پاکستان کی طرح ترکی بھی اسلامی فلاحی اورنظریاتی ریاست
ہے۔اگرترکی کوبھی اسلام کاقلعہ قراردیاجائے توبیجا نہ ہوگا۔ترکی کے
غیرتمندصدرجناب رجب طیب ایردوان نے اپنے مادروطن کو روشنی خیالی کی آڑ میں
تاریک راہوں سے بچایا۔برادراسلامی ملک ترکی سے ہمیشہ پاکستانیوں کوتازہ
اورٹھنڈی ہواآتی ہے،اس کی قدیم ترین یونیورسٹی اور ترکی میں بہت سی
یونیورسٹیوں کی ماں کہلانے والی استنبول یونیورسٹی کے قیام کی تاریخ 1453ء
تک جاپہنچتی ہے ،اس سال سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ یعنی آج کے استنبول
پراپناپرچم لہرایاتھا۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرتے ہی یکم جون
1453ء کو آیاصوفیہ میں پہلی نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ہی علماء، فضلاء،
مدرس اور دانشوروں کو یہ حکم دیا کہ بلاتأخیر ایک اعلیٰ تعلیم کا مدرسہ (یونیورسٹی)
قائم کیا جائے جس میں اُس عہد کے جدیدترین اور بہترین علوم و فنون کی تعلیم
دی جاسکے ۔ سلطان محمد فاتح کی دلی خواہش تھی کہ قسطنطنیہ کوعالم اسلام کا
علمی اور فنی مرکز بنایاجائے جو رشک اندولس اور روم کہلایا جاسکے۔ اُسی حکم
کے عین مطابق مسجد آیاصوفیہ کے کچھ کمروں میں ایک اعلیٰ تعلیم کا مدرسہ
شروع کرایا گیا جس کی تعداد مختصر مدت میں استنبول کے مختلف علاقوں میں آٹھ
مدرسوں تک پہنچ گئی۔ یہ درسگاہ استنبول یونیورسٹی کی ابتدائی شکل تھی جو
اِنہیں آٹھ مدرسوں کی وجہ سے شروع میں ’’صحن ثمان‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔
1470ء میں مختلف علاقوں میں موجود مدارس فاتح کے علاقے میں ایک ہی ’’کلیہ‘‘
(کیمپس) میں مجتمع کئے گئے اور سلطان محمد فاتح کی نسبت سے اِس کلیہ میں
موجود مختلف مدارس (فیکلٹی)’’فاتح مدرسہ لری’’ (مدارس فاتح) کہلانے شروع
ہوئے جن میں تعلیم دینے کیلئے سمرقند و بخارا سے لے کر اندولس تک کے معروف
علماء اور دانشور حضرات کومدعوکیاگیا۔
استنبول یونیورسٹی 1845ء، 1863ء، 1869ء اور 1900ء میں مختلف قانونی مراحل
سے گزرتے ہوئے،1900ء میں اِس کا نام ’’دارلفنون شاہانہ‘‘ہوا اور 1911ء میں
جدید طرز میں یونیورسٹی بن گئی اور اِسے ’’استنبول دارالفنونی‘‘ کا نام دیا
گیا1933ء میں قانونی تبدیلی کے ساتھ یہ نام ’’استنبول یونورسٹی‘‘
ہوگیا۔استنبول یونیورسٹی ترکی ریاست کی پہلی اور معروف ترین یونیورسٹی ہے
اور ترکی کی بہت سی یونیورسٹیاں استنبول یونیورسٹی کے پروفیسروں کی جانب سے
قائم کی گئی ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ کسی حد تک جاری ہے لہٰذا استنبول
یوینورسٹی کو ’’ ترکی میں یونیورسٹیوں کی ماں‘‘ کہنا کوئی مبالغہ نہیں
ہوگا۔آج استنبول یونیورسٹی میڈکل فیکلٹی (طب فیکلٹی) سے لے کر ادبیات
فیکلٹی تک اعلیٰ تعلیم کے ہر شعبے میں بی اے، بی ایس سے لے کر ایم اے اور
پی ایچ ڈی تک مغربی انداز میں معیاری تعلیم فراہم کرتی ہے اور ہر سال دنیا
کی ایک ہزار بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر
استنبول یونیورسٹی کے پانچ ہزار اساتذہ اور پچپن ہزار (55,000) طلبہ و
طالبات موجود ہیں۔ اپنے طلبہ وطالبات کیلئے یونیورسٹی کے ہاسٹلز اور
ضرورتمند طا لب علموں کیلئے وظیفہ (سکالرشپ) کے امکانات بھی موجود ہیں۔
استنبول یونیورسٹی ترکی اور پاکستان کے تعلقات کے سلسلہ میں بھی نہایت اہم
اورکلیدی کردار ادا کرنے کی خواہاں ہے اور اِس سلسلہ میں شعبہ اردو بڑی
اہمیت کا حامل ہے۔ استنبول یونیورسٹی میں اردو زبان کی تعلیم کا آغاز 1915ء
میں آزادی کے عظیم مجاہد عبدالجبار خیری کے ہاتھوں شروع ہوا تھاجو ترکی
خفیہ ایجنسی ’’تشکیلات مخصوصہ‘‘ کے اہم رکن بھی تھے۔ وہ پہلی جنگ عظیم کے
اختتام تک استنبول دارالفنون میں اردو پڑھاتے رہے مگر استنبول پر اتحادی
فوجوں کے قبضے پر استنبول سے جرمنی فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ ایک طویل وقفہ
کے بعد استنبول یونیورسٹی، ادبیات فیکلٹی میں اردو کی تعلیم اُس وقت شروع
ہوئی جب انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان سے
انقرہ یونیورسٹی میں تعیناتی پاکستانی اساتذہ، انقرہ میں اپنی ذمہ داریاں
پوری کرتے ہوئے استنبول یونیورسٹی میں بھی آتے رہے اور اردو کی تعلیم دیتے
رہے۔ اِن اساتذہ میں داؤد رہبر، یعقوب مغل اور حنیف فوق کے نام سرفہرست ہیں۔
پھر 1985ء میں معروف پاکستانی پروفیسر غلام حسین ذوالفقار استنبول تشریف لے
گئے اور وہ استنبول یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی نشاۃ الثانیہ کے موجب بنے۔
1990ء میں اُن کی پاکستان واپسی کے بعد سے شعبہ اردو کی ذمہ داریاں پروفیسر
ڈاکٹر خلیل طوقار نے سنبھالی ہوئی ہیں اور 1994ء میں شعبہ اردو قانونی
مراحل طے کرکے باقاعدہ قائم ہوا۔پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے پاکستان کے
تاریخی شہرلاہورمیں کئی برس قیام کے دوران برادراسلامی ملک ترکی کاتاریخی
ورثہ اورکلچر متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ دونوں برادراسلامی ملکوں کے عوام
میں برادرانہ اوردوستانہ تعلقات کوفروغ دیا،پاکستان میں اردوادب ،سیاست
اورصحافت سمیت مختلف طبقات سے وابستہ بااثر شخصیات کی ایک بڑی تعداد
پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کی گرویدہ ہے۔پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقارنے ترک
عوام اورپاکستانیوں کے درمیان ایک پل کاکرداراداکیا،یقینا وہ اب بھی ن
کادوسراگھر پاکستان ہے،یوں بھی سحرانگیز شخصیت کے حامل پروفیسر ڈاکٹر خلیل
طوقار کی باحیاء، باوفا اورباصفا اہلیہ دخترپاکستان ہیں، پروفیسر ڈاکٹر
خلیل طوقار اوران کی اہلیہ کا اپنے خوبصورت صاحبزادے کیلئے ''نام محمد''ایک
نایاب تحفہ ہے ،اسم محمدکی بہت فضیلتیں اوربرکتیں ہیں، پروفیسر ڈاکٹر خلیل
طوقارکافرزندمحمد ماشاء اﷲ بہت ہونہار ہے۔پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقارجو پچاس
سے زائد کتب کے مصنف اور مترجم ہیں، جن میں سے تیس اردو میں ہیں کو حکومت
پاکستان کی جانب سے2017ء میں اردو زبان و ادب کی خدمات کی بناء پر ’’ستارۂ
امتیاز‘‘ سے نوازاگیا۔ استنبول یونیورسٹی، شعبہ اردو کاایک اور بڑا نام
پروفیسر ڈاکٹر جلال صوئیدان کا ہے جو ترکی میں اردو کی ترویج کیلئے پروفیسر
ڈاکٹر خلیل طوقار کے ساتھ شانہ بہ شانہ سرگرمِ عمل ہیں۔ اُن کے بالخصوص
حضرت اقبالؒ سے تراجم قابل تحسین ہیں۔ ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ذکائی
قرداش بھی شعبہ اردو کے جواں سال اساتذہ میں سے ہیں جن کی الہلال اور تحریک
ہجرت پر تحقیقات اہمیت کی حامل ہیں۔یوں احمد ایریوکسیل، ڈاکٹر آرزو چفت
سورین، خدیجہ گورگون، اونور قلیچ ایر اورمحسن آش سیور بھی استنبول
یونیورسٹی شعبہ اردو کے مستقبل کے ضامن ہیں۔
یہاں استنبول یونیورسٹی اور شعبہ اردو کے موجودہ روشن مرحلے تک پہنچانے میں
یونیورسٹی کے چانسلر (ریکٹور) پروفیسر ڈاکٹر محمود آق کا نام صد قابل داد و
تحسین ہیں۔ وہ شعبہ تاریخ کے پروفیسر ہیں اور اُن کو پاکستان اور ترکی کے
سودوزیاں سے بے نیاز برادرانہ تعلقات کے ساتھ ساتھ اردو زبان سے گہری
دلچسپی اوربے پایاں محبت ہے۔ اُن کی خاص حوصلہ افزائی کی بدولت اب استنبول
یونیورسٹی، شعبہ اردو ترکی کا مضبوط اور فعال شعبہ ہے جس کے دس اساتذہ اور
دو سو (200) سے زائد بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کے طلبہ و طالبات شوق سے
اردو کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔واضح رہے کہ2015ء میں استنبول یونیورسٹی،
شعبہ اردو نے اپنے قیام کی ایک صدی پوری ہونے پر جشن اردو منایا جس میں چار
روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرائی گئی، جس میں دنیا کے مختلف ملکوں سے
ایک سو سے زائد معروف و مشہور دانشور، صحافی، شاعر اور ادیب شریک ہوئے اور
اِسی اہم موقع پر حکومت پاکستان نے ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیاتھا۔ضرورت
اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی ہرسطح پرعربی ،ترکی اورچینی زبان کی تعلیم
کااہتمام کیاجائے۔جس روزمسلم ملکوں نے ایک دوسرے کی زبان سمجھنا،
بولنااورلکھناشروع کردی اس روز ہمارے درمیان کئی تلخیاں ،غلط فہمیاں
اوردوریاں ختم ہوجائیں گی۔سی پیک کی تعمیروتکمیل اوراس کے ثمرات کیلئے چینی
زبان کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ اے کاش پاکستان سمیت ہراسلامی ریاست کے پاس بھی
ایک ایک پروفیسرڈاکٹرخلیل طوقار ہوتے ۔ترک قوم خوش نصیب ہے ، رجب طیب
ایردوان جیسی قیادت اوراحسان مصطفی ،پروفیسر ڈاکٹرخلیل طوقارجیسی نابغہ
روزگارشخصیات ان کیلئے قدرت کابیش قیمت تحفہ ہے۔ |