کراچی کو بگاڑنے میں تیس برس لگے۔اب جانے سدھانے میں کتنے
دن لگیں گے؟ ہر روز ایک نیا آپریشن ہے، کل ایمپریس مارکیٹ پر مشینی بمباری
جاری تھی تو آج لائٹ ہاوس کے اطراف ہاہا کار اور توڑ بپھوڑ ، اور بھاگا
دوڑی جاری ہے۔تیس برس میں کراچی ایسا بدلا کہ خوف آتا تھا۔ روشنیوں کا شہر
اندھیروں میں ڈوبتا ہی چلا گیا۔شہر کا حلیہ بدلا، کلچر بدلا، ادب آداب
بدلے،بولی بدلی،نقل وحمل کے ذرائع بدلے،رنگ بدلے ڈھنگ بدلے،ناچ گانے
بدلے،جلسے، جلوس اور احتجاج کے انداز بدلے، لیڈر بدلے،پارٹیاں بدلی،عوام
بدلے ، یہاں تک کے گلی کوچے ہی بدل گئے۔اور ہمارا حال مستقبل سب کچھ بدل
گیا۔ اس بدلے ماحول میں نہ جانے کس کو ماضی کا تابناک اور روشن چہرہ یادآیا
کہ اب کراچی کو پہلے جیسا بنانے چاہتے ہیں۔ بنانے والے کون تھے، بگاڑنے
والے کون تھے، اور اب نشاط ثانیہ کو بحال کرنے کو بے چین کون ہیں؟ کراچی کی
بے چینی،بے ترتیبی،بے بسی کا اندازہ یہاں کے مرکز صدر سے ہوجاتا ہے۔بے ہنگم
تجاوزات،ٹریفک کا اژدھام، بسوں کے ڈرائیوروں کی من مانی، پولیس کی چشم پوشی
اور رشوت کو پھیلے ہاتھ، ٹھیلے ، گاڑیاں، رکشائ، پتھارے،دھینگا مستی، لوٹ
مار، چھینا چھپٹی،نوسر بازی ، پکڑ دھکڑ سب کچھ ہی تو یہاں موجود ہے۔صدر کا
مرکز ایمپریس مارکیٹ پورے کراچی کے موسم اور ماحول کا عکاس ہے۔ شہر کو
سدھارنے کے لیے سپریم کورٹ نے احکامات دیئے۔ اور پوری انتظامیہ کیل کانٹے
سے لیس ہوکر کراچی کی ایمپریس مارکیٹ پر ٹوٹ پڑی۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن
کے نتیجے میں سینکڑوں چھوٹی بڑی دکانیں مسمار ہی نہیں بلڈوز کردی گئی۔
تعمیر کے لیے تباہی کا ایسا منظر فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ سڑکوں پر
بکھرا ملبہ روشنیوں کے شہر کراچی کی بجائے، عراق، شام کے کسی ایسے شہر کا
منظر پیش کر رہا ہے جو تازہ تازہ بمباری سے تباہ و برباد ہوا ہو۔کراچی کی
تعمیر کا آغاز انگریز دور میں ہوا تھا۔سندھ کلب انگریزوں کی سرگرمیوں کا
مرکز تھا۔ جس کے گیٹ پر بورڈ لگا تھا۔ یہاں کالوں اور کتوں کا داخلہ منع ہے۔
کراچی پورٹ سٹی تھا، اہم چھاونی تھا،اس لیے اس پر نظر خاص ہوئی، روشنیوں کے
شہرکراچی میں سب سے پہلے بجلی سندھ کلب کے لیے لائی گئی۔ایمپریس مارکیٹ
سندھ کلب سے زیادہ دور نہیں تھی۔ یہاں بھی مقامی لوگوں کا داخلہ ممنوع تھا۔
انگریزوں نے سب کچھ اس کے آس پاس ہی بنایا اور بسایا، فریئر ہال، سندھ کلب،
کراچی جمخانہ، ہولی ٹرنٹی کیتھیڈرل، گورنمنٹ ہاؤس، فلیگ سٹاف ہاؤس کے
مقامات پیدل فاصلے پر موجود ہیں۔تاکہ سر شام اندھیرے اور سناٹے میں ڈوب
جانے والے اس ساحلی شہر میں برطانوی سرکاری کارندوں کو ضروری کام سرانجام
دینے کے لیے کہیں دور نہ جانا پڑے۔ایمپریس مارکیٹ 1895 سے 1899 کے دوران
میں تعمیر ہوئی۔جودھ پوری سرخ پتھر پنک سٹی جے پور کا نشان امتیازتھا، اس
دور میں رائج 'مغل گاتھک' طرزِ تعمیر بہت مقبول تھا، اس لیے کراچی میں بننے
والی اکثر تاریخی عمارتوں میں یہ طرز تعمیر اختیار کیا گیا۔جہانگیر کوٹھاری
پریڈ، میری ویدر ٹاور، موہٹہ پیلس ، فریئر ہال ،ہندو جم خانہ، اس فن تعمیر
اور جودھ پوری پتھرکا عمدہ نمونہ ہیں۔اس طرزِ تعمیر میں مغل فن عمارت سازی
میں یورپی طرز کو بھی سمویا گیا۔ ایمپریس مارکیٹ کیوں بنی ۔ اسے بھی انگریز
کی عیاری کہا جاسکتا ہے۔ چھاونی کا یہ علاقہ پریڈ گراونڈ تھا۔ 1857 کی جنگِ
آزادی میں بغاوت کرنے والے کئی فوجیوں کو یہاں توپ دم کیا گیا۔آزادی کے
متوالوں کے لیے یہ مرکزی جگہ بن گئی، رات کی تاریکی میں یہاںلوگ شہداءسے
عقیدت میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے۔انگریز نے شہدا کی یادگار سے ڈر کر
سرکار انگلشیہ کے نام پر مارکیٹ تعمیر کردی۔ بمبئی کے گورنر جیمز فرگوسن نے
سنگ بنیاد رکھا۔ڈیزائن مشہور انجینیئر جیمز سٹریکن نے بنایا۔ایمپریس مارکیٹ
کے بیچوں بیچ ایک صحن بھی تھاجس کا رقبہ 100 فٹ ضرب 130 فٹ تھا۔ ہم نے تو
اس صحن میں مرغی والے،گوشت والے، پرندے والے، مصالحے والے، سبزی فروش ،
گوشت فروش ہی دیکھے، کبھی کوئی صحن نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔میئر
کراچی وسیم اخترکہتے ہیں کہ ایمپریس مارکیٹ کے چاروں کونوں پر خوبصورت پارک
تعمیر ہوں گے، اگر ماضی میں بلدیہ سے غلطیاں ہوئی ہیں تو ضروری نہیں کہ ان
غلطیوں پر قائم رہا جائے، غلطیوں کو درست کرنے کا وقت ہے۔میئر کراچی
ایمپریس مارکیٹ کو کراچی کی شناخت کہتے ہیں۔ اس تخریب سے تعمیر کی کونسی
نئی صورت گری ہوگی۔ یہ تو وقت بتائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کراچی کی شناخت
کی بحال کرنے والے کراچی کی تین نسل کی تباہی اور بگاڑ کے بعد اس کو کیسے
سنواریں گے؟ |