوں نے بحثیت سربراہ حکومت ایسے ادارے بھی قائم کئے تھے جن میں حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کا باقاعدہ انتظام موجود تھا۔جس میں غذا،لباس،مکان،علاج،تعلیم،اہل وعیال کی کفالت،قرض کی سہولت،شادی اور بوقت ضرورت خادم کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے۔

Gohar Iqbal Khan
About the Author: Gohar Iqbal Khan Read More Articles by Gohar Iqbal Khan: 34 Articles with 30118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.