محسن ِانسانیت محمد عربی ﷺ کی ولادت با سعادت، آپ کے
بچپن اور جوانی، نبوت اور خلافت سے یہ دنیا کبھی ناآشنا نہ رہی؛ بلکہ جب
سے یہ دنیا آباد ہے، ہر دور اور ہر زمانے میں انبیا ورُسل اور اہل علم آپ
کے وجودِمسعود اور علامات و خصوصیات کے بارے میں ہمیشہ اپنے ماننے اور
جاننے والوں کو بتاتے رہے ہیں۔ سورۂ انعام کی آیت نمبرچھہ میں حق جل شانہ
کا ارشاد ہے: ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ آپ کو پہچانتے ہیں جیسا
کہ وہ اپنے بچوں کو پہچانتے ہیں۔ ‘ ‘ جو آسمانی کتابیں ہیں ان میں صراحتاً
اسم گرامی کا ذکرہے، البتہ جو غیر آسمانی کتابیں ہیں ان میں بھی اس مقدس
ہستی کا تذکرہ کسی نہ کسی نام سے ضرور ملتا ہے، چنانچہ کہیں اس کا نام کلکی
اوتار ہے، تو کہیں اس کو فارقلیط کہا گیا ہے، تو کہیں اس کا نام نراشنش
بتلایا گیاہے، تو کہیں آخری بدھا لکھا ہے۔ مثلاً ہندو مذہب کی مشہور مقدس
کتاب اتھروید کے منترنمبر بیس، ایک سو ستائیس اور ایک میں نراشنش کا ذکر
آیا ہے، جس کا مفہوم محمد سے عبارت ہے، یعنی وہ شخص جس کی تعریف کی گئی ہو۔
اس کی تائید ہندو مذہب کے مشہور مبلغ سوامی رامسوروپ کے اس تحریر سے بھی
ہوتی ہے، جس میں انہوں نے لکھا کہ’ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر محمد اور
مقدس قرآن پوری دنیا کے لیے سچ کا پیغام ہیں اور پیغمبروں کی تبلیغ ہمیشہ
انسانیت کی بھلائی کے لیے رہی ہے۔ اگر کوئی ویدوں کو پڑھے، تو وہ بھی ان
میں انسانیت کی بھلائی کا ہی پیغام پائے گا اور وہ پیغام کسی خاص مذہب اور
ذات کے لیے نہیں ہے؛بلکہ وہ پوری دنیا کے لوگوں کے لیے ہے اوراس میں جو
پیغمبرمحمد کے آنے کی خوشخبری کی بات ہے، تو وہ بھی سچ ہے، اس لیے کہ سارے
ہی بڑے مذہبی رہنما لوگوں کے مستقبل کی بھلائی چاہتے ہیں۔
آپ571 ء میں عرب کے مکہ شہر قبیلہ بنو ہاشم میں پیدا ہوئے۔ چالیس سال کی
عمر میں نبوت ملی، ہر چند کہ آپ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے، جب پوری دنیا
بالعموم اور اہل مکہ بالخصوص ہر طرح کے انسانی غیر فطری اور لا مذہبی رسم و
رواج میں ملوث تھے، مگر آپ پر ان معاشرتی آلائش کا چنداں اثر نہیں ہوا
اور آپ کا ظاہروباطن تب بھی لائق تقلید تھا۔ لوگ امانت و دیانت داری میں
آپ کی مثال پیش کیا کرتے تھے اور عزت و شرافت میں آپ کو اعلی اقدار کا
حامل سمجھتے تھے، اور ان کو آپ پر اتنا کامل یقین تھا کہ وہ اپنی امانتیں
آپ کے پاس جمع رکھتے تھے۔ نبوت ملنے کے بعد آپ تئیس سال بہ قید ِحیات
رہے، اور اپنی نبوت کے صرف تئیس سال کی انتہائی کم مدت میں آپ نے جس
معاشرے کی تشکیل فرمائی، وہاں اخوت و حمیت، صلح و آشتی، انسانی ہمدردی،
بنت حوا کی عفت و عصمت کی حفاظت و بازیابی اورمذہبی رواداری خوب
سرشبزوشاداب ہوئے۔ سن622ء میں آپ ﷺ نے تمام قبیلہ والوں کے ساتھ مل کر ایک
معاہدہ کیا جو میثاقِ مدینہ سے مشہور ہے اورلاریب یہ انسانی تاریخ کا پہلا
تحریری دستور اور قانون تھا۔ اس معاہدہ میں سات سو تیس الفاظ تھے، جس میں
آپسی جنگ بندی اور مذہبی رواداری کے ساتھ اور بھی53 مدعوں پر معاہدین نے
دستخط کیے۔ اس معاہدہ سے ہر شخص، ہر قبیلہ اور ہرجماعت کو اپنے اپنے طور
طریقے، فکرونظر اور مذہب کے مطابق زندگی گذارنے کا مکمل حق حاصل ہوا۔ مشہور
مغربی مؤرخ اور قلم کار لیوٹالسٹائے نے سرکارِ دوعالم ﷺ کی عظیم قائدانہ
صلاحیتوں کا اپنے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے:’’ پیغمبر محمد ﷺ ایک
عظیم قائد تھے۔ انہوں نے قبائلی تمام نظام ہائے باطل کا قلعہ قمع کرکے
لوگوں کو سچ کی روشنی دکھائی اور یہ ان کی عظمت شان کے لیے کافی ہے۔ انہوں
نے لوگوں کو خون بہانے سے بچایا، پوری دنیا میں امن وامان قائم رکھنے کی
تعلیم دی، اور ان کے لیے روحانی علاج کا نظم کیا۔ ایسے عظیم انسان کی عزت
کرنا ہر انسان پر فرض ہے‘‘۔ نیز جرمن سمراج کے چانسلر اوٹو اون بِسمارک نے
پیغمبر محمد ﷺ کے تعلق سے اپنی عقیدت کا اظہار ان لفظوں میں کیا ہے کہ مجھے
بہت افسوس ہے کہ میں آپ کے ساتھیوں کا حصہ نہیں بن سکا۔ اس دنیا نے صرف
ایک بار اس مصطفی ٰ کو دیکھا تھا، پھر کبھی نہیں دیکھے گی۔ میں انتہائی عزت
و احترام سے آپ کے آگے جھکتا ہوں۔
بلاشبہ ہر دور اور ہر زمانے میں ہزاروں انصاف پسند مصنفین اور مؤرخین نے
جب بھی ہادی ِ دوعالم ﷺ کی حیات و سیرت پر کچھ لب کشائی کرنے کی جرأت کی،
تو آپ کو اخلاق و کردار کی معراج پر بیٹھایا۔ مشہور مغربی مصنف ’’آرتھر
گلیمن‘‘فتح مکہ کے حوالہ سے لکھتاہے :’’ محمد (ﷺ)کے ا س اچھے سلوک کو دوسرے
بادشاہوں کے مقابلے میں انتہائی درجہ کی شرافت اور وسعتِ ظرفی سے تعبیر کیا
جائے گا۔ محمد(ﷺ) کی کامیابی انسانیت کی کامیابی تھی۔ آپ نے ذاتی واد کی
ہر نشانی کو مٹاکرظالمانہ نظام کوبالکل ختم کردیا‘‘۔
لا ریب آپﷺ نے اس موقع پر عدل وانصاف، رواداری، انسان دوستی اور انسان
نوازی کی بے نظیر مثالیں قائم کیں اور ظالموں کے ظلم کا بدلہ حلم وشرافت
اور عفودرگذر سے دیا۔ مکہ والے کے ظلم وستم کو آپﷺ نے جس فراخ دلی سے معاف
فرماکر اعلیٰ رواداری کا بہترین عملی مظاہرہ کیا، اسے تاریخ بھی رشک کی
نگاہوں سے دیکھتی ہے، کہ بنو حنیفہ کا انتہائی بدمعاش سردارثمامہ جومسلسل
آپ کو ستاتا رہا، مگر جب گرفتار ہو کرآپ کے سامنے حاضر کیا گیا، تووہ بھی
آپ کے اچھے سلوک کو دیکھ کر ایمان لے آیااورپکار اٹھاکہ پوری دنیا میں
ابھی اگر کوئی میراسب سے زیادہ محبوب ہے، تو آپ ﷺ کی ذات ِ گرامی ہے،
حالانکہ ایمان لانے سے قبل میں دنیا میں سب سے زیادہ آپ ہی سے نفرت کرتا
تھا۔ ہند جس نے آپ کے چچاحضرت حمزہؓ کا کچا کلیجہ چباکر آپ کو رُلایا
تھا، جب اس نے بھی معافی چاہی، تو آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا، اور وہ
وحشی جس نے اپنے نیزہ سے حضرت حمزہ کو نشانہ بنایا تھا، اس نے جب معافی
مانگی، تو آپ نے اس کو بھی معاف کردیا۔ آپ کی انہی خلق ِ کریمانہ اور
رحیمانہ کے آگے دنیا کے تمام انسانیت کے علمبرداروں کی گردنیں جھکی ہیں،
کہ اتنی طاقت و قوت رکھنے کے باوصف آپ نے جس انسانی ہمدردی اور مذہبی
رواداری کا عملی مظاہرہ کیا، پوری تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی؛یہاں تک
کہ عدم تشدد کے علم بردار ہندوستانی عظیم قائد موہن داس کرم چند گاندھی کو
بھی کہنا پڑا:’’ مجھے پہلے سے بھی زیادہ یقین ہوگیا ہے کہ یہ تلوار کی طاقت
نہ تھی، جس نے پوری دنیا پرفتح حاصل کی، بلکہ یہ اسلام کے پیغمبر کی
انتہائی سادہ زندگی، آپ کی بے لوث قربانیاں اور امانت داری اور نڈرپن تھا۔
یہ آپ کا اپنے صحابہ اور عام لوگوں سے محبت کرنا اور خدا پر بھروسا کرنا
تھا۔ یہ تلوار کی طاقت نہیں تھی، بلکہ یہ آپ کی وہ خصوصیات اور گن تھے جن
سے ساری روکاوٹیں دور ہوگئیں اور آپ نے تمام مشکلات اور پریشانیوں پر
کامیابی حاصل کرلی‘‘۔
تاریخ گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ کیا دوست اور کیا دشمن، ہر ایک کے ساتھ
یکساں بہترین حسن ِسلوک کا مظاہرہ کیا اور مذہب وملت اورذات پات سے بہت
اوپر اٹھ کر صرف اور صرف انسانی شرافت و کرامت کو پیش نظر رکھا۔ ڈاکٹر حافظ
محمد ثانی اپنی کتاب’’ رسول اکرم ﷺ اور رواداری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۶۲۷ء میں
رسول اکرمﷺ نے کوہِ سینا کے پاس کے سینت کیتھرائن کے راہبوں اور عیسائیوں
کو مکمل آزادی اور پورے حقوق دیے اور ان کے بارے میں مسلمانوں کویہ حکم
دیا :’’(۱)عیسائی گرجوں، راہبوں کے مکانات اوران کی زیارت گاہوں کو ان کے
دشمنوں سے بچاؤ(۲)ہر طرح کی تکلیف دینے والی چیزوں سے ان کی پوری طرح
حفاظت کرو (۳)ان پر بے جا ٹیکس مت لگاؤ(۴)کسی کو ان کی حدود سے باہرمت
کرو(۵)کسی عیسائی کو مذہب چھوڑنےپر مجبور مت کرو(۶)کسی راہب کو ان کی عبادت
گاہ سے مت نکالو(۷) زائرین کو آنے سے مت روکو(۸) مسلمانوں کے گھر اور
مسجدوں کو بنانے کے لیے گرجے کومت توڑو۔ ‘‘
کیا پوری تاریخ ِانسانی میں کسی بادشاہ اور قائد نے کسی دوسرے مذہب کے
ماننے والوں کے ساتھ اس سے بہتر رواداری کی مثال پیش کی ہوگی؟نہیں ! لیکن
رحمت دوعالم ﷺ کی زندگی میں مذہبی آزادی اور رواداری کایہ کوئی ایک قصہ
نہیں ہے، بلکہ تاریخ کے بے شمار صفحات دوسروں کے ساتھ آپ ﷺ کے حسن ِسلوک
اور رواداری کے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں، چنانچہ مکہ میں اسلام سے قبل جب
وہاں کے باشندے مدینہ منورہ میں صحابی ِرسول حضرت ثمامہؓ کی شکایت لے کر
حاضر ہوئے کہ ثمامہ نے مکہ میں غلہ بھیجنا بند کردیا ہے، جس سے وہاں قحط کا
سماں ہے اور لوگ بھوک سے مررہے ہیں، اور یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے مکہ میں
تین سال تک آپﷺ کا دانہ پانی بند کردیا تھا، مگر قربان جائیے رحمت ِعالم ﷺ
پرجنہوں نے ان ظالم اوراپنے دشمنوں کو بھی اپنی رحمت سے محروم نہیں کیا
اورثمامہ کو کہلا بھیجا کہ مکہ والوں کا دانا پانی نہ روکیں۔ نیز نجران کے
عیسائیوں کی ایک جماعت مسجد نبوی میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی، تبھی ان
کی عبادت کا وقت آن پڑا، تو ان لوگوں نےوہیں مسجد میں اپنی عبادت شروع
کردی۔ کچھ مسلمانوں نے ان کو روکنا چاہا، مگرمحمدﷺنے ان کو منع کردیا کہ ان
کو عبادت کر لینے دو۔ اسی طرح ایک دن ایک یہودی کا جنازہ آپﷺ کے سامنے سے
گذرا تو آپ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے، بلکہ مذہبی برداشت کی اس سے بہتر
کیا مثال ہوسکتی ہے کہ ایک دن ایک دیہاتی مسجد نبوی میں بغرض ملاقات آپ کی
خدمت میں حاضر ہوا۔ کچھ دیر بعد اس کو ضرورت محسوس ہوئی، تووہ وہیں مسجد ہی
میں چالو ہوگیا۔ صحابۂ کرام اس کوروکنے کے لیے دوڑے، مگر آپﷺ نے ان کو
منع کردیا۔ جب وہ دیہاتی ضرورت سے فارغ ہوگیا، تو آپ ﷺ نے اس کو ڈانٹا
ڈپٹا نہیں، بلکہ اس کو یہ کہا کہ مسجد عبادت کی جگہ ہے، پیشاب اور پاخانہ
کے لیے نہیں ہے، پھر حاضرین میں سے کسی کو کہاکہ وہ وہاں پانی بہادیں۔
آج پوری دنیا بالخصوص وطن ِعزیز ہندوستان میں جس مذہبی عدمِ برداشت اور
انتہاپسندی کی فضا قائم ہے، ایسے میں ہر ایک کے لیے محسن ِانسانیت اور رحمت
ِدوعالم ﷺ کی سیرت وحیات کو پڑھنا اور اپنانا نہایت ناگزیرہے۔ آج ہم مذہبی
برداشت اور انسانی حقوق کی بازیابی کے لیےخواہ ہزاروں پروگرام منعقد کرلیں،
خوب نعرے لگالیں، مگر ہمارا یہ خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا،
جب تک ہم تعلیماتِ نبوی کو اپنی زندگی میں داخل نہ کر لیں۔ پروفیسر آرنلڈ
اپنی کتاب’’The preaching of Islam‘‘میں اسی بات کا اعتراف کیا ہے کہ:’’
اگر اسلام نہ آتا تو یہ دنیا شایدایک طویل عرصے تک انسانیت اور تہذیب
وثقافت سے دور رہتی، اوریہ بالکل سچ ہے کہ آج دنیا میں جہاں بھی مساوات،
اخوت وانسانی ہمدردی اور انسانی شرافت و کرامت کی بازیابی کی جو تحریکیں
چلائی جاری ہیں، وہ انہی تعلیمات نبوی کا عکس ہیں۔ اسلام نے آکر بادشاہت
کے نظام کو بدل دیا، معاشرتی نظام میں انقلاب برپا کردیا اور دنیا کے سامنے
ایک ایسا نظامِ زندگی پیش کیاجو صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ قیامت تک آنے
والے سارے انسانوں کے لیے رحمت ثابت ہوا اور یہ وہ خوبیاں تھیں جن کے سامنے
نہ صرف میری، بلکہ ہرانصاف پسندانسان کی گردن جھکی ہے۔
|