فاحشہ یا مامتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

مجھے لندن آئے ہوئے ابھی چند روز ہی ہوئے تھے، میں پاکستان سے اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں اسکالر شپ سکیم پر لندن آیا تھا۔ مجھے بچپن سے لندن دیکھنے کا بہت شوق تھا، میرے دور کے اک ماموں لندن میں رہتے تھے اور جب بھی پاکستان آتے ہمیں لندن کی الف لیلوی داستانیں ضرور سناتے۔ بچپن سے جوانی تک میں یہی کہانیاں سنتا بڑا ہوا، میرے دماغ میں صرف یہی خبط سوار تھا کہ کسی نہ کسی طرح لندن جا کر بہت پیسہ کمانا ہے اور ماموں کی کہانیوں والا اک خوبصورت سا اپنا محل بسانا ہے۔ یہ خواب شاید پاکستان کا ہر نوجوان دیکھتا ہے، ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یورپ، امریکہ یا وسط ایشیائی ممالک میں پیسے درختوں پر لٹک رہے ہیں یا پھر کسی کان میں مدفون ہیں بچے نے باہر جانا ہے اور بس پیسوں کی بارش۔ اس خیال کی بنیادی وجہ شاید بیرون ملک مقیم ہمارے وہ صاحبان ہیں جو دو، تین دہائیاں قبل غیر قانونی طریقے سے پردیس پہنچ گئے اور پھر برتن دھونے سے لے کر گاڑیاں صاف کرنے تک اور کسی پچاس ساٹھ سالہ گوری سے شادی کرکے فراڈ کرنے تک ہر کام کر ڈالا۔ لیکن جب یہ صاحبان پاکستان واپس آئے تو انھوں نے اپنے عالیشان گھر تعمیر کروائے اپنے سے آدھی عمر کی لڑکیوں سے بیاہ رچائے یعنی ولایت کا اک ایسا تاثر قائم کیا کہ ہمارے سادہ لوح لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ شاید ولایت میں پیسوں کی بارش ہو رہی ہے دھن کی ندیاں بہ رہی ہیں۔ حالانکہ حالات اس سے یکسر مختلف ہیں دولت کی مساوی تقسیم کے نظام اور حکومت کے فلاحی منصوبوں کے بغیر ولایت میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے، جب تک ایک گھر کے تمام لوگ کام نہیں کریں گے یا حکومت امداد نہیں دے گی تو گھر کا نظام چلانا بہت مشکل ہے اس میں گھر کے تیرہ چودہ سال کے بچے سے لے کر پچاس ساٹھ سال کے بزرگ صاحبان تک بلا تفریق سب شامل ہیں۔

میں اس دن اپنے ماموں کے دوست سے ملنے آکسفورڈ سٹریٹ آیا تھا تاکہ ان سے اپنی نوکری کی بات کر سکوں، مجھے گورنمنٹ آف پاکستان نے وظیفہ تو دیا تھا لیکن اپنے رہنے اور کھانے کے انتظامات مجھے خود کرنے تھے۔ میرا تعلق ایک مڈل کلاس خاندان سے ہے جو کہ میرے اخراجات اٹھانے سے بالکل قاصر ہے بلکہ مجھ سے پر امید ہے کہ میں اپنی تین بہنوں کی شادیاں دھوم دھام سے کروائوں گا اور بھائیوں کو کاروبار اس کے ساتھ ساتھ ماں باپ کا حج اور ایک بڑا سا گھر۔ یہ سب وہ امیدیں ہیں جو میرا ویزہ لگنے کے ساتھ ہی مجھ سے وابستہ ہو چکی تھیں، میری ملاقات ماموں کے دوست کے ساتھ ایک کافی پارلر میں طے تھی، میں ٹیبل پر بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا کہ مجھے اک بڑی خوبصورت سی نسوانی آواز سنائی دی How can i help you sir میں نے اک دم حواس باختہ ہو کر اوپر کی جانب دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ ایک چھتیس، سینتیس سال کی بہت خوبصورت لڑکی تھی شاید اس کا تعلق ماں یا باپ کی طرف سے انڈیا یا پاکستان سے رہا ہوگا، کیونکہ اس کا حسن ایشیا اور یورپ کا بے حد خوبصورت امتزاج تھا۔ میں اس کی جانب ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا اور کچھ بھی بولنے سے قاصر شاید اس نے بھی میرے انداز کو بھانپ لیا اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دوبارہ اپنا پہلا سوال دہرایا بوکھلاہٹ میں میرے منہ سے صرف یہی نکل سکا آپ پاکستان سے اس نے جواب دیا نہیں برطانیہ سے اور تھوڑی دیر بعد آنے کا کہ کر دوسرے کسٹمر کو ڈیل کرنے چل دی۔

اتنی دیر میں میرے ماموں کے دوست بھی تشریف لے آئے خاصے دلچسپ آدمی تھے، محترم ویسے تو تعلیم سے نادارد تھے لیکن انگریزی بولنے میں کسی انگریز سے کم نہیں وہ ستر کی دہائی میں گجرات سے لندن آئے اور پھر یہیں کے ہو کے رہ گئے۔ پیشے سے ٹیکسی ڈرائیور تھے اور اب رئیل اسٹیٹ میں بھی طبع آزمائی کر رہے تھے۔ خیر ان کے ساتھ گفتگو بہت فائدہ مند رہی اور انھوں نے مجھے اپنا کارڈ دیا اور ایک دکان کا پتہ بتا کر اس کے مالک سے ملنے کی تاکید کی، میں نے شکریہ ادا کرکے کارڈ دھیان سے جیب میں ڈالا اسی اثناء میں وہی آفت دوبارہ وارد ہوچکی تھی اور اپنا سوال دھرا رہی تھی۔ اس کے لہجے میں پتہ نہیں کیا بات تھی کی میں اس کا سامنا نہیں کر پارہا تھا، میری مشکل انکل کے دوست نے آسان کردی اور دو کافی اور ڈونٹس کا آرڈر دے کر اسے چلتا کیا وہ بھی ان کا شکریہ ادا کرتی مسکراتی ہوئی چل دی۔ میں کافی پینے کے بعد کچھ دیر وہیں بیٹھا اپنی پڑھائی مستقبل، توقعات اور لندن کے بارے سوچ رہا تھا کہ اک بار پھر وہ مسکراتی ہوئی میرے پاس سے گزری، اس بار میں نے با ضابطہ طور پر اس کی جانب دیکھا اسکی مسکراہٹ مجھے بہت اچھی لگی اور میں بے اختیار مسکرادیا۔ لندن کا موسم بڑا ناقابل اعتبار ہے جب میں آیا تھا تو سنہری دھوپ چھائی تھی اور اب ایک دم سے رم جھم شروع ہو چکی تھی۔ یہ سونے پر سہاگے کی سی کیفیت تھی ایک تو اندر کا موسم بہت خوشگوار تھا اوپر سے لندن کی خوبصورت شام اور رم جھم نے اسے چار چاند لگا دئیے تھے۔ میں نے وہ شام اور رات بڑی بے چینی سے گزاری پتہ نہیں اس ویٹرس میں ایسا کیا تھا جو مجھے اس سے ملنے کے لئے اکسا رہا تھا شاید مجھے اس سے پیار ہو گیا تھا۔ صبح سویرے میں بغیر ناشتہ کئے یونیورسٹی کے لئے نکل گیا ، سارا دن بس اسی انتظار میں گزرا کہ کب اس بلا سے دوبارہ ملاقات ہو۔ خیر دو بجتے ہی میں یونیورسٹی سے نکلا اور سیدھا اسی کے کافی پارلر کا رخ کیا، وہ حسب معمول اپنی اسی قاتلانہ مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھی۔ مجھے بڑی پیار بھری نظروں سے دیکھا اور میری جانب لپکی ، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں سر۔ پتہ نہیں مجھ میں اتنی خود اعتمادی ایک دم سے کیسے آگئی کہ میں نے کہ دیا میں آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں اور کچھ اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ میرا جواب سن کر وہ حیران ہو گئی اور کہا کس بارے میں، میں بوکھلا گیا اور کہنے لگا میں اس شہر میں نیا ہوں اس کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں اگر آپ برا نہ منائیں اور میری مدد کر دیں ۔ اس نے اک لمحے کے لئے سوچا شاید میرا ارادہ بھانپ گئی تھی اور اچھا کہ کر چلی گئی میں اس کے انتظار میں تقریباً دو گھنٹے اسی ٹیبل پر بیٹھا کافی کے مگ خالی کرتا رہا۔ آخر کار اس کو میری حالت پر رحم آہی گیا اور مجھے باہر آنے کا اشارہ کرکے اپنے سٹاف کو کل ملنے کا کہ کر باہر کی طرف چل دی۔ میں بھی تقریباً دوڑتا ہوا اس کے پیچھے لپکا۔ باہر آکر اس نے مجھ سے پوچھا کیا پوچھنا چاہ رہے ہیں آپ، اس سے پہلے کہ آپ کچھ اور کہیں میں آپ کو اپنے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔ میرا نام دیا ہے میرے بابا انڈیا سے تھے اور ماما سکاٹ لینڈ سے ، انھوں نے میرا نام بڑی چاہت سے دیا رکھا تاکہ میں سب کو خوشی دے سکوں راہ دکھا سکوں لیکن افسوس سوائے ساری عمر جلنے کے یہ دیا کچھ اور نہ کرسکا۔ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی ، میرے ماں باپ زیادہ عرصہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پائے اور الگ ہو گئے۔ ماما نے دوبارہ شادی کرلی اور سکاٹ لینڈ چلی گئی بابا نے میری پرورش کی، ماما شاید اپنے نئے خاوند اور بچوں میں اتنی مگن ہوئیں کہ میں دماغ میں کبھی آئی ہی نہیں۔ جب میں جوان ہوئی تو باقی والدین کی طرح میرے بابا کو بھی میری شادی کی فکر ستانے لگی اور نظرِ انتخاب اپنے ایک دور کے بھتیجے پر ٹھہری جو بالکل گوار، ہڈ حرام، بدتمیز اور منہ پھٹ مشہور تھا میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود بابا نہ مانے اور مجھے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ دن گزرتے چلے گئے دن بدن اس شخص کی بدتمیزی اور سینہ زوری زور پکڑتی گئی۔ اس اثناء میں مجھے ڈاکٹر نے بتایا کہ میں امید سے ہوں، میں بہت خوش تھی کہ میں ماں بننے والی ہوں، دنیا کا سب سے خوبصورت احساس ماں بننے کا ہوتا ہے۔ اسی نشہ میں جھومتی ہوئی میں گھر آئی اور یہ خوشخبری اپنے میاں کو سنائی۔ یہ بات سنتے ہی وہ شخص ہتھے سے اکھڑ گیا اور مجھ پر چلانے لگا احتیاط نہیں کرسکتی تھی اب اس ہونے والے بچے کا خرچہ تیراباپ اٹھائے گا، میں اسکی یہ باتیں سن کر رونے لگی اور کہا تم فکر مت کرو میں خود انتظام کرلوں گی۔ اس کے بعد روز بروز اس کے طعنے ، جھگڑا، تشدد معمول بن گیا۔ آخر میری ڈلیوری کا دن آن پہنچا اور میں دو نھنے فرشتوں کی ماں بن گئی ایک بیٹا شامیراور ایک بیٹی زارا، وہ لمحہ جب میں نے اپنے بچوں کو اپنے سینے پر لٹایا میری زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ تھا جسے لفظوں میں بیاں نہیں کیا جا سکتا۔ خیر میرا خاوند ہسپتال میں بھی مجھے اور بچوں کو دیکھنے نہیں آیا، بلکہ جب میں گھر پہنچی تو اک بے اولاد جوڑے کو براجمان پایا جو میرے خاوند کے ساتھ بچہ خریدنے کی ڈیل کرنے آئے تھے۔ اس دن میرے خاوند کا رویہ میرے ساتھ خلاف معمول بہت نرم اور پیار بھرا تھا، جب میں نے اس سے مہمانوں کے بارے پوچھا تو اس نے بڑی ڈھٹائی سے حالات کا رونا شروع کردیا اور مجھے منانے لگا کہ ہمارے دو بچے ہیں سمجھ لو ہوا ہی ایک دوسرا ان کو دے دیتے ہیں یہ ہمیں 25000 پائونڈ دے رہے ہیں۔ اس کی یہ بکواس سن کر میرے صبر کا بند ٹوٹ گیا جس پر میں نے عرصے سے پہرے لگائے ہوئے تھے، میں نے اسی وقت پولیس کو فون کرکے اس کی شکایت کی اور اپنے اور بچوں کے لئے تحفظ کی گزارش خیر کچھ مہینوں میں میری اس سے جان خلاصی ہوگئ اسے انڈیا واپس بھجوادیا گیا لیکن اس دوران میری مالی حالت بہت کمزور ہو چکی تھی بابا کی وفات کے بعد جو جمع پونجی تھی وہ میرے نکمے شوہر نے برباد کر دی تھی۔ دو بچوں کا ساتھ کرائے کا مکان یہ سب انتظام سمجھ میں نہیں آرہا تھا، میری ایک دوست نے مجھے اپنے ایک اسلامی مرکز کا پتہ بتایا جو کہ مجھ جیسی نادار عورتوں کی مدد کرتے تھے۔ میں بڑی امید کے ساتھ اس مرکز پہنچی مگر یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اسلامی مرکز میں بھی ، انسان سے زیادہ گوشت کے بیوپاری بیٹھے ہیں جو ناپ تول کر مول لگا رہے ہیں۔ خیر میں ضرورت مند تھی اور تعاون کے علاوہ کوئی راستہ تھا نہیں سو استعمال ہوتی رہی، میرے بچے بڑے ہونے لگے ان کی ضروریات بڑھنے لگیں اس کافی پارلر میں نوکری تو میں اپنی شادی سے پہلے سے کر رہی تھی اور لوگ مجھے جانتے پہچانتے بھی تھے اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنا جسم بیچنے کا کاروبار یہاں سے نہیں کروں گی اور کوئی اور فورم استعمال کروں گی تاکہ میری شناخت پوشیدہ رہے۔ اسی اثناء میں یورپ میں ٹنڈر نام کا اک بھیڑیا نمودار ہوا جس نے سوشل نیٹ ورکنگ کے نام پر جسم فروشی اور سیکس کو ایک بد ترین لت بنا دیا میں نے بھی اپنے معصوم بچوں کی کفالت کی خاطر اک چھوٹی سی دکان اسی بھیڑیئے کی وساطت سے کھول لی اب میں شام کو نوکری کے بعد اپنی مامتا کی دکان پر بیٹھتی ہوں، کسی سے بھیک ، خیرات مانگے بغیر اپنے بچوں کی خوشیاں خرید کر انہیں دیتی ہوں اور نماز شب کے دوران اپنے رب کو گواہ بنا کر یہ عہد کرتی ہوں کہ یہ دکان اک مان نے کھولی ہے عورت نے نہیں میں نہیں جانتی خداوند میری یہ عبادت قبول کرتے ہیں یا نہیں ، مجھے نہیں معلوم کہ میں اک فاحشہ ہوں یا زاہدہ لیکن میں اک ماں ہوں جو اپنے بچوں کی خاطر کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ بڑے حوصلے سے یہ الفاظ بولتی جارہی تھی اور میرے گالوں پر آنسوئوں کے قطرے کسی جھرنے کی مانند جاری تھے، پتہ نہیں اس کی باتوں میں کیا سچائی تھی، اس کا جسم کتنا ناپاک تھا، مگر اس کی روح بالکل پاکیزہ اور معطر اس کی مامتا لازوال اور وہ بے مثال تھی۔

Qasim Raza Naqvi
About the Author: Qasim Raza Naqvi Read More Articles by Qasim Raza Naqvi: 42 Articles with 49420 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.