اسلامی مہینوں میں ربیع الاول کے مہینے کوبعض اعتبار سے
فوقیت اور فضیلت حاصل ہے ۔ یہ وہ بابر کت ماہ ہے کہ جس میں ابوالقاسم محمد
ابن عبداﷲ ابن عبد المطلب ابن ہاشم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت بہ
سعادت بروز پیر12 ربیع الا ول عام الفیل مطابق 22 اپریل 571ھ شعب بنی ہاشم
میں ہوئی۔ بعض جگہ17 ربیع الاول بھی درج ہے۔اسلامی تاریخ کے معروف مصنف
ڈاکٹر محمد حمید اﷲ نے آپ ﷺ کی پیدائش کا سال ۵۶۹ تحریر کیا ہے۔ آپ ﷺ کی
دنیاوی زندگی 63 سال ہے اس اعتبار سے کہ آپ ﷺ کی ولادت 571 میں ہوئی تو آپﷺ
نے634 میں وصال فرمایا۔آپ ﷺ کا وصال مدینہ منورہ میں اسی ماہ کی12 تاریخ کو
ہوا لیکن بعض نے اس سے اختلاف بھی کیا ہے۔
اﷲ کے گھر خانہ کعبہ میں حاضرہوکر اپنے گناہوں ، خطاؤں ، غلطیوں، لغزشوں کی
معافی مانگنے اور مدینہ منورہ اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری اور سلام و درود کا
نذرانہ پیش کرنے کی آرزو، خواہش اور تمنا کس مسلمان کے دل میں نہیں ہوتی ۔
مسلمان کا ایمان ہے کہ ان مقدس و معتبر مقامات پر حاضری بلاوے کی مرہونِ
منت ہوتی ہے۔ اگر بلاوا ہے تو کسی نہ کسی صورت اسباب پیدا ہوجاتے ہیں اور
اگر بلاوا نہیں تو اسباب ہونے کے باجود انسان نہیں جاسکتا۔
سرکاری ملازمت اور دیگر مسائل نے مجھے ریٹائرمنٹ تک اس جانب سوچنے کی مہلت
نہیں دی ، یہ میری کوتاہی بھی تھی اور غلطی بھی جس کا احساس اب شدت سے ہوتا
ہے۔ یہ بھی ہے کہ میرا بلا وا ہی نہیں تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی دو سال
گزر گئے نہیں جاسکا۔ جب عمرِ عزیز ۶۲ کی ہوئی اور حالات بھی ساز گار تھے،
وسائل بھی مہیا تھے ۔ دو نوں بیٹے سعودی عرب میں ملازمت کے سلسلے میں چلے
گئے۔ گویااب جانے میں مسائل و مشکلات نہیں تھیں۔ اس مقصد کے لیے میں جامعہ
سرگودھا کی ملازمت چھوڑ کر آگیا۔ ویزا آچکا تھا جانے میں چند دن ہی باقی
تھے کہ ایک دن میرے دل شریف نے مجھے گد گدانا شروع کیا، مچلا، پسلا، شور
مچایایہاں تک کہ میں کارڈیو سینٹر پہنچ گیا، آنن فانن میں انجوگرافی ، چند
منٹ بعد انجوپلاسٹی ہوگئی اور میں ایک عام انسان سے کارڈک پیشنٹ بن گیا۔
بظاہر جانے کے آثار نظر نہیں آرہے تھے لیکن میرا بلاوا آچکاتھا۔ میں نے
تمام مشکلات اور پریشانیوں کے باوجورخت سفر باندھا اور اﷲ کے گھر پہنچ گیا۔
یہ بات ہے2011ء کی ، پہلی بار پانچ ماہ سعودی عرب میں قیام رہا، خانہ کعبہ
میں کتنی بار حاضری ہوئی نہیں معلوم۔ اب اﷲ نے بلاوا نصیب میں لکھ دیا اور
میں گزشتہ کئی سالوں سے سعودی عرب جارہا ہوں۔ نصیب اور بلاوے کی بات ہے۔
روضہ رسول ﷺ پر حاضری بھی ہوتی رہی۔ پروردگار مجھ پر یہ عنایتِ خصوصی
تازندگی جاری و ساری رکھے۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ ایمان ہے کہ نبی پاک حضرت محمد ﷺ کے روضہ
اقدس کی زیارت اور آپ ﷺ پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا اہم اور افضل
عبادت ہے۔ یہ اپنے پروردگار کی خوشنودی اوراس کا قرب حاصل کرنے کا قریب
ترین ذریعہ بھی ہے۔یہ اپنی خطاؤں اور گناہوں کی بخشش اور اﷲ کی رحمت و برکت
و مغفرت کا قوی سہارا بھی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اﷲ اور اس کے فرشتے
نبیؑ پر درود (یعنی رحمت) بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والوتم بھی ان پر درود و
سلام بھیجا کرو‘‘۔ (سورۃ احزاب 33:56)۔ کلام مجید کی سورۃ النساء میں ارشادِ
ربانی ہے ’’اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے محبوب وہ
آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور اﷲ سے مغفرت طلب کریں اور اﷲ کے رسول ﷺ بھی
ان کے لیے سفارش کریں تو وہ ضرور بہ ضرور اﷲ کو خوب توبہ قبول کرنے والا
نہایت رحم فرمانے والا پائیں گے‘‘۔گویا دربارِ نبوی ﷺ میں حاضری ، گناہوں
سے توبہ و استغفار اور نبی ﷺ کی سفارش کے نتیجے میں قربِ الہٰی کاحصول ممکن
ہے۔
مدینہ منورہ کے لیے ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے دعا فرمائی صحیح بخاری کی
حدیث ہے ’’آپ ﷺ نے دعا فرمایا اے اﷲ! جس طرح مکہ مکرمہ کی محبت ہمارے دلوں
میں ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبت مدینہ منورہ کی ہمارے دلوں میں
ڈال دے اور آپﷺ نے دعا فرمائی کہ مولا! جوبرکتیں تونے مکہ المکرمہ میں رکھی
ہیں ان میں چارگناہ اضافہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں رکھ دے ‘‘۔ایک حدیث
مبارکہ زیارت روضہ اطہر کے حوالہ سے یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’حضور ﷺ نے
ارشاد فرمایا : جس نے میرے روضہ اطہر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت
واجب ہوچکی ہے‘‘۔ مسند امام احمد میں حدیثِ مبارکہ ہے ۔ فرمایا آنحضرت محمد
ﷺ نے کہ ’’جو شخص میری مسجد میں چالیس نمازیں ادا کرے اور اس سے کوئی نماز
نہ چھوٹی ہو تو اس کے لیے دوزخ اور عذاب سے خلاصی لکھ دی گئی اور وہ نفاق
سے محفوظ و بری ہوگیا‘‘۔
29 نومبر2013ء کو ہم پہنچے، عمرہ کیا، کئی بار خانہ کعبہ میں حاضری دی۔12
ربیع الا ول قریب ہی تھی۔ خواہش تھی کہ12 ربیع الا ول کی شب مدینہ منورہ
میں روضہ رسول ﷺ کے سامنے گزاریں۔ اس بار یہ آرزو لیے ہی ہم سعودی عرب گئے
تھے۔ جیسے جیسے یہ تاریخ قریب آرہی تھی اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے منصوبہ
بندی کررہے تھے۔ اپنے بیٹے عدیل سے اس بات کا ذکر کیا کہ ہم ایک ہفتہ مدینہ
منورہ میں خاص طور پر12 ربیع الا ول کی شب مسجد نبوی اور روضہ رسول ﷺ کے
سامنے گزارنا چاہتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پروردگار نے ہماری یہ دعا
قبول کرلی تھی۔9 جنوری2014ء بروزجمعرات رات 11 بجے عدیل کے ہمراہ ہم مدینہ
کے لیے عازمِ سفر ہوئے ۔ سعودی عرب میں رہنے والے رات میں سفر کو فوقیت
دیتے ہیں۔ جدہ سے مدینہ کے لیے ہماری کار سرپٹ دوڑی چلی جارہی تھی۔ ابھی
مدینہ کا سفر دو گھنٹے کا باقی تھا کہ طوفانی ہوا، گرج چمک کے ساتھ
موسلادھار بارش نے ہمارا استقبال کیا۔ بارش کی شدت اس قدر تھی کے گاڑی کو
ایک جگہ روکنا پڑا اور جب بارش کم ہوئی تو سفر دوبارہ شروع ہوا صبح چار بجے
مدینہ پہنچ گئے۔ جوں ہی ہماری کار مدینہ کی حدود میں داخل ہوئی اﷲ کے شکر
کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے نبی ﷺ کی خدمت اقدس میں سلام کا نظرانہ بھی پیش
کیا۔ میری ایک نعت کے چند اشعار
بلاوے پہ نبیؐ کے میں مدینے آگیا ہوں
خوش ہوں زندگی میں یہ مرتبہ پا گیا ہوں
کہاں میں بے کس و بے نوا کہا ں میرا نصیب
مدینہ کی فضاء میں شفاء پا گیا ہوں
تھی یہ آروزو مدت سے مدینہ دیکھوں
کرم پہ اپنے نبیؐ کے ، مراد پا گیا ہوں
تھی تمنا ریاض الجنہ میں ہو ایک سجدہ نصیب
جبیں کو جنت میں جھکا نے کا اعزاز پا گیا ہوں
نگاہیں کیسے ہٹتیں رئیسؔ روضے کی جالیوں سے
برسوں کی پیاس کا احساس پا گیا ہوں
ہمارا بیٹا عدیل جدہ میں مقیم ہونے کے باعث مدینہ ، مکہ ، طائف، ریاض اور
دیگر شہروں کے راستوں اور ہوٹلوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ مسجدِ بلال کے نذدیک
قائم ہوٹل ’لؤلؤ الخلیج ‘پہنچے جہاں ہمیں ایک مناسب کمرہ بھی مل گیا۔ اس سے
قبل بھی ہم نے اسی ہوٹل میں قیام کیا تھا ۔ یہاں پر قیام کا ایک فائدہ یہ
ہوتا ہے کہ نیچے کئی پاکستانی ہوٹل ہیں جہاں پاکستانی کھانا بہ آسانی مل
جاتا ہے ۔ مسجد نبوی بھی بہت قریب ہے۔ ہوٹل کے سامنے مین روڈ ہے پل کے نیچے
سے سامنے کی جانب جائیں تو مسجد نبوی کی دیوار شروع ہوجاتی ہے یہ راستہ جنت
البقیع کے بنیادی دروازے کی جانب نکلتا ہے۔ رات بھر کے سفر نے بری طرح
تھکادیا تھا۔ اپنے اپنے بستروں پر لیٹ کر ہوش ہی نہیں رہا آنکھ کھلی تو دن
نکل چکا تھا۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا آج جمعہ کا دن تھا۔ نماز جمعہ مسجد نبوی
میں پڑھی ، رش کے باعث مسجد نبوی کی دیوار اور جنت البقیع کی دیوار کے
درمیانی راستے میں جگہ ملی۔روضہ رسول ﷺ نظروں کے سامنے تھا سبز گنبد بھی
سامنے اپنی بہاریں دکھا رہا تھا۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد سیدھے روضہ
رسول ﷺ کا رخ کیا، شہناز خواتین کے حصے میں چلی گئیں مَیں نے اور عدیل نے
نبی اکرم ﷺ کی خدمات میں سلام کا نذرانہ پیش کیا۔ ریاض الجنہ میں نفل کی
ادائیگی بہ آسانی نصیب ہوئی روضہ رسول ﷺ کی جالیوں کے سامنے سے ہوتے ہوئے
اور نبی اکرم ﷺ اور ان کے ساتھ آرام فرما آپ کے رفیق حضرت ابوبکر
صدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ کی خدمات میں سلام کانظرانہ پیش کیا۔اﷲ کا شکر
ادا کیا کہ اس نے یہ سعادت بخشی۔
عدیل ہمیں مدنیہ چھوڑ کر جمعہ کی شام جدہ واپسی ہوئے کیونکہ میری بہو مہوش
اور پوتا صائم گھر پر اکیلے تھے۔ رات گئے جدہ پہنچنے کی اطلاع ملی ۔اﷲ کا
شکر ادا کیا۔ ہمیں ایک ہفتہ مدینہ منورہ میں رہنا تھا۔ نمازیں مسجد نبوی
میں ادا کیں، عصر کی نماز کے بعد جنت البقیع کا دروازہ کھولا جاتا ہے تاکہ
لوگ اس مقدس قبرستان میں آرام فرما محترم ہستیوں کی قبور کی زیارت کرسکیں
اور فاتح پڑ سکیں۔ خواتین کا داخلہ جنت البقیع میں ممنوع ہے وہ جنت البقیع
کی دیوار کے باہر سے ہی اہل قبور کو سلام پیش کرتی ہیں۔میں تنہا ہی قبرستان
جاتا رہا اور فاتح پڑھتا رہا۔12 ربیع الا ول کا شدت سے انتظار تھا ۔ پیر 12
ربیع الا ول 1435ھ مطابق 13 جنوری 2014ء ہم نے تمام شب روضہ رسول ﷺ کے
سامنے اور مسجد بنوی میں گزاری، نفل پڑھتے رہے، دعائیں کرتے رہے۔ نصیب کی
بات ہے اﷲ نے یہ سعادت بخشی ۔ ریاض الجنہ میں متعدد بار نفل کی ادائیگی
کرتے رہے پاکستان میں آج کی رات سماء ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ مسجدوں میں خاص
اہتمام ، ٹیلی ویژن رات بھر خصوصی پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ لیکن یہاں سعودی
عرب مختلف نظریات رکھتا ہے۔ مدینہ میں یا مسجد نبوی میں اس حوالے سے خاموشی
تھی۔ مجھ جیسے کتنے ہی لوگ اپنے اپنے طورپردل ہی دل میں حضواکرم ر ﷺ کی
پیدائش کے حوالے سے خصو صی دعائیں کررہے ہوں گے۔ وہ بھی اس طرح کہ ہمارے
ہاتھ غلطی سے بھی روضہ مباک کی جانب نہ اٹھ جائیں۔ اگرکبھی غلطی سے ایسا
ہوبھی جائے تو قریب میں موجود شرتہ حرام حرام کی سدائیں لگا کر ہمارے
ہاتھوں کو قبلہ کی جانب کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں بدعت اور
شرک سے محفوظ رکھے۔
مکمل شب روضہ رسول ﷺ کے سامنے اس طرح بسر ہوئی کہ کبھی نفافل پڑھتا ، کبھی
قرآن مجید کی تلاوت ، پھر ریاض الجنہ میں چلا جاتا وہاں بھی عبادت کا عمل
جاری رہتا ۔ ریاض الجنہ میں مَیں آہستہ آہستہ راستہ بنا تا ہوا با لکل روضہ
رسولﷺ کی دیوار سے جا ملتا ۔ مجھے روضہ رسول ﷺ کی دیوار جس کے برابر کوئی
تین یا چار فٹ کا کوریڈور ہے جس میں منتظمین یا شرتے موجود ہوتے ہیں بیٹھ
کر نفل ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مَیں کیوں کہ کرسی پر بیٹھتا ہوں ۔
چنانچہ اس وقت بھی کرسی میرے ساتھ تھی۔ جب میں کرسی پر بیٹھ کر نفل ادا
کررہا تھا تو میرے جسم کا دائیاں حصہ روضہ رسولﷺ کے اس دیوار کے ساتھ موجود
کوریڈور کی دیوار سے لگ رہا تھا ۔ جب میں بائیں جانب سلام پھیرتا تو روضہ
رسولﷺ کی جالیوں سے اندر کا حصہ نظر آرہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حجرہ مبارک
سیدنا عائشہ صدیقہؓ میں قبلہ کی جانب پہلی قبر مبارک بنی اکرم ﷺ کی ہے آپ ﷺ
کا سر مبارک مغرب کی طرف اور پاؤں مبارک مشرق کی جانب ہیں اور آپ ﷺ کا چہرہ
مبارک قبلہ کی جانب یعنی مغرب کی طرف ہے ۔ آپ ﷺ کے رفیق سیدنا ابوبکر صدیقؓ
کا سر آپﷺ کے کندھوں کے برابر اور حضرت عمرِ فاروقؓ کا سر آنحضرت محمد ﷺ کے
پاؤں مبارک کے برابر میں ہے۔ اﷲ اﷲ کیا سعادت میرے نصیب میں آئی۔ریاض الجنہ
میں ایک سجدہ ہی مقدم اور افضل ہے ،مجھے تو کئی بار یہ سعادت ملی اور میں
نے ریاض الجنہ کے ہر ہر حصہ میں نماز اداکی۔اﷲ تعالیٰ میری اس عبادت کو
قبول فرمائے۔
تھی تمنا ریاض الجنہ میں ہو ایک سجدہ نصیب
جبیں کو جنت میں جھکا نے کا اعزاز پا گیا ہوں
رات کا ایک پہر ایسا بھی آیا کہ میں مسجد نبوی کے موجودہ منبر جہاں سے امام
مسجد نبوی امامت کراتے ہیں کے ساتھ اس طرح بیٹھ گیا کہ میری کمر منبر کے
برابر دیوار سے لگی تھی میرا منہ اور میرے نظریں روضۂﷺ کی جالیوں کی جانب
تھیں۔ اس کیفیت میں بہت دیر تک بیٹھا رہا جالیوں کو تکتا رہا، دعائیں
مانگتا رہا۔ جی چاہتا ہے کہ بس نظریں اس منظر کو دیکھتی رہیں اور اسی کیفیت
میں زندگی تمام ہوجائے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو مدینہ میں ہیں، مدینہ میں
ان کی زندگی کا اختتام ہوتا ہے اور وہ جنت البقیع میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے
مدفن ہوجاتے ہیں۔ میری نظریں جالیوں سے لپت لپٹ جارہی تھیں۔ خوش نصیبی پر
رشک کررہا تھا۔ خیالوں ہی خیالوں میں روضۂ مبارک کے اندر کا منظر بھی نظروں
کے سامنے آرہا تھا۔ نظریں جالیوں سے ہٹانے کو جی ہی نہیں چارہا تھا۔ اس
حسین دل فریب منظر کو میں الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔ میری ایک نعت
کا شعر کچھ اس
طرح ہے
نگاہیں کیسے ہٹتیں رئیسؔ روضے کی جالیوں سے
برسوں کی پیاس کا احساس پا گیا ہوں
مسجد نبوی اور روضہ رسول ﷺ کے نذدیک یہ مقدس و عظیم المرتبت جگہ ہے ۔ اس
مقام کو آنحضرت محمد ﷺ کی زبان مبارک سے ریاض الجنہ کا لقب نصیب ہوا۔مالک
دو جہاں نے جنت کا یہ ٹکڑا مسجد نبوی میں اتارا، یہاں نفل پڑھنا ایسا ہے کہ
جیسے جنت میں نماز پڑھنا ۔اس حصہ کے مشرق میں روضہ رسول ﷺ ہے۔اس مقدس و
متبرک حصہ کے بارے میں متعدد احادیثِ مبارکہ احادیث کی کتب میں ملتی ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے ۔فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ ’’میرے گھر اور میرے منبر کے
درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے‘‘۔
ایک حدیث سید نا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے ۔ فرمایا رسول اکرم ﷺ نے کہ ’’ میری
قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے‘‘۔ (مسلم
شریف)۔ مسلم شریف ہی کی ایک حدیث ہے فرمایا بنی اکرم ﷺ نے جو شخص جنت کے
باغات میں سے کسی باغ میں نماز پڑھنے کا خواہش مند ہو تو اسے میری قبر اور
میرے منبر کے درمیان نماز پڑھ لینی چاہیے‘‘۔ ریاض الجنہ میںآٹھ ستون ہیں ان
ستونوں کو ستوں ہائے رحمت کہا جاتا ہے۔ ہر ستون فضیلت رکھتا ہے ، دعا قبول
ہونے کا مقام ہے،نجات ومغفرت کی جگہ ہے۔ ریاض الجنہ میں منبر نبوی شریف
روحانی مرکز ، فضیلت ، متبرک اور دعائے نجات و مغفرت ہے۔ منبر کے بارے میں
ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ’’میرے منبر کے پاس جنت کے مراتب ہیں‘‘۔ محمد عبد اﷲ
معبود نے اپنی کتاب ’تاریخ مدینہ‘ میں کنز العمال کے حوالے سے ایک حدیث یہ
نقل کی ہے کہ فرمایا نبی اکرم ﷺ نے ’’میرا منبر جنت کے دروازوں میں سے ایک
دروازے پر رکھا جائے گا اور میرے منبر اور گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے
باغوں میں سے ایک ہے‘‘۔ آپ ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ
منبر رسول ﷺ کے قریب نماز و عبادت ، تسبیح و تہلیل جنت کے حصول کا باعث ہے۔
ریاض الجنہ میں قیام ، عبادت ، ادائیگیِ نماز، تسبیح و ذکر کرنے والا ایسا
ہی ہے کہ وہ شخص جنت میں بیٹھا ہے۔الحمد اﷲ مجھ ناچیز کو جنت الجنہ کے ستون
ہائے رحمت اور منبرِرسول ﷺ کے پاس نفل ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
رات میں کچھ وقت ایسا بھی آیا کہ میری کمر میرا ساتھ چھوڑتی محسوس ہوئی
،میں کافی عرصے سے کمر کی تکلیف میں مبتلا ہوں چنانچہ مَیں نے بھی دیگر
لوگوں کے ساتھ روضہ اطہر کے سامنے ہی اپنے جسم کو دراز کرلیا۔ ابھی کچھ ہی
وقت ہوا تھا خواتین کاروضہ اطہر کے نزدیک سے زیارت کا مرحلہ اختتام کو
پہنچا تو اس حصہ کی صفائی کا اہتمام شروع کردیا گیا ۔ جس کے نتیجے میں سب
لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھ گئے۔ اب میں اس جانب چلا گیا جہاں سے خواتین روضہ
اقدس کے نذدیک ہوکر سلام پیش کرتی ہیں۔ گویا روضہ اطہر کی مشرق کی جانب
والی دیوار کی جانب۔ میں یہاں ابھی تک نہیں گیا تھا۔اب میں نے روضہ اطہر کے
چاروں جانب سے اپنے نبی ؑ کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ جسم تھک گیا تھا۔ نیند
کا خمار بھی طاری ہوچکا تھا۔ لیکن اس حصہ میں جو لطف آرہا تھا اس کا مزہ ہی
کچھ اور تھا۔ میں روضہ اطہر کے سامنے ایک ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
نظریں روضہ اقدس پر جمی ہوئی تھیں۔ اب میری سوچ کا دھارا اعلانِ نبوت ، مکہ
میں اہل قریش کی زیادتیاں، مکہ سے مدینہ ہجرت اور آپ ﷺ کی مدینہ منورہ میں
گزری زندگی کی جانب ہوگیا۔ تمام غزوا ۃ کے بارے میں سوچتا رہا جن میں آ
نحضرت ﷺ سپہ سالار کی حیثیت سے شریک رہے۔ فتح اور شکست دونوں پیش آئیں۔جن
جن تکلیفات اور پریشانیوں سے آپ اور صحابہ اکرم گزرے ان کا احاطہ کرتا رہا
۔ غار ثور میں آپ ﷺ کا اپنے رفیق حضرت ابو بکر صدیق کے ہمراہ قیام نظروں کے
سامنے تھا ۔ جبلِ ثور پر اپنی حاضری کی روداد میں ایک مضمون ’جبلِ ثور کے
دامن میں چند ساعتیں‘ کے عنوان سے قلم بند کرچکا ہوں ۔ آپ ﷺکی مدینہ آمد ،
آپ ﷺکا استقبال، مساجد کی تعمیر، مدینہ منورہ میں اسلام کی تبلیغ اور اسے
پھیلانے کے مراحل اور ان میں پیش آنے والی مشکلات ، کفار کے ساتھ مختلف
غزواۃ ایک ایک کرکے تمام واقعات ذہن میں آتے رہے۔ غزہِ احد کا حال میں اپنے
ایک مضمون ’جبلِ احد کے دامن میں چند ساعتیں‘کے عنوان سے لکھ چکا ہوں۔ وہ
پہاڑ اور وہ میدان جہاں کفار اور مسلمان آنحضرت محمد ﷺ کی رہبری میں صف آرا
ہوئے میری نظروں کے سامنے تھا۔ احد میں شہادت پانے والے شہداء کی یاد گار
جہاں شہدائے احد مدفن ہیں میری نظروں کے سامنے تھی۔ سید المرسلین حضرت محمد
ﷺ کے چچا سید الشہدا سیدنا حمزہؓ بن عبدالمطلب کی بہادری کے کارنامے اور
پھر ان کی شہادت کا واقع ، حضرت حمزہؓ کے شہادت کے بعد ابو سفیان کی بیوی
’’ہندہ ‘‘کا ان کے جسم مبارک کو چیرکر ان کا جگر نکالنا، اسے چبانا جب نگل
نہ سکی تو اس کا تھوک دینا۔ ہندہ نے حضرت حمزہ کو شہید کرنے پر اپنے کڑے،
بالیاں اور گلے کا ہار انعام میں ’وحشی ‘کو دئے۔ حضرت حمزہؓ ایک بہادر اور
دلیر صحابی تھے آپ نے جنگ بدر میں بے شمار مشرکین کو موت کے گھاٹ اتارا تھا
یہ بات مشرکین کے علم میں تھی چنانچہ وہ دیگر کے علاوہ حضرت حمزہؓ کے خون
کے پیاسے تھے ۔ مشرک جبیر بن مطعم نے ’وحشی‘ نامی ایک غلام کو آزاد کردینے
کا لالچ دیگر حضرت حمزہؓ کو شہید کرنے کا ٹاسک دیا تھا۔ اس نے ایسا ہی کیا
موقع دیکھ کر حضرت حمزہؓ پر ایسا وار کیا کہ وہ شہید ہوگئے۔ آنحضرتﷺ نے جب
حضرت حمزہؓ کی شہادت شدہ لاش دیکھی تو بہت غم گین ہوئے ، فرمایا ایسا درد
ناک منظر میری نظر سے کبھی نہیں گزرا‘۔ آپﷺ نے شہدا ئے اُحد کے لیے فرمایا
کہ ’’میں قیامت کے دن ان کاشفیع ہوں‘‘۔ وحشی بعد میں ایمان لے آیاتھا لیکن
حضور ﷺ نے اسے اپنے سامنے آنے سے منع فرما دیا تھا۔
حضرت حمزہ اور دیگر صحابہ اکرم کی بہادری اور اپنے نبی ؑ سے محبت کا عملی
مظاہرہ احد کے میدان میں نمایاں تھاتو دوسری جانب حضور سے میلوں دور رہنے
والے نبی ؑ کے ایک دیوانے کو جب یہ اطلاع ملی کے جنگ احد میں نبی ؑ کا ایک
دانت شہید ہوگیا ہے تو انہوں نے اس خیال سے کہ نہیں معلوم حضورﷺ کا کونسا
دانت شہید ہوا ہوگا انہوں نے اپنے تمام دانت توڑ ڈالے۔ یہ واقع ہے تابعین
عاشقِ رسول حضرت اویس قرنی کا جو ملک یمن کے ایک محلہ قرن کے رہنے والے تھے
۔ آپ اتنے درویش منش اور ایسے فقیر تھے کہ لوگ آپ کو دیوانہ سمجھتے
تھے۔معروف صوفی بزرگ سید علی ہجویری نے اپنے تصنیف ’کشف المحجوب‘ میں لکھا
ہے کہ اویس قرنی اہل تصوف کے عظیم مشائخ میں شمار ہوتے تھے۔ رسول اﷲ کے
زمانے میں تھے مگر زیارت نہ کرسکے۔اویس قرنی اپنی والدہ ماجدہ کے واحد
سہارا تھے اور ان کے نگہداشت اور دیکھ بھال کے باعث حضور اکرم ﷺ کی ظاہری
زندگی میں زیارت نہ کرسکے اور نہ ہی آپ کے اتنے وسائل تھے کہ والدہ کو اپنے
ہمراہ مدینہ لے جاتے اور انہیں اکیلا بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ میدان احد
میں رسول اکرم ﷺ کا دندانِ مبارک شہید ہوگیا ۔ جنگ احد کا حال اویس قرنی کو
معلوم ہوا تو تڑپ اٹھے اور زارو قطار روتے تھے جب انہیں یہ احساس ہوا کہ
رسول اکرم ﷺ کو اتنی تکلیف دانت ٹوٹنے سے ہوئی ہوگی اور تم یہاں آرام سے ہو
تو انہوں نے پتھر مار کر اپنا دانت توڑ ڈالا، پھر خیال ہوا کہ یہ نہیں، یہ
دانت ہوسکتا ہے اس لیے اسے توڑ دیاپھر سوچا کہ ممکن ہے کہ آپ کا نیچے کا
دانت ٹوٹا ہو تو اس لیے نیچے کا دانت توڑ دیا پھر اس خیال سے کہ ہوسکتا ہے
اس کے برابر والا دانت ٹوٹا ہو برابر والا دانت توڑ ڈالا ۔ غرض انہوں نے
ایک ایک کرکے اپنے تمام دانت توڑ ڈالے کہ کسی بھی طرح اپنے نبی ﷺ کا کامل
اتباع ہوسکے ۔اپنے نبی ﷺ سے محبت کا اعلیٰ نمونہ تھے آپ ﷺ نے بھی اویس قرنی
کو اپنا بہترین دوست قرار دیا۔
صبح کے چار بج رہے تھے تہجد کے لیے روضۂ رسول ﷺ سے باہر جاکر وضوع کی اور
باہر ہی نماز ادا کی ۔ مسجد نبوی کے صحن میں بے شمار لوگ موجود تھے۔ صحن
مسجد نبوی روشن تھا،رحمت برس رہی تھی، بھینی بھینی خوشبو مہک رہی تھی،ٹھنڈک
تھی، آقا کے دیوانے ، بندگان خدا بڑی تعداد میں قرآن مجید کی تلاوت ، تسبیح
و تہلیل، ذکر و اذکار، تہجد کے نوافل کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ بعض چہل
قدمی بھی کر رہے تھے۔ مَیں نے نفل نماز ادا کرنے کے بعد جنت الا بقیع کی
جانب رخ کیا تو وہ تمام ،محترم ہستیا ں جن میں آلِ رسولﷺ، ازواجِ مطہرات،
صاحبہ کرام ، تابعین، تبع تابعین، آئمہ کرام، علماء ، صالحین یاد آگئے جو
اس عظیم قبرستان میں آرام فرما ہیں۔ یہ مدینہ کا محترم و متبرک قبرستان ہے
جو مسجد نبوی ﷺ کے مشرقی سمت واقع ہے۔ یہ قبرستان زمانہ جاہلیت سے مدینہ
منورہ کے مکینوں کا قبرستان رہا ہے۔یثرب سے مدینہ بن جانے کے بعد صحابہ
اکرم یہاں مدفون ہوئے۔عثمانیوں کے دور میں اس قبرستان میں قبروں پر کتبے
لگے ہوئے تھے لیکن نجدی حکمرانوں کے دور میں قبروں پر سے کتبے ہٹا دیے گئے۔
اس قبرستان کی تعظیم کے حوالے سے ہمیں کئی احادیث ملتی ہیں۔ ایک حدیث
مبارکہ ہے کہ آنحضرت محمد ﷺ نے فرمایا ’’کہ جو شخص مدینہ میں مرے اور بقیع
میں دفن کیا جائے وہ میری شفاعت سے ممتاز ہوگا‘‘۔ ایک اور حدیث مبارکہ ہے
کہ سب سے پہلے آنحضرت محمد ﷺ زمین سے اٹھیں گے، ان کے بعد حضرت ابو بکر
صدیق ؑ ، ان کے بعد خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؑ ، ان کے بعد اہل بقیع اور
پھر اہل مکہ اٹھیں گے‘‘۔ ’تاریخ مدینہ‘کے مصنف مولانا محمد عبد المعبود نے
مشکوٰۃ شریف کی ایک حدیث یہ نقل کی ہے کہ سید نا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے
کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ’’قیامت کے قریب سید ناعیسیٰ علیہ السلام آسمان
سے اتریں گے 45 سال تک زندہ رہیں گے‘ شادی کریں گے اور اولاد بھی ہوگی جب
ان کا وصال ہوگا تو میرے ساتھ ہی ان کی تدفین ہوگی۔ اور قیامت کے دن میں
عیسیٰ علیہ السلام ، ابوبکرو عمرؓ اکٹھے اٹھیں گے‘‘۔کہا جاتا ہے کہ حجرہ
مقدسہ کے شرقی جانب ایک قبر کی جگہ خالی ہے۔ مَیں عصر کی نماز کے بعد بقیع
کئی بار جا چکا تھا ۔ میری نظروں کے سامنے خلیفہ سوم حضرت عثمان غنیؓ کی
قبرِ مبارکہ تھی ، مرکزی دروازے سے داخل ہوں انتہا ئی دائیں جانب سیدہ
عائشہ صدیقہؓ کی قبر اطہر ہے جس کے چار جانب پرانے پتھر کی چھوٹی سے دیوار
بنی ہوئی ہے۔ آنحضرت محمد ﷺ کے صاحبزادے سیدنا ابرہیمؓ بھی اسی قبرستان میں
مدفن ہیں ،دخترانِ رسول ﷺ،حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جنہوں نے آپ
ﷺ کو اپنا دودھ پلایا، آنحضرت محمد ﷺ کی ازواج مطہرات میں سوائے حضرت خدیجہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے جو جنت المعلیٰ میںآرام فرماہیں اسی قبرستان میں
مدفن ہیں، حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہہ ، سید نا حسن رضی اﷲ
تعالیٰ عنہہ، اما جعفر صادقؓ اور بے شمار صحابہ اکرم اسی قبرستان میں آرام
فرما ہیں۔بقیع کے قبرستان میں کسی بھی قبر پر کسی کے نام کا کتبہ نہیں،
البتہ سر کی جانب چھوٹے چھوٹے پتھر ضرور لگے ہوئے ہیں، وہاں موجود اکثر
احباب اپنے ہمراہ نقشہ لاتے ہیں کہ یہ فلاں کی قبر ہے یہ فلاں کی قبر ہے۔
بعض قبروں کو دیکھ کراحساس ہوتا ہے کہ واقعی یہ درست ہو سکتا ہے۔ بعض قبروں
کے گرد بڑا احاطہ بنا ہوا ہے۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ قطریں
حضرت عثمانؓ ، حضرت عائشہ صدیقہؓ ، حضور کے صاحبزادے سیدنا ابراہیمؓ کی
ہیں۔
اب مَیں نے جنت البقیع سے واپس روضۂ رسول ﷺ کی جانب رخ ، مسجد نبوی کا روشن
و کشادہ صحن ، کھلا آسماں ،سبز گنبد ، صبح کے چار بج رہے تھے لیکن چاروں
جانب نبی ؑ کے دیوانے موجود تھے۔ نہ تھکن کا احساس، نہ نیند کے آثار۔ اس
حسین و جمیل نظارہ کا لطف لیتے ہوئے یکا یک میرے ذہن میں سلطان نور الدین
زنگی کا خواب اور اس پراس کا عمل کرنا یاد آگیا۔ یہ واقعہ اب تک کتابوں میں
پڑھا تھا تفصیل نیٹ پر بھی موجود ہے۔ بعض مورخین نے اس سے اختلاف بھی کیا
ہے ۔یہ واقعہ1162ء کا ہے ۔ ترکی نظام سلطنت کے تحت شام و عراق کے مغربی حصہ
پر سلطان نور الدین زنگی کی حکومت تھی۔ اس کی بادشاہت کادور 1140ء سے 1174ء
ہے۔ سلطان نور الدین کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ یہ سربراہ دین دار،
نمازی و پرہیز گار تھا۔ ایک دن عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے کہ اچانک اٹھ
بیٹھے اور نم آنکھوں سے فرمایامیرے ہوتے ہوئے میرے آقا ، میرے نبیؑ کوکون
ستا رہاہے آپ اس خواب کے متعلق سوچ رہے تھے جو مسلسل تین روز سے آرہا تھا
اور آج پھر چند لمحے قبل آیا جس میں سر کار نے دروازے کی جانب اشارہ کرتے
ہوئے دو چہرے دکھائے اور فرمایا کہ مجھے ستا رہے ہیں۔ اب سلطان زنگی کو
قرار نہ تھا انہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینہ جانے کا
ارادہ کیا اُس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ بیس سے پچیس دن کا تھا مگر سلطان
نے بغیر آرام کیے یہ راستہ14 دن میں طے کیا۔ مدینہ پہنچ کر سلطان نے مدینہ
آنے اور جانے والے تمام راستے بند کرادئے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ
کھانے پر بلایا ۔ اب لوگ آرہے تھے اور جارہے تھے سلطان ہر چہرے کو بغور
دیکھتا لیکن اسے وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اُسے خواب میں دکھا ئے گئے تھے۔
اَب سلطان کو فکر دامن گیر ہوئی اور گورنر مدینہ سے کہا کہ کیا کوئی ایسا
بھی ہے جو اِس دعوت میں شریک نہیں۔ جواب ملا کہ مدینہ میں رہنے والوں میں
سے تو کوئی نہیں البتہ دو مغربی زائر ہیں جو روضۂ رسولﷺ کے قریب کرائے کے
ایک مکان میں قیام پذیر ہیں تمام دن عبادت کرتے ہیں شام کو جنت البقیع میں
لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ۔یہ عرصہ دراز سے مدینہ میں رہ رہے ہیں یہ گھر جس
میں یہ دونوں قیام پذیر ہیں جنت البقیع اور روضۂ رسول ﷺ کے درمیان واقع ہے۔
سلطان نور الدین نے ان زائرین سے ملاقات کی خواہش کی ۔ دونوں زائرین کا
حلیہ مسلمانوں والا تھا،دیکھنے میں عبادت گزار لگتے تھے۔ ان کے گھر کچھ بھی
نہ تھا دو عدد چٹائیاں اور چند ضرورت کی اشیاء ۔ انہیں سلطان کے روبرو پیش
کیا گیا جوں ہی سلطان نے ان کو دیکھا اس کی نظروں کے سامنے وہی چہرے آگئے
جو اسے خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سلطان فوراً اس جگہ پہنچا جہاں وہ رہائش
پذیر تھے۔ جوں ہی اس نے اس جگہ کو دیکھا جہاں بیٹھ کر وہ عبادت کیا کرتے
تھے سلطان کوچٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا محسوس ہوا۔ اس نے اس چٹائی کو
اٹھایا تواس کے نیچے ایک سرنگ کے آثار نظر آئے ۔ سلطان نے اپنے سپاہیوں کو
سرنگ میں جانے کا حکم دیا ۔ سپاہیوں نے واپس آکر بتا یا کہ یہ سرنگ نبی پاک
حضرت محمد ﷺ کے روضہ اطہر کے نذدیک جاچکی ہے۔ سلطان نورالدین زنگی غیظ و
غضب میں آگیااس نے ان دونوں زائرین سے دریافت کیا کہ سچ بتا ؤ کہ تم کون ہو
، تمہارے مقاصد کیا ہیں اور تم کیا کرنا چاہتے ہو۔ چہل و صحت کے بعد انہوں
نے بتایا کہ وہ نصرانی ہیں اپنی قوم کی طرف سے مسلمانوں کے پیغمبر کے جسم
اقدس کو چوری کرنے پر مامور کیے گئے ہیں۔یہ سن کر سلطان آب دیدہ ہوگیا اسی
وقت ان دونوں کی گردنیں اڑادی گئیں ۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان روتا جاتا اور
کہتا جاتا کہ ’میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لیے اس غلام کو
چناگیا‘۔ اس واقع کو ذہن میں لانے کے بعد مَیں نے جنت البقیع اور روضۂ
مبارک کے درمیان کی جگہ کو بغور دیکھا کہ اگر وہ ملعون زائرین جنت البقیع
کے اس بنیادی دروزہ سے آگے کی جانب بھی کسی مکان میں قیام پذیرہوں گے تو ان
کے لیے سرنگ کے راستے روضۂ رسولﷺ تک پہنچنا مشکل نہیں تھا۔ میں بہت دیر تک
جنت البقیع اور روضۂ اطہر ﷺ کے درمیانی جگہ کو دیکھتا رہا ۔ واقعی سلطان
نور الدین زنگی خوش نصیبوں میں سے تھا کہ اسے اس خدمت کے لیے چنا گیا۔غیر
مسلموں کی مسلمان دشمنی ابتدا سے ہے جو آج بھی جاری ہے۔ نہیں معلوم کتنے
غیر مسلم کس کس بھیس میں مکہ اور مدینہ جاچکے ہوں گے ۔اس حوالے سے مجھے ایک
غیر مسلم کا مکہ اوار مدینہ جانا یاد آگیا۔ یہ واقعہ مَیں نے حال ہی میں
رفیع الدین زبیری کی مرتب کردہ کتاب ’حرمین کے مسافر: سر رچرڈ برٹن ، حافظ
احمد حسن ، عبدالماجد دریابادی‘ میں پڑھا تھا ۔ مکہ المکرمہ میں غیر مسلموں
کا داخلہ شروع ہی سے ممنوع ہے۔ مکہ کی حدود شروع ہوتی ہے تو گیٹ پر واضح
حروف میں لکھا ہے کہ ’غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے‘۔سر رچرڈ برٹن ایک
انگریز تھا ، ایسٹ انڈیا کمپنی میں کیپٹن تھا مہم جوئی اس کا شوق تھا اس
میں بے شمار خصوصیات تھیں وہ ایک فوجی مہم جو، کھوجی، جغرافیہ داں، ادیب ،
شاعر ، لسانیات کا ماہر، جاسوس اور سفارت کار ہونے کے ساتھ کئی کتابوں کا
مصنف بھی تھا۔ سر رچرڈ برٹن نے 1853ء میں مسلمان کا بھیس بدل کر مکہ
المکرمہ ، مدینہ منورہ ، ساتھ ہی حج کے جملہ امور میں مسلمانوں کے ساتھ
رہا۔ برٹن نے اس سفر کی داستان اپنی کتاب ’پلگرم ٹو مدینہ اینڈ مکہ‘ میں
قلم کی ہے۔ زبیری صاحب نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ اپنے اس سفر کی تیاری
اس نے سندھ میں بھیس بدل کر مسلمانوں کے درمیان رہتے ہوئے کی۔ اسلامی شائر
کا مطالعہ کیا، مسلمانوں کے طرز زندگی ‘آداب اور رسم و رواج سے واقفیت حاصل
کی۔ اس نے بہت ہی ہوشیاری، دور اندیشی سے کام لیا۔سفر حجاز پر جانے سے قبل
اس نے اپنی ختنہ بھی کرالی اس سے اس کی احتیاط کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
برٹن پانی کے جہاز کے ذریعہ مسلمانوں کے قافلے میں شریک ہوکر مکہ اور مدینہ
میں حج کے ایام گزارے۔ سر رچرڈ برٹن کا مقصد محض سیاحت تھا۔ حجاز کے حالات
اور مسلمانوں کے اس مذہبی طریقہ کا مطالعہ کرنا تھا، ماحول کا مطالعہ کرنا
تھا۔برٹن کے سفرکا تفصیلی مطالعہ اس کی کتاب یا رفیع الدین زبیری کی کتاب
سے کیا جاسکتا ہے۔نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد ہم مسجد نبوی سے واپس اپنے
ہوٹل آگئے۔ اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری دیرینہ خواہش کی تکمیل کی اور
ہم نے 12 ربیع الاول کی شب روضۂ رسول ﷺ اور مسجد نبوی میں گزاری۔ اﷲ تعالیٰ
ہماری اس عبادت کو قبول و منظور فرمائے۔ آمین۔
|