توہین رسالت اور ہماری ذمہ داریاں

 گستاخ رسول عورت آسیہ مسیح کی سپریم کورٹ سے بریت اور یورپی ممالک کے 40 دیگر گستاخوں کی رہاٸ کے مطالبے سے امت مسلمہ بالعموم اور اسلامیان پاکستان بالخصوص انتہاٸ کرب میں مبتلا ہیں۔ان حالات میں جہاں ایک طرف مسلمان صداۓ احتجاج بلند کرکے نبی اکرمﷺ سے محبت کا اظہار کررہے ہیں وہیں یہ سوچنے پر مجبور بھی ہیں کہ توہین رسالت کے اسباب کیا ہیں اور ایسے حالات میں بحیثیت مسلم ہم پر کیا ذمہ داری عاٸد ہوتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام انسانیت کے لئے ربّ ذوالجلال کا پسند فرمودہ آخری دین ہے۔ اپنی تعلیمات وتفصیلات کے اعتبار سے اسلام ہی ایک کامل واکمل اور متوازن و معتدل دین کہلانے کا حق دار ہے جس میں رہتی دنیا تک فلاحِ انسانیت کی ضمانت موجود ہے۔ دنیا میں آج بھی اگرکسی دین پر سب سے زیادہ عمل کیا جاتا ہے تو وہ صرف دینِ اسلام ہے، یہ خصوصیت بلاشرکت ِغیرے صرف اسلام کو حاصل ہے۔ اس کے بالمقابل دیگر مذاہب کا دعویٰ کرنے والے گو اپنی تعداد کے اعتبار سے کتنے زیادہ کیوں نہ ہوں لیکن عملاً ان کی حیثیت ایسے ’مذاہب ِمُنتسبہ‘ سے زیادہ نہیں جسے محض عقیدتاً اپنی فطرت کی تسکین کے لئے بطورِ مذہب ذکر کردیا جاتا ہے۔

اس دین کا دار ومدار اور مرکز و محور سید الانس والجن حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ کی ذاتِ ستودئہ صفات انسانیت کے لئے لازوال تحفہ اور عدیم المثال منارئہ رُشد وہدایت ہے۔ اسلام میں سب سے متبرک حیثیت تصورِ نبوت کو حاصل ہے جس کے گرد تمام عقائد ونظریات گھومتے ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے آپؐ کی ذات پر ایمان وایقان کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم اپنے تمام عقائد و نظریات حتیٰ کے اللہ تعالیٰ کی مشیت و منشا تک رسائی حاصل کرتے ہیںـ۔ محمدﷺ پر اس ایمان میں اگر کوئی کمی اور شک و شبہ لاحق ہوجائے تو نہ صرف قرآنِ کریم پر ایمان متزلزل ہوجائے بلکہ اسلام کے تمام نظریات میں گہری دراڑیں پڑ جائیں۔ اس اعتبار سے دین میں سب سے مرکزی حیثیت منصب ِرسالت کو حاصل ہے اور منصب ِرسالت کی یہی مرکزیت اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ کی ذاتِ گرامیؐ ہر مسلمان کے لئے تمام محبتوں کا مرکز و محور قرار پائے اور ایمان کواس سے مشروط کردیا جائے۔

دورِجدید میں ریاست کاادارہ غیرمعمولی حیثیت رکھتا ہے، اورعصری مفکرین ہر قسم کے حقوق پر ریاست کے حقوق کو برتر قرار دیتے ہیں۔ ریاست کا یہ جدید تصور ایک قوم ونسل اور ارضِ وطنکی خدمت سے عبارت ہے، جبکہ اس کے بالمقابل اسلام کا تصورِ ریاست زمین اور نسل سے بالا تر ہوکر عقیدہ و نظریہ کی بنیاد پر قائم ہے،جس میں سب سے محترم استحقاق اس ذاتِ مقدسﷺ کو حاصل ہے جس پر اس دین کی پوری عمارت قائم ہے۔ اس لحاظ سے جدید مفکرین کا ریاست کے حقوق کو بالا تر قرار دینے کے نظریہ کے بالمقابل اسلام میں اس شخصیت کا حق سب سے بالاتر قرار پاتا ہے جو مسلم قوم کی یکجہتی اور اجتماعیت کے علاوہ انکے عقیدہ ونظریہ کا مرکز و محور ہو۔مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر ارضِ وطن کے حقوق سے برتر عائد ہونے والا حق اس ذاتِ مصطفویت کا ہے جنہیں قرآن نے ’رحمتہ للعالمین‘ کے لقب سے ملقب کیا ہے۔

آج کا دور حقوق کے نعروں اور آزادی کے غلغلوں کا دورہے۔ اس دور کا آزاد منش انسان اپنے حقوق کے حصول کے لئے سرگرم ہے، انسانی حقوق کا چارٹر اقوامِ متحدہ نے اس کے ہاتھ میں دے کر انسانیت کو گویا ایک متوازی مذہب تھما دیا ہے لیکن یہ نادان انسان اپنے حقوق کے غلغلے میں اس شرفِ انسانیت سید المرسلینﷺ کے حقوق کو پامال کرنے پر تلا بیٹھا ہے جو انسانیت کی معراج اور اعزاز وتکریم کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں۔ اپنے چند خود ساختہ حقوق کی رو میں انسان کو محسنِ انسانیتﷺ کے ’اُمّ الحقوق‘ کا بھی کوئی پاس نہیں رہا جو ذات انسانیت کو قعر مذلت سے نکال کر رشد وہدایت پر فائز کرنے کے لئے مبعوث کی گئی ۔

اس دور میں بسنے والے انسان اس لحاظ سے انتہائی قابل رحم ہیں کہ ان کی زندگیوں میں محسن انسانیت محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی کو وسیع پیمانے پر سب وشتم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ ظلم وستم دنیا کے ایسے ممالک میں وقوع پذیر ہوا جو اپنے آپ کو حقوقِ انسانی کے چمپئن قرار دیتے ہیں۔ سکنڈے نیویا کے ان ممالک کو شخصی آزادیوں اور فلاحی معاشروں کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ ذاتِ نبویؐ کی اہانت کی کوششوں نے جہاں ان ممالک میں بسنے والوں کی تہذیب وشائستگی کا کچا چٹھا پوری دنیا کے سامنے کھول کررکھ دیا ہے، وہاں اس مغربی تہذیب وفلسفہ کے دعووں کا تارو پود بھی بکھیر دیا ہے جو روا داری، انسانیت دوستی، باہمی احترام و آشتی، مذہبی مفاہمت،وسیع النظری، وسعت ِقلبی اور توازن واعتدال کے خوبصورت نعروں سے بھری پڑی ہے۔ تہذیب ِمغرب کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکا ہے کہ اس کی بنیادیں ایسے دیدہ زیب نعروں پر قائم ہیں جو مفہوم ومعانی سے محروم ہیں۔

گستاخان رسول کی یہ شرمناک جسارتیں اور اس پر مستزاد اہل مغرب کی حمایت وتائید اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ دورِ حاضر کی سا لمیت اور امن وامان کو خطرہ ان مزعومہ اسلامی انتہاپسندوں سے نہیں جنہیں مغرب جارح اورجابر قرار دینے کی ہردم رَٹ لگائے رکھتا ہے، بلکہ دنیا میں بسنے والوں کو المناک اذیت اور نظریاتی جارحیت سے دوچار کرنے والے لوگ وہی ہیں جو اپنے تئیں بڑے روشن خیال اور اعتدال پسند قرار دیے جاتے ہیں۔

اسلام کو عدم روا داری کا طعنہ دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ماضی قریب میں مذہبی جارحیت کی مسلسل وارداتیں مسلمانوں کی بجائے مغرب کے ہی حصے میں آئی ہیں، جب قرآنِ عظیم کے بالمقابل ’فرقان الحق‘ کے نام سے ایک اور فرضی قرآن شائع کرنے، قرآنِ مجید کو غسل خانوں میں بہا دینے، مسجد ِاقصیٰ ودیگر تاریخی مساجد کو مسمار کرنے، داڑھی اور حجاب جیسے اسلامی شعارات کو ہدفِ تنقید بنانے اور اہانت ِ رسولﷺ کی عادتِ مستمرہ ایسے سیاہ کارنامے مغرب کے نامۂ اعمال کا حصہ بنے ہیں۔ اس کے بالمقابل غیرمسلموں کے کسی مذہبی شعار، شخصیت یا مقدس ومتبرک کتاب کو نشانۂ جارحیت بنانے کی کوئی ایک کاروائی بھی مسلمانوں کی طرف سے سامنے نہیں آئی کیونکہ دیگر اقوام کے مقدس شعائر کی توہین کو پیغمبر اسلامﷺنے حرام قرار دیا ہے۔ یہ ایک قوم کے نظریات کی برملا فتح اوراس کی مذہبی شائستگی کا واضح اظہار ہے جس کے بعد مغرب کو مسلمانوں کو رواداری اور اعتدال پسندی کی مسلسل تلقین سے باز آکر اپنی اَقوام کی تربیت پر متوجہ ہوجانا چاہئے کیونکہ مغرب کے عالمی برادری اور پر امن بقائے باہمی کے تصورات کو خطرہ مسلمانوں کی بجائے اپنے فرزندانِ مغرب سے ہی ہے۔

رسولوں کی توہین ایسا مکروہ عمل تاریخ انسانی میں پہلے بھی وقوع پذیر ہوتا رہا ہے۔ اللہ کے دشمنوں کی یہ دیرینہ روایت رہی ہے جس کا شکوہ قرآنِ کریم میں بڑے دل گیر انداز میں موجود ہے۔ سورئہ یاسین میں ارشادِ باری ہے:
’’يَا حَسْرَ‌ةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّ‌سُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ‘‘ (یٰسین:۳۰)
’’ان بندوں (کی نامرادی ) پر افسوس و حسرت! ان کے پاس جو رسول بھی آتا ہے ، تو یہ اس کا تمسخر اُڑانے سے نہیں چوکتے۔‘‘
پھر اللہ نے اسے قوموں پر عذابِ الیم کی ایک اہم وجہ قرار دیا ہے:
’’ وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ ‘‘ (الرعد: ۳۲)
’’رسولوں کا اس سے پہلے بھی مذاق اُڑایا جاتا رہا۔ تو میں کافروں کو ڈھیل دیتا رہا، پھر میری پکڑ نے ان کو آلیا … پھر کیسا رہا میرا عذاب!!‘‘
ایسے ہی قرآنِ کریم نے تمسخر اُڑانے والے ایک شخص اخنس بن شریق کو سورئہ قلم میں عُتُلٍّ اور زَنِیْمٌ (سخت جفا کار اور نطفہ حرام) قرار دیتے ہوئے روزِ قیامت اس کی سونڈ سے گرفت کرنے کی وعید دی ہے۔ (آیات ۱۰ تا ۱۶)

البتہ زمانۂ حال میں سامنے آنے والی جسارت جہاں اپنی وسعت اور اصرار وڈھٹائی کے لحاظ سے انوکھی ہے، وہاں اس کے مرتکب اس کو جمہوری ثقافت اور اپنا انسانی حق قرار دینے پربھی تلے ہوئے ہیں۔ یادرہے کہ اس معاملے کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ درجہ بدرجہ آگے بڑھایا جارہا ہے جس کی پشت پر اقوام متحدہ کے منظور کردہ انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض شقوں کو پیش کرنے کی روایت پختہ کی جا رہی ہے۔

فی زمانہ توہینِ رسالت کے اس مکروہ عمل کی وجوہات اس تہذیبی و نظریاتی تصادم میں پیوست ہیں جس کی پیش بندی نیو ورلڈ آرڈر کے تحت، سرد جنگ کے بعد سے ’سبز خطرہ‘ کے زیر عنوان، عالمی استعمار مسلسل چند دہائیوں سے کررہا ہے۔ توہین رسالت کے حالیہ واقعات نائن الیون کے اس امریکی وحشت وجنون کا ایک نمایاں اظہار اور منطقی نتیجہ ہیں جس کو مخصوص ملکی متعصبانہ مقاصد کے لئے امریکی میڈیا نے حادثۂ نیویارک کے بعد کے سالوں میں اختیار کیا تھا۔ ستمبر ۲۰۰۵ء میں پہلی بار شائع ہونے والے یہ خاکے ڈینیل پائپس نامی متعصب امریکی یہودی کے شرپسند دماغ کی پلاننگ کے نتیجے میں منظر عام پر آئے تھے۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ باقاعدہ مذموم مقاصد واہداف کے پیش نظر کارٹونوں کے مقابلے منعقد کروا کر ڈنمارک کے اخبارات کو اس بنا پر ان کی اشاعت کے لئے منتخب کیا گیاکہ وہاں تہذیب ِجدید کے چند کھوکھلے نعرے زیادہ شدت اور شوروغلغلہ کے ساتھ زیر عمل ہیں۔ پھر ان ممالک میں مروّج اباحیت، مادر پدر آزادی اور یہودیوں کی بڑی جمعیت اس پر مستزاد ہے۔

یوں تو انسانی حقوق کے چارٹر کا یہ مسئلہ ہر صاحب ِدانش کے ہاں معروف ہے کہ اس کی غیرمحدود تعمیم اور متزلزل تفصیل اس کے میزانِ عدل قرار پانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، مزید برآں مغربی ممالک میں متداول بے شمار قوانین، عدالتی فیصلے اور زیر عمل تصورات بھی اس استدلال کی راہ میں واضح رکاوٹ ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظراس حرکت کا تجریدی مطالعہ اس نفسیاتی کیفیت کی ضرور غمازی کرتا ہے جس کا مغربی میڈیا کے اربابِ اختیار شکار ہیں۔ ایک شریف النفس، معتدل ومتوازن اور متین و حلیم شخصیت سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی عام فرد کی توہین کو اپنا حق باور کرنے کی سنگین غلطی کا شکا رہوگا۔چہ جائیکہ کسی عام فرد کی بجائے اس عظیم المرتبت ہستیﷺ کی اہانت کا ارتکاب کیا جائے جو ڈیڑھ ارب آبادی کی محبوب ومقدس ترین شخصیت ہے۔پھر یہ محترم ہستی ایسی نہیں جو صرف مسلمانوں کے ہاں متبرک و مقدس ہو بلکہ تاریخ عالم کی یہ واحد ہستی ہے جس کی تعریف میں ازل سے اَبد تک ہردور کے نامور مشاہیر، عوام اور خواص رطب اللسان رہے ہیں۔ ان کے اُسوئہ حسنہ نے ہر شعبۂ حیات کے ماہرین کو ایسا چیلنج دیا ہے جس کا وہ اعتراف کرتے ہوئے اپنے عاجزی ودرماندگی کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ اس مقبولیت اور شانِ محمودیت کی وجہ اللہ تعالیٰ کا ذاتِ نبویؐ سے وہ قرآنی وعدہ ہے کہ ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا اور تیرا دشمن ضرور خاکسار ہوکر رہے گا۔

مقامِ تفکر ہے کہ مغرب کے اربابِ ابلاغ کس قسم کے حق پر اصرار کرکے انسانیت کو پامال کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ کونسی نفسیاتی تسکین ہے جو اُنہیں اس مکروہ عمل پر اُکساتی اور اپنے عملِ بد کے اِصرار پر آمادہ کرتی ہے۔ اس ذہنی غلاظت کا ادراک کرنے سے ہمارے ذہن قاصرہیں جسے بظاہر انسانی حق کا نام دے کر اپنے نفسیاتی تشنج کو تسکین دینے کی راہ تلاش کی جارہی ہے اور دنیا کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ چند مکروہ فکر لوگوں کے فکری افلاس کو قبو لِ عام عطا کرکے اس دور کے انسان کو شرفِ انسانیتﷺکے سامنے شرمندگی سے دوچار کردے!

یہ بد باطن لوگ جو بڑی ڈھٹائی سے نبی ٔرحمت ﷺکی توہین کا حق حاصل کرنے پر اِصرار کررہے ہیں، ان کی مثال ایسے بیٹوں کی ہے جو اپنی ماں کی تذلیل کو اپنا حق قرار دینے کا مطالبہ کررہے ہوں۔ ذاتِ رسالت مآب سے آپ کے اُمتیوں کاتعلق ان کے ماں ، باپ حتیٰ کہ ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ ہے۔ اسی بنا پر ان تما م چیزوں پرآپﷺسے محبت کو فوقیت دینے کو شرطِ ایمان ٹھہرایا گیا ہے۔

یہ بد بخت لوگ دراصل نبی ٔ رحمت کی لائی رہنمائی سے محرومی کا غصہ نکالنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کی طرف رحمتہ للعالمین کو مبعوث کیا تھا اور سب کو ان کا اُمتی بنایا تھا، لیکن ان کی شامت ِاعمال کہ یہ سعادت ِایمان سے محروم رہے۔ مستند احادیث کی روسے دیگر انبیا پر نبی کریمﷺ کو یہ خصوصیت عطا کی گئی ہے کہ آپ کو جملہ انسانیت تک رہتی دنیا کے لئے مبعوث کیا گیا ہے اور کچھ لوگوں کو اگر آپ کی اُمت ِاجابت میں قبول ہونے کو سعادت میسر نہیں آئی، تو بہر حال آپ کی اُمت ِدعوت میں ضرور شامل ہیں۔ ایسے اُمتیوں کا اللہ کی منتخب کردہ محبوب ہستیﷺ کی توہین کرنا ایسا سیاہ کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے!!

اہلِ مغرب کی رسول رحمتﷺ پر جارحیت اور ظلم وستم توہین آمیز کلمات اور خاکے بنانے کی شرمناک کوششیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا دین ’اسلام‘ اور اور اللہ کا محبوب پیغمبرﷺ مغربی میڈیا کی ہتک انگیز کاروائیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اس دور میں اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی ذات سب سے زیادہ مظلوم ہیں۔ اور ظلم کرنے والے اس بات کی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح اس توہین کو روز مرہ معمول بنا کر مسلم قوم کو بھی اسی طرح بے غیرت وبے حمیت بنا دیں جس طرح وہ عیسائیوں کے پیغمبر اور محمدﷺ کے پیش رو حضرت عیسیٰ کو نعوذ باللہ ولد الزنا قرار دلوانے کی مذموم مہم میں کامیاب ہوچکے ہیں، جیسا کہ گذشتہ برسوں یورپ میں نمائش کی جانے والی متنازعہ فلم ’ڈاوِنسی کوڈ‘ کا یہی موضوع ہے۔لیکن غالباً اُنہیں عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین اپنے دین سے والہانہ تعلق کے فرق کا اِدراک نہیں ہوسکا۔ نبی اسلامﷺ کی ناموس پر حملہ آور ہونے والوں کو یہ علم ہونا چاہئے کہ مسلمان اپنے نبی کی حرمت پر کٹ مر سکتا ہے،لیکن اس کو کسی صورت گوارا نہیں کرسکتا کیونکہ اسکے جذبۂ ایمانی اور آپﷺکے عظیم الشان حق کا بنیادی تقاضا ہے۔

٭ قرآنِ کریم کی رو سے روز ِمحشر ہر اُمتی کو نبی اکرمﷺ کی شہادت اپنے حق میں پیش کرنا ہوگی۔ جس دن سورج سوا نیزے پر ہوگا، اس حالت میں حوضِ کوثر پرساقی ٔکوثر کا سامنا کرنا ہوگا، آپؐ کی شفاعت سے قبل تمام انسانیت رحم کے لئے بلک رہی ہوگی، حتیٰ کہ نبی کریمﷺ اللہ کے ہاں سفارش کریں گے، اور حساب وکتاب کا آغاز ہوگا۔ ہمیں آپؐ کے حق کو اسلئے ادا کرنے میں کوشاں ہوجانا چاہئے تاکہ آپ کے حضور روزِ قیامت سرخرو ہو سکیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ قرآنی آیت ان کافر کارٹونسٹوں کی طرح ہماری بدعملی کا بھی مصداق ٹھہر جائے:
’’ فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّة بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰؤلَائِ شَہِیْدًا یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضَ وَلاَیَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیٍثًا ‘‘ (النسائ: ۴۱)

’’کیسا ہوگا وہ وقت، جب ہم ہر اُمت٭ سے گواہ طلب کریں گے، اور ہم تجھے(اے محمد!) ان تمام مسلمانوں پربطورِ گواہ پیش کریں گے۔ اس دن جن لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا اور رسولؐ کی نافرمانی کی ہوگی، وہ خواہش کریں گے: کاش آج زمین ہم پر برابر کردی جائے (اور ہمیں رسولِ رحمتؐ کا سامنا نہ کرنا پڑے)۔ اور وہ اللہ کے روبرو ایک بات بھی چھپا نہ سکیں گے۔‘

جب ذاتِ نبویؐ پر ہر طرف سے طعن وتشنیع اور ناکردہ الزاموں کی تہمتیں لگائی جارہی ہوں اور محمد ِاحمدﷺ کو اپنی ہر شے سے محبوب رکھنے کا دعویٰ کرنے والا مسلم ان سنگین حالات میں سکون اور اطمینان سے بیٹھا رہے، یہ تصور ہی انتہائی خوفناک ہے۔ ہمیں اس مسئولیت اور شرمندگی کو آج ہی محسوس کرکے اپنے قول وفعل سے ان جوازات سے خاتمے کے لئے کمربندہوجانے کا عزمِ صمیم کرنا چاہئے جس کے نتیجے میں یہ اہانت بھرے رویے ختم ہوکر رہ جائیں اور کسی کو پیغمبر انسانیت کی ناموس پر حرف اُٹھانے کی جرا ت نہ رہے۔

٭ جب آپﷺ کے سامنے آپ کی اہانت کی جاتی تو آپ اپنے صحابہؓ سے بے اختیار یہ مطالبہ کیا کرتے کہ ’’کون ہے جو میرے اس دشمن کا جواب دے…؟‘‘
یہ مطالبہ ایک بار آپﷺنے کعب بن اشرف کے بارے میں کیا۔ حضرت زبیرؓ ،حضرت خالدؓ بن ولیداور حضرت حسانؓ سے بھی آپ نے ایسے مطالبے کئے :
٭ مَنْ لِکَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ فَإِنَّہُ قَدْ آذٰی اﷲَ وَرَسُولَہُ؟ فَقَامَ مُحَمَّدُ بن مسلمة فقال: یا رسول اﷲ أتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَہٗ۔ قَالَ: نَعَمْ (صحیح مسلم:۴۶۴۰)
٭ فَقَالَ: مَنْ یَّکْفِینِي عَدُوِّي؟ فَقَالَ الزُّبَیرُ: أَنَا (مصنف عبد الرزاق : رقم۹۴۷۷)
٭ مَنْ یَّکْفِینِي عَدُوِّي؟ فَخَرَجَ إِلَیْہَا خالد بن الولید فَقَتَلَہا (ایضاً: رقم۹۷۰۵)
٭ یا حَسَّان أجِبْ عن رَّسُوْل اﷲ،اللّٰہم أیِّدْہ بروح القدس (صحیح مسلم:۴۵۳)

دورِ نبویؐ میں نبی اکرمﷺ خود صحابہ کرام کو متوجہ کیا کرتے اور صحابہؓ نے آپ کی پکار کے نتیجے میں ان گستاخانِ رسالت کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ آج شمع رسالت کے پروانوں کو یہ پکار اپنی سماعت پر محسوس کرنا چاہئے اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے ہر ممکنہ اقدام بروئے کار لانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے رسولؐ کی رفعت ومنزلت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے جس طرح شریعت ِاسلامیہ کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ نے اُٹھا لی۔ اس عظیم ذمہ داری کی تکمیل کے لئے اس عالم الاسباب میں اللہ نے حفاظِ قرآن اور محدثینِ عظام کی شکل میں ایسے نفوسِ قدسیہ پیدا کئے جنہوں نے اللہ کے دین کی تاقیامت حفاظت کے ٹھوس اقدامات کئے۔ ایسے ہی نبی آخرالزمانﷺ کی ناموس کی حفاظت کے لئے بھی اللہ کی طرف سے فرشتے نازل ہونے کی بجائے ایسے مبارک نفوس ہی آگے آئیں گے جن سے اللہ تعالیٰ قول وفعل کے میدان میں عظیم الشان خدمت لے گا۔

٭ یہاں ایسے مسلمانوں کو بطورِ خاص متوجہ ہونا چاہئے جو علماے دین ہونے کے ناطے منصب ِرسالت کی وراثت کے داعی، امین اور محافظ ہیں۔ مسلمانوں کے ایسے اہل علم جن کا یہ احساس ہے کہ وہ جوہر نبوت یعنی فرامینِ نبویہؐ کے محافظ ورکھوالے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے دین میں فقاہت کی بصیرت سے نوازکر اُمت کے منتخب شدہ افراد ہونے کی سند ِتصدیق عطا کی ہے، ان خاصۂ خاصانِ رسل پر بطورِ خاص اُمت ِمسلمہ کے نمائندے اور وراثت ِ رسول کے امین ہونے کے ناطے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ایسے المناک مراحل پر ملت ِاسلامیہ میں احساس وشعور بیدار کرنے میں کوئی کمی نہ دکھا رکھیں تاکہ اُمت من حیث المجموع اپنے فرائض کو بجا لانے پر کمربستہ ہوجائے۔

ہر شخص تھوڑی سی محنت اور غور وفکر کے بعد اپنے دائرئہ عمل میں موجود امکانات کوبخوبی پہچان سکتا ہے۔ اگر وہ نبی ٔرحمت کی ذات سے ظلم کے خاتمے کے لئے آمادہ ہو تو اس کے سامنے فکر وعمل کے بے شمار دریچے وا ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے آسانی کے لئے ہم محض چند ایک کی نشاندہی پر اکتفا کرتے ہیں:
1۔اپنے عمل سے فرامینِ نبویہ کے تقدس پر اس طرح مہر تصدیق ثبت کرنا کہ آپؐ کے مقدس فرامین ہمارے لئے عمل کی سب سے قوی بنیاد قرار پاجائیں اور بذاتِ خود ہماری کسی بدعملی اور کوتاہی سے اہانت ِرسول کا کوئی عملی شائبہ بھی پیدا نہ ہوسکے۔ اہانت ِرسول کا مقصد دنیا کو پیغامِ رسالت سے برگشتہ کرنا اور اسلام کو کمزور کرنا ہے، جبکہ اسلام پر والہانہ عمل گستاخی کا ارتکاب کرنے والوں کے مقاصد کی تذلیل کرے گا۔

2۔سیرتِ رسول اور رحمت ِدو عالمﷺ کے فرمودات کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کا عزمِ صمیم کرنا، اپنی صلاحیتوں کوا س کے سیکھنے اور پھیلانے میں کھپا دینا گویا آپ پر تہمت طرازی کرنے والوں کے بالمقابل آپ کے رفعت ِذکر کی عملی مثال پیش کرنا۔ اہانت کرنے والوں کا مقصد ذاتِ نبوی سے لوگوں کو بیزار کرنا ہے تاکہ اسلام کی بڑھتی مقبولیت کے آگے بند باندھا جاسکے، لیکن آپ کی سیرت اورپیغام کی اشاعت ان کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملادے گی۔

3۔یورپی ممالک کی مصنوعات کاکلی بائیکاٹ کرنا،ایسی چیزوں کی فہرستیں تلاشِ بسیار کے بعد شائع کی جائیں اور اقتصادی میدان میں بھی اپنا شدید احتجاج سامنے لایا جائے۔

4۔ ہر موقع پراپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جائے تاکہ عوامی غم وغصہ کے سیلابِ بلا کے سامنے حکومتیں اپنے سفارتی تعلقات توڑنے پر مجبور ہوجائیں۔

5۔قلم وقرطاس کے ذریعے سرور کونین کی سیرت اور اپنے احتجاج کو دور دو رپہنچایا جائے مثلاً بینر، سٹیکرز، پوسٹر، مضامین، خطوط، سوشل،پرنٹ،الیکٹرانک میڈیا وغیرہ، غرض ہر ذریعہ کو استعمال میں لایا جائے۔

6۔آپس میں محبت ومودّت کا خوگربننااور اُخوت اسلامی کو پختہ کرنا چاہئے۔ اس کے بغیر اسلام کا رعب غیرمسلموں پر طاری نہیں ہوسکتا۔ جس طرح غیر مسلم اپنے مذموم مقاصد کے لئے یکسو اور متحد ہیں، پورا یورپ اور مغربی میڈیا یک جہتی سے اس ظلم کی اصلاح کی بجائے اس کی حمایت پر کمربستہ ہے۔ اس مسئلہ کا مداوا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مسلمانوں میں باہمی مؤاخات کو پیغمبر اسلام سے محبت کے مرکزی نکتہ کے نام پر پروان نہ چڑھایا جائے۔ محمد رسول اللہ سے محبت ہر مسلمان کے عقیدے کا اوّلین نکتہ ہے، جس میں سپرداری کے ساتھ اطاعت ووارفتگی کے جذبات بھی موجزن ہیں۔ باہمی اتحاد کے لئے اس نسخۂ اکسیر کو کارگر طریقے سے استعما ل میں لایا جائے۔

بعض مسلمان عملی اعتبار سے اس میں شرکت کرسکتے ہیں تو بعض شانِ رسالتؐ میں اپنے مال کا نذرانہ پیش کرکے حصہ ڈال سکتے ہیں۔ غرض عمل کرنے اور ذمہ داری کو محسوس کرنے والوں کے لئے اَن گنت راستے ہیں۔ مذکورہ بالا اُمور میں سے کسی ایک طریقہ پر بھی کامل روح کے ساتھ عمل پیرا ہونے کا ہم عزمِ صمیم کرلیں تویہ ہماری سعادت اور مسلم اُمہ کا بھرم قائم کرنے کا باعث ہوگا، وگرنہ توہینِ رسالت کے ان واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ نعوذ باللہ جاری رہے گا، اورہم اس پر کف ِافسوس ملنے اور اپنی بے چارگی کا نوحہ کہنے کے سوا کچھ نہ کرسکیں گے۔یہ عمل کا وقت ہے، زبانی جمع خرچ کا نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ یہ چند کلمات جو سرورِ کونین اور نبی الثقلین علیہ افضل التحیۃ والسلام کی شان میں درج کئے گئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے اور مسلمانوں کو قوتِ عمل سے نوازے۔ آمین!

Adeel Moavia
About the Author: Adeel Moavia Read More Articles by Adeel Moavia: 18 Articles with 20624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.