وہ نومبر کی شام تھی ۔کچھ عجیب سی ہر طرف اداسی پھیلی
ہوئی تھی جیسے کچھ ہونے والا ہواچانک ایک خبر آئی اصغر کا انتقال ہوگیا
ہے۔یوں محسوس ہو رہا تھا دنیا رک سی گئی ہوساری دنیا سمٹ کے چھوٹی سی ہوگئ
ہر طرف اندھیرا سا چاھ گیا تھا۔امی تو بالکل ٹوٹ کے رھ گئ تھی کوئی بات چیت
ہی نہیں کرتی تھی کیونکہ اصغر ہم تین بہنوں کا اقلوتہ بھائی تھا ۔اس شام
شبانہ دُوری دُوری میرے پاس آئی۔۔۔کیا بات ہے فوزیہ تم بالکل خاموش ہوگئ
ہو۔پھر شبانہ کو میں نے ساری صورت حال سے آگاھ کیا اُس کا دل میرے دل سے
زیادہ غم زدہ ہوگیا۔۔۔کیونکہ شبانہ اصغر کو بچپن سے پسند کرتی تھی بس اصغر
کی تعلیم مکمل ہونے کے فوراً باد ہی ہم شبانہ کے گھر جاتےتاکہ شبانہ ہماری
دوست کے ساتھ ساتھ ہماری بھابھی بھی بن جائے۔اصغر کے انتقال کو چھ ماہ گزر
گئیں تھے شبانہ نے ہمارے گھر آنا جانا ہی چھوڑ دیا تھا۔کچھ تردد کر کے میں
خود ہی شبانہ کے گھر چلی گئ اس کے گھر جانے کے بعد معلوم ہوا شبانہ نے صرف
ہمارے گھرطہی نہیں بالکے وہ اب کسی کے گھر بھی نہیں جاتی اور وہ اپنا سارا
وقت گھر میں ہی گزارتی ہے۔اس واقع کے قبل وہ اسکول میں ٹیچنگ کرتی تھی اس
نے وہ بھی چھوڑ دی ۔میں اصغر کی بہن ہوتے ہوئے اسے یہ سب باتیں سمجھانے میں
مجبور ہوگئی تھی کے شبانہ اسطرح گھر بیتھ جانا تھیک نہیں ہے بھلا مڑنے والے
کے ساتھ انسان مڑ تھوڑی جاتا ہے مگر شبانہ دل ہی دل اسے اپنا شوہر تسلیم کر
لی تھی اس کی زندگی میں سب کچھ بدل گیا تھا نا وہ پہلے کی طرح مسکراتی تھی
اور نا رنگ برنگی کپڑے زیب تن کرتی تھی ۔بلکے ہر وقت سیاہ سفید کپڑوں کا
انتخاب کرتی جس طرح ایک بیوہ کرتی ہےکےجیسے شوہر کے مڑ جانے کے بعد اس کا
رنگوں سے کوئی واستہ نا ہو۔۔۔کچھ یہی حال شبانہ کا ہوگیا تھا ۔ایک روز میں
شام کے وقت اس کے گھر گئ وہ ایک نظم پڑھ رہی تھی۔۔۔
ایک شام تیرے نام
صبح ہئ میری ماہ تمام
بس اہک شام تیرے نام
|