تحریر : نداء نور
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
نبی ﷺ کی ذات سرتاپا رحمت ہی رحمت ہے,آپﷺ کی سیرت حصولِ رحمت کا مکمل و
سرمدی نمونہ ہے. آپ ﷺ کی ذاتِ بابرکات رحمت کا کامل وسیلہ ہے.
رحمت کا مطلب جودوسخا بھی ہے, انعام و احسان بھی, شفقت و رأفت بھی ہے اور
کرم و عطا بھی..شافعِ محشر, خاتم الرسل ,احمدِ مجتبیٰ, جنابِ محمد ﷺ اِن
تمام معنوں میں انسان و حیوان اور تمام مخلوقات کے لیے اللہ کی رحمت بن کر
آئے. یہ لقب نہ آپﷺ کا خود اختیار کر دہ ہے اور نہ کسی انسان کا دیا ہوا ہے.
بلکہ کائنات کے رب نے اپنے نبی کو "رحمۃ للعلمین" کی سند عطا فرمائی.
ارشاد فرمایا :
وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین (الانبیاء :107)
بعثتِ نبوی ﷺ سے قبل یمن و شام, مصر و حبش, فارس و ہند سے لیکر اس وقت کی
معلوم دنیا پر جہالت, جبر و قہر, زیرِ دست آزاری تھی. ان ظلمتوں کی ستائی
مخلوقِ خدا آفتابِ ہدایت کی محتاج اور صبحِ نور کی منتظر تھی. اتنا خوف
درندوں, سانپوں اور بچھوؤں سے نہ تھا جتنا ظلم و ستم بالا دست قوتوں نے
پھیلایا ہوا تھا. روگ صرف جسموں کو ہی نہ لگے تھے, روحیں افسردہ اور قلب
حزیں تھے. ان حالات میں رحمتِ الٰہی جوش میں آئی. روحوں نے گویا (لا تقنطوا
من رحمۃاللہ) کی صدا سنی اور (وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین) یعنی محمد بن
عبد اللہ ﷺ کی صورت میں رحمتِ الٰہی سارے جہانوں پر چھا گئی....
رؤف اور رحیم اللہ کی دو ایسی صفات ہیں, جنکا مطلب حد درجہ شفیق اور مہربان
ہے. اللہ کے محبوب نبی ﷺ بھی ان دو صفات سے متصف تھے.
فرمایا :
لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف
رحیم (التوبۃ :182)
سیرتِ طیبہ کا یہ عظیم پہلو اور صفت ہے. اگر ہر سیاسی قائد, ہر سربراہِ
ریاست و حکومت, ہر مذہبی جماعت اور سیاسی پارٹی کا رہنما, فوج کا جرنیل,
ادارے کا سربراہ, ہر بااختیار اور صاحبِ اقتدار میں اس صفت کی کوئی جھلک
نظر آنے لگے اور وہ اپنے ماتحتوں اور اپنی رعایا کے ساتھ نرمی برتنے لگے,
سخت گیری کی بجائے مہربانی کا سلوک کرے,ان کی کوتاہیوں کو معاف کرنے کا
شیوا بنائے اور ان کے قصوروں پر درگزر کرنے کی عادت اپنے اندر پیدا کر لے
تو اجتماعی زندگی کے ان سارے دائروں کا نقشہ بدل جائے. فرائض کی تکمیل کسی
کو باجھ نہ لگے, ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں لذت محسوس ہونے لگے اور معاشرے
کا دامن خیروبرکت سے بھر جائے.
محسنِ انسانیت ﷺ کو یہ تمام حیثیتیں حاصل تھیں.آپ
ﷺ مصلح تھے, ریاست کے حاکم تھے, اور فوج کے کمانڈر تھے,آپﷺ عدالت کے جج بھی
تھے. ہر حیثیت میں آپﷺ شفقت و رأفت, محبت کا پیکر اور اپنے پیروکاروں کی
بھلائی اور فلاح کے خواہاں تھے. ان کی تکلیف, نقصان, اور ان کی پریشانی اور
مشقت دیکھ کر آپ ﷺ سخت بے چین ہو جاتے.مومن تو مومن, آپ ﷺ کا دل تو اسلام
کے بد ترین مخالفوں, منکرینِ حق, اور مشرک و کافر کے لیے بھی خیر خواہی کے
جذبے سے سرشار تھا. مکہ کے مشرکوں نے کونسا ظلم تھا جو نبی ﷺ اور صحابہ
کرام پہ روا نہ رکھا ہو. لیکن جب آپ ﷺ سے کہا گیا کہ, یا رسول اللہ, ان
مشرکین کے لیے بددعا کریں تو فرمایا:
" مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا. مجھے صورتِ رَحمت مبعوث کیا
گیا ہے. "
نبی رحمت ﷺ کے اخلاق کے بارے میں آپکی محبوب زوجہ حضرت عائشہ(ر.ض) سے پوچھا
گیا, تو انہوں نے کہا :
کان خلقہ القرآن
"گویا آپ کا اخلاق قرآن میں ڈھلا ہوا ہے "(مسلم و داود)
صاحبِ خلقِ عظیم ﷺ پر اس احسان کا ذکر کتاب اللہ میں آیا کہ :
فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ولو کنت فظاً غلیظ القلب لا انفضوا من حولک....
(آلِ عمران :159)
امام الانبیاء, خاتمُ الرسلﷺ فطرتاً نرم خو, رحم دل اور مہربان تھے. یہی
خوبیاں دعوتِ جق, گروہ صحابہ کی تنظیم میں انہیں مشکل سے مشکل مقامات پر
سمع و اطاعت کی روح سے سرشار رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہوئیں.
ایک قائد خواہ کیسے ہی بلند مقاصد لیکر میدانِ عمل میں اترا ہو, وہ اگر
اپنے رفیقوں اور ساتھیوں سے درشتی اور سخت مزاجی سے پیش آئے تو نصب العین
کے ارفع و اعلٰی ہونے سے آگاہی کے باوجود وہ ذیادہ دور تک اس کے ساتھ نہیں
چل سکتے.
یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب برپا کرنے اور حق کو باطل کی جگہ قائم کرنے
اور فاسد نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کر نیچے سے اوپر تک اجتماعی زندگی میں
اصلاح و تعمیر کا چمن کھلانے کی نیت سے اٹھنے والا گروہ کامیابی سے ہمکنار
نہیں ہو سکتا, جب تک وہ اخلاقی فضائل میں ماحول پر اپنا سکہ نہ جما لے.
کامیابی کی نوعیت یہ بھی نہیں ہوتی کہ اِدھر بیج بویا اور اُدھر پھل لگ
گیا. بیج کبھی کبھار مدتوں زمین میں روئیدگی کے انتظار میں پڑا رہتا ہے اور
کئی نسلوں بعد اگتا ہے. لیکن اسکی اعلٰی ذات کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ یہ مر
نہیں جاتا. انسانی جدوجہد کے بیج کو اعلٰی ذات کا جوہر بخشنے والی چیز
"اعلٰی اخلاق" ہے.
محسنِ انسانیت ﷺ زندگی کے چند شعبوں اور کچھ معاملات میں ہی نمونہ نہیں
بلکہ مطلقاً ایسا نمونہ ہیں کہ ایمان رکھنے والا ہر آدمی زندگی گزارتے ہوئے
ہر ہر قدم پر نگاہ اٹھا کر دیکھے کہ میرے آقا ﷺ نے میرے لیے کیا مثال قائم
کی.
ارشادِ باری تعالی ہے:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ (الاحزاب : 21)
23 برس تک نبی ﷺ اور صحابہ نے جتنی محنتیں کیں اس کی نظیر پیش کرنا مشکل
ہے. جو محنتیں و مشقتیں نبی, صحابہ, فقہا, محدثین نے برداشت کیں وہ اس لیے
نہ تھیں کہ ہم صرف 12 دن محبت کا اظہار کریں, بلکہ وہ تو اس لیے تھیں کہ ہم
اپنی اصلاح کریں, سیرت کے پیغام کو عام کریں, اور اخلاقی اقدار سے معاشرے
کو مزین کریں.
رب اللعالمین سے دعا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں ہمیں سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کو
اپنانے اور اس پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے... آمممییین
وما توفیقی الا باللہ
|