ان کی آمد سے انسانیت کومعراج حاصل ہوگئی

ان کی آمد سے انسانیت کومعراج حاصل ہوگئی
آمدرسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے انسانی دنیاظلم وضلالت کے بھیانک بوجھ تلے دبی ہوئی تھی،کفروشرک،ظلم وستم،گھٹیارسم ورواج ،غیراخلاقی سماجی بندھن اورگمراہی کے گھٹاٹوپ اندھیرے ہرطرف چھائے ہوئے تھے،شیطانی طاقتوں نے لوگوں کاجینادوبھرکردیاتھا،مجبوروبے بس انسانوں کوظالموں نے اپنے ظالمانہ پنجوں میں جکڑرکھاتھا،دولت ومال حاصل کرنے کی لالچ نے اچھے برے کافرق مٹاکرانسانیت کوغلامی کی زنجیریں پہنادی تھی،عورت کوہوس کی تسکین کاصرف ایک سامان تصورکیاجاتاتھا،خانۂ کعبہ میں خدائے وحدہٗ لاشریک جل جلالہٗ کی عبادت کے بجائے تین سوساٹھ بتوں کی پوجاہورہی تھی،لڑکیوں کوزندہ درگورکردیاجاتاتھا،اہل عرب وقریش سخت قحط سالی میں مبتلاتھے،غربت وخشک سالی نے مکہ والوں کابراحال بنادیاتھا،جانوروں کاتھن سوکھ چکاتھا،غرضیکہ ہرطرف خوف وہراس اورفکروغم چھایاہواتھا،زندگی گزارنامشکل سے مشکل ترہوگیاتھا،ہرطرح کی برائیوں اورمشکلات سے اہل عرب دوچارتھے۔
ایسے ہولناک وَدردناک حالات میں حضورنبی اکرم،نورمجسم،رحمت عالم،شافع امم،مصطفی جان رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارہ ربیع الاول شریف مطابق۲۰؍اپریل ۵۷۱؁ء پیرکے دن صبح صادق کے وقت ولادت باسعادت ہوئی ،آپ کی ولادت ہوتے ہی آپ کے نورکی چمک سے پوری دنیاروشن ومنورہوگئی،تمام شیاطین زنجیروں میں جکڑدیے گئے،دنیاکے سارے بت سجدے میں گرپڑے،قیصروکسریٰ میں زلزلہ برپاہوگیااورآپ کی آمد کی برکت سے ظلم وقحط سالی ختم ہوگئی،ویران زمینوں پربہارآگئی،ہرطرف سبزہ لہلہانے لگا،اناج سے کھیت وکھلیان بھرگئے ،ہرطرف ہریالی چھاگئی۔
حضرت عکرمہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے:جب حضورنبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی توپوری زمین روشن ومنورہوگئی،ابلیس نے انہیں بتایاکہ ایک اسیابچہ پیداہواہے جوشیطانی کاروبارکوتباہ وبربادکردے گاشیاطین نے مشورہ دیاکہ تم ابھی آنے والے خطرات کے دروازے بندکردو،ابلیس نے کہاکہ میں ابھی جاتاہوں،جب وہ شرارت کی نیت سے حضورنبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف بڑھاتوحضرت جبرئیل امین نے اسے ایک زوردارٹھوکرلگائی وہ عدن میں جاکرگرا۔(الخصائص الکبریٰ ج:۱،ص۵۱)اورابونعیم نے حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہماسے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کابطن ِآمنہ میں جلوگرہونے کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ اس رات قریش کے تمام جانوروں کوقوت گویائی مل گئی اوروہ کہنے لگے کہ رب کعبہ کی قسم اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اقدس میں جلوہ گرہوگئے وہ دنیاکے لئے امان اورکائنات کے لئے سراج منیرہیں.....اوردنیاداربادشاہوں کے تخت میں کوئی بھی ایسانہ بچاجواوندھانہ ہوگیاہو۔(الخصائص الکبریٰ ج:۱،ص:۴۷)
اسی میں آگے ہے:اوربادشاہ گونگے ہوگئے اس دن بات نہ کرسکے اورمشرق کے جانورمغرب کے جانوروں کوبشارت دینے کے لئے دوڑے اسی طرح سمندرکی مخلوق نے بھی ایک دوسرے کوخوشخبری سنائی،زمین وآسمان میں ندادی گئی ،خوش ہوجاؤ کہ ابوالقاسم محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری کاوقت قریب آگیاہے۔(الخصائص الکبریٰ ج:۱،ص:۴۷)اسی میں ہے :میں نے سناکوئی کہہ رہاتھا،محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کومشرق ومغرب اورانبیاء کرام کی جائے ولادت پرگھماؤ اورجن وانس،پرندوں اوردرندوں سے اورہرقسم کی روحانی مخلوق سے ان کاتعارف کراؤ اورانہیں حضرت آدم علیہ السلام کی صفات،اورحضرت نوح علیہ السلام کی رقت،اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی خلت اورحضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی زبان اورحضرت یعقوب علیہ السلام کی بشارت اورحضرت یوسف علیہ السلام کاحسن اورحضرت داؤد علیہ السلام کی آوازاورحضرت ایوب علیہ السلام کاصبراورحضرت یحیٰی علیہ السلام کازہداورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سخاوت عطافرماؤ اورانبیاء کرام کے اخلاق سے انہیں معمورکردو۔
ابونعیم نے عمروبن قتیبہ سے روایت کی ہے۔انہوں نے کہا:کہ میرے والدایک متبحرعالم تھے ان سے میں نے سناکہ جب حضرت آمنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے یہاں ولادت کاوقت قریب آیا،تواﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کوحکم دیا:تمام آسمانوں اورجنتوں کے دروازے کھول دواوراﷲ تعالیٰ نے وہاں فرشتوں حاضرہونے کاحکم دیا،وہ اترے اورایک دوسرے کوبشارت دینے لگے،دنیاکے پہاڑفخرسے بلندہوگئے،اورسمندروں میں طغیانی آگئی اورایک دوسرے کوبشارت دینے لگے۔اورتمام فرشتے وہاں حاضرہوگئے۔اورسرکش شیاطین کوزنجیروں میں جکڑدیاگیا۔اوراس دن سورج کوعظیم نورپہنایاگیا۔اوراﷲ تعالیٰ نے دنیاکے تمام عورتوں کوحکم دیاکہ وہ اس سال لڑکے ہی جنیں۔جب حضورنبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پیداہوئے توپوری دنیاروشن ومنورہوگئی اورفرشتے ایک دوسر کوبشارت دینے لگے۔ (الخصائص الکبریٰ ج:۱،ص:۴۸)
حضورسرورکائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمدکی برکت سے وہ سال جس میں عرب قحط سالی میں مبتلاتھاوہی سال خوشحالی کاسال کہلایا۔چنانچہ امام حلبی نے یہ روایت نقل کی ہے:کہ جس سال نورمحمدی سیدہ آمنہ کوودیعت ہواوہ فتح ونصرت،تروتازگی اورخوشحالی کاسال کہلایا،اہل قریش اس سے پہلے معاشی بدحالی اورسخت قحط سالی میں مبتلاتھے ،آپ کی ولادت مبارکہ کی برکت سے اس سال اﷲ تعالیٰ نے چٹیل اوربنجرزمین کوشادابی اورہریالی عطافرمائی اورسوکھے درختوں کی ٹہنیوں کوہرابھراکرکے انہیں پھلوں سے لاددیا،اہل قریش اس طرح ہرطرف سے بھلائیاں آنے سے خوشحال ہوگئے۔(السیرۃ الحلبیہ،ج۱،ص ۴۸)
اوپربیان کی گئی دلیلوں سے ثابت ہوگیاکہ حضورمصطفی جان رحمت ،شمع بزم ہدایت،رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مسلمانوں کے لئے اﷲ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت ورحمت وفضل ہے اوراﷲ تعالیٰ نے اپنی ہرنعمت کاچرچاکرنے اوراس پرخوشیاں منانے کاحکم دیاہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتاہے:وامابنعمۃ ربک فحدث-اوراپنے رب کی نعمت کاخوب چرچاکرو(الضحیٰ آیت۱۱)
ایک اورجگہ ارشادفرماتاہے:قل بفضل اﷲ وبرحمتہ فبذالک فلیفرحوا-تم فرماؤ اﷲ ہی کے فضل اوراسی کی رحمت اوراسی پرچاہئے کہ خوشی کریں۔(سورۂ یونس،آیت ۵۸)اس آیت کریمہ میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے رحمت پرخوشی منانے کاحکم دیااورحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اﷲ کی رحمت ہیں جیساکہ خوداﷲ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:وماارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین-اورہم نے تمہیں سارے جہان کے لئے رحمت بناکربھیجا(الانبیاء،آیت ۱۰۷)۔ہرصحیح العقیدہ مسلمان کاایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ کاسب سے بڑافضل اوراس کی سب سے بڑی نعمت ورحمت حضوراقدس صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں اورآپ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کی ایسی نعمت ورحمت ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پربے شمارنعمتوں کانزول فرمایامگرکسی کے نزول پراحسان نہیں جتلایااگرایساکیاہے تووہ حضوراقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت ووِلادت ہے جس پراﷲ تعالیٰ نے احسان جتلایاہیے۔چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے:لقدمن اﷲ علی المؤمنین اذبعث فیہم رسولاًمن انفسہم-بیشک اﷲ تعالیٰ کابڑااحسان ہوامسلمانوں پرکہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔اس آیت کریمہ نے یہ ثابت کردیاکہ حضورسراپانورکی ولادت انسان کے لئے عظیم نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی ولادت خودخالق کائنات اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی بہت ہی عظیم ہے جبھی تواس پراحسان جتلایا،اس لئے میلادالنبی کے موقع پرخوشیوں کااظہارکرنایقیناجائزومستحسن ہے۔قرآن وحدیث،آثارصحابہ،بزرگوں کے عمل اورارشادات ائمہ،علماء ومحدثین سے یہ بات بخوبی ثابت ہے۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں بڑے جوش وخروش اورنہایت تزک واحتشام کے ساتھ عیدمیلادالنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کااہتمام کیاجاتاہے ،کہیں جلسے توکہیں جلوس،کہیں چراغاں توکہیں جھنڈیوں سے گلی کوچوں کوسجاکراپنی اپنی خوشی وشادمانی کااظہارکیاجاتاہے،سوائے مٹھی بھرلوگوں کے جنہیں عظمت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کابیان بالکل نہیں بھاتاہے ایسے لوگوں کے سامنے معاذاﷲ کوئی اﷲ ورسول کی توہین کرے توانہیں خوشی ہوتی ہے ایسے بدنصیب لوگوں سے اﷲ تعالیٰ بچائے،دنیاکے ہرمذہب وفرقہ والے اپنے پیشواؤں اورسرداروں کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے،کوئی کرسمس ڈے منارہاہے توکوئی گاندھی جینتی،کوئی امبیڈکرجینتی منارہاہے توکوئی مہاویرجینتی اورکوئی گرونانک جینتی،الغرض سب لوگ اپنے اپنے سرداروں کایوم پیدائیش مناکران کی عظمت کودنیاوالوں کے سامنے ظاہرکرناچاہتے ہیں مگربنام مسلم یہ مٹھی بھرلوگ ایسے گندے اوربدنصیب ہیں کہ انہیں ہروقت یہ فکرلگی رہتی ہے وہ کس طرح سے اﷲ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرسکے اورنبی رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اندرکس طرح کمیاں ڈھونڈسکیں،اگرکسی نے بھی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعریف وتوصیف بیان کی توجھٹ سے اس پرشرک وکفرکافتویٰ لگادیا،اﷲ تعالیٰ ایسے گندے لوگوں سے ہمیں بچائے جواپنے نبی کی شان کوگھٹانے میں لگے ہوئے ہیں معاذاﷲ رب العٰلمین۔
ْقرآنی آیات کے بعدذیل میں چنداحادیث کریمہ اورکچھ ائمہ ومحدثین کے اقوال ذکرکررہے ہیں جن سے عیدمیلادالنبی صلی اﷲ علیہ وسلم منانے کابھرپورثبوت مل جائے گا۔
''میلادالنبی صلی اﷲ علیہ وسلم حدیث پاک کی روشنی میں''
(۱)عن ابی قتادۃ ان رسول اﷲ ﷺ سئل عن صوم الاثنین فقال فیہ ولدت وفیہ انزل علیّ(مسلم شریف،ج ۱،ص۳۶۸)''حضرت قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ سے پیرکے دن کاروزہ کے بارے میں پوچھاگیا(کہ آپ اس دن کاروزہ کس لئے رکھتے ہیں)آپ نے فرمایا(میں اس دن کاروزہ اس لئے رکھتاہوں)کہ یہ میرایوم میلادہے اوراسی دن مجھ پرنزول وحی کاآغازہوا''۔
(۲)اسی مسلم شریف میں حضرت ابوقتادہ کی روایت اس طرح ہے کہ رسول اﷲ ﷺ سے پیرکے دن کاروزہ کے بارے میں پوچھاگیا(کہ آپ اس دن کاروزہ کس لئے رکھتے ہیں)آپ نے فرمایا(میں اس دن کاروزہ اس لئے رکھتاہوں)کہ میں اسی دن پیداہوا،اسی دن مجھے مبعوث کیاگیا،اسی دن مجھ پرقرآن شریف نازل ہوا۔ّ(مسلم شریف،ج ۱،ص۳۶۸)
مذکورہ دونوں حدیثوں سے ثابت ہواکہ ہمارے آقاﷺ خود بھی اپنے یوم میلادکادوسرے دنوں کی بہ نسبت زیادہ اہتمام فرماتے تھے اوراظہارتشکروسرورکے لئے روزہ رکھتے تھے لہٰذایہ دن دوسرے دنوں کے بہ نسبت زیادہ عبادت کامستحق ہے چونکہ آ پ ﷺکی ولادت باسعادت کے موقع پرمحفل میلادکااہتمام کرناباعث خیرو برکت ونجات ہے اس لئے دوسری عبادت کے ساتھ ساتھ آپ کے ذکرکی محافل کاانعقادکثرت سے کیاجاتاہے۔اوراس نعمت عظمیٰ کے حصول پراظہارتشکرکیاجاتاہے اورخوشی منائی جاتی ہے۔لہٰذااس دن کوبطورعیدمنانا،اس کازیادہ اہتمام اوراظہارتشکروسرورقرآن وحدیث سے ثابت ہوا۔انفرادی طورپرمیلادشریف مناناتوعہدرسول کریم ﷺ اورعہدصحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم میں ثابت ہے جس پرمذکورہ حدیث کے علاوہ اوربھی دلائل ہیں۔میلادشریف کی تقریبات کوہیٔت اجتماعی میں منانایہ اگرچہ عہدصحابہ ؓکے بعدمیں شروع ہوالیکن پھربھی حضورسرورکائنات ﷺ کے فرمان کے مطابق ایک اچھی سنت اورکارثواب ہے۔اس تعلق سے حدیث پاک ملاحظہ ہو۔حضرت جریررضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺنے ارشادفرمایا:من سن فی الاسلام سنۃ فلہ حسنۃ اجرھاواجرمن عمل بھامن بعدہ(مسلم شریفـ:بحوالہ مشکوٰۃ،ص۳۳)کہ جس شخص نے اسلام میں کوئی نیا،اچھاطریقہ شروع کیااس کے لئے اس اچھائی کاثواب ہے اورجواس اچھے طریقے پراس کے بعدچلیں گے ان کاثواب بھی'' ۔
حدیث شریف سے پتہ چلتاہے کہ دین میں کوئی ایسانیاطریقہ اپناناجواسلامی اصولو ں کے خلاف نہ ہواگرچہ وہ نیاتوہے ہی 'وہ نیاکام صرف جائزنہیں ہوگابلکہ سرورکائنات ﷺ کے فرمان گرامی کے مطابق اس پرثواب بھی ہوگا۔لہٰذامحافل میلادشریف کاانعقادکرکے تمام مسلمانو ں کواجتماعی طورپراس کارخیرمیں جمع کیاجاتاہے اورسیدعالم ﷺ کے میلاداورآپ کے فضائل کاذکرکرکے ان مسلمانوں کے دلو ں کوجان بخشی جاتی ہے جوسیدعالم ﷺ کے میلاداورآپ کے اصحاب ؓ کازمانہ نہ پاسکے ،لہٰذمیلادالنبیﷺ کی خوشیاں ہمیں اس مقدس عہدکے قریب کرنے کاایک وسیلہ ہے جسے ہم اپنے زمانہ کے لحاظ سے پانہ سکے۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ میلادالنبی ﷺکی خوشی پربخاری ومسلم شریف کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:بخاری ومسلم میں ہے کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ شریف تشریف لائے توآپ نے یہودیوں کوعاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا،آپ نے ان سے پوچھاکہ ایساکیوں کرتے ہوتوانہوں نے کہاکہ اس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کوغرق کردیاتھااورحضرت موسیٰ علیہ السلام کونجا ت دی تھی ہم اﷲ تعالیٰ کاشکراداکرنے کے لئے روزہ رکھتے ہیں۔اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ جس متعین دن میں اﷲ تعالیٰ نے کوئی نعمت عطاکی ہے یاکوئی بلاٹالی ہے تووہ خاص دن جب بھی آئے اس نعمت کاشکراداکرناچاہئے اورشکرنماز،روزہ،صدقہ،تلاوت قرآن کریم اوردوسری عبادتوں سے اداہوتاہے اورحضورنبی رحمت کی ولادت اورآپ کے ظہورسے بڑھ کرکونسی نعمت ہے؟اس لئے جب ولادت کادن آئے تواس میں انواع واقسام کی عبادتوں سے اﷲ کاشکراداکرناچاہئے۔(بحوالہ شرح مسلم،ج۳،ص۱۷۶)
ٰٰیہی امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ میلادالنبی کے موقع پربیہقی شریف کی ایک حدیث پاک سے خوشی منانے پردلیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:مجھ پراورایک دلیل ظاہرہوئی وہ یہ ہے کہ سنن بیہقی میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اعلان نبوت کے بعدنبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خوداپناعقیقہ کیاحالانکہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ کے داداحضرت عبدالمطلب نے آپ کی ولادت کے ساتویں دن آپ کاعقیقہ کردیاتھااورعقیقہ دوبارنہیں کیاجاتاتومعلوم ہواکہ آپ نے یہ عقیقہ اپنی پیدائش اوراﷲ تعالیٰ کاآپ کوسارے جہان کے لئے رحمۃ للعالمین بناکربھیجنے پراﷲ تعالیٰ کاشکراداکرنے کے لئے کیاتھالہٰذاہمارے لئے یہ مستحب ہے کہ ہم آپ کی ولادت کے دن میں محفلیں منعقدکریں،کھاناکھلائیں،دیگرتقریبات کاانعقادکریں،عبادت زیادہ سے زیادہ کریں اورآپ کی ولادت پرخوشیوں کااظہارکریں۔(حوالہ سابق)
ٓاوپرکی حدیثوں سے یہ بات بالکل صاف ظاہرہوگئی کہ میلادالنبی کے موقع پرخوشیامنانااﷲ جل جلالہ ،حضورنبی اکرم ﷺ اورصحابہ کرام کی سنت ہے اس لئے بزرگان دین نے کثیرتعدادمیں اس کے فضائل وبرکات بیان فرمائے ہیں۔مجمع بحارالانوارمیں ہے:شھرالسروروالبھجۃ مظھرمنبع الانواروالرحمۃ شھرربیع الاول فانہ شھرامرناباظہارالجورفیہ کل عام۔(ج۵،ص۳۰۷،خاتمۃ الکتاب)ربیع الاول خوشی وشادمانی کامہینہ ہے اورسرچشمۂ انوارورحمت ﷺ کازمانۂ ظہورہے،ہمیں حکم ہے کہ ہرسال اس میں خوشی کریں۔علامہ سیداحمدزینی دحلان مکی فرماتے ہیں:حضوراکرم ﷺ کی تعظیم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان کی ولادت والی رات میں خوشی منائے ،تذکرۂ ولادت کرے اورذکرولادت کے وقت قیام کرے،لوگوں کوکھاناکھلائے اوران کے علاوہ دیگرامورخیربھی انجام دے جن کے کرنے کے لوگ عادی ہیں ،اس لئے کہ یہ سب کام حضوراقدس ﷺ کی تعظیم میں شمارہوتے ہیں۔(الدررالسنیۃ)
''حضوراکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے وقت رب تبارک وتعالیٰ نے جشن کااہتمام فرمایا''
حضوراکرم ﷺ کی پیدائش مبارک کے پورے سال میں اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کانزول جاری رہااﷲ تعالیٰ نے دنیامیں اپنے محبوب کی آمدکے موقع پرمشرق سے لے کرمغرب تک کائنات کی ہرچیزکوروشن ومنورفرمادیا۔حضرت آمنہ اپنے عظیم الشان لخت جگرکی پیدائش کوبیان کرتی ہوئیں فرماتیں ہیں:فلمافصل منی خرج معہ نوراضاء لہ مابین المشرق الی المغرب۔(الخصائص الکبریٰ،ج۱،ص۴۶)جب سرورکائنات کاظہورہواتوساتھ ہی ایسانورنکلاجس سے مشرق ومغرب سب روشن ہوگئے۔آپ ہی سے ایک روایت یوں مروی ہے:بے شک مجھ سے ایسانورنکلاجس کی روشنی سے بصریٰ کے محلات میری نظروں کے سامنے روشن اورواضح ہوگئے میں نے بصریٰ میں چلنے والے اونٹوں کی گردنوں کوبھی دیکھ لیا۔(البدایہ والنہایہ:ج۲،ص۲۷۵)فضائل وسیرت کی کتابوں میں یہ روایتیں ملتی ہیں کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی ولادت پراس طرح خوشی کااظہارفرمایاکہ سال بھرکے لئے پوری زمین کوسرسبزوشاداب کردیااورروئے زمین کے تمام سوکھے درختوں کوپھلوں سے لبریزکردیا،ہرطرف رحمتوں اوربرکتوں کی بوچھارفرمادی اورقحط سالی میں مبتلا لوگو ں کے رزق میں اتنی کشادگی فرمادی کہ وہی قحط زدہ سال سرکارمصطفی ﷺ کی آمدکی برکت سے خوشی وفرحت والاسال کہلایا،چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ :جس سال نورے محمدی ﷺ حضرت آمنہ کوودیعت ہواوہ فتح ونصرت،تروتازگی،اورخوشحالی کاسال کہلایا۔قریش اس سے پہلے سخت قحط سالی میں مبتلاتھے۔ولادت کی برکت سے زمین ہری بھری ہوگئی،اوردرختوں کوپھلوں سے لاددیاگیا،قریش اس سال ہرطرف سے خیرکثیرآنے کی وجہ سے خوشحال ہوگئے۔(السیرۃ الحلبیہ،ج۱،ص۷۸)عرب میں جس کے یہاں بچی پیداہوتی اہل عرب اس کومنحوس سمجھتے اوراس کے والدین کوحقارت وذلت کی نگاہ سے دیکھتے نتیجۃ والدین بچی کی پیدائش سے غمگین ہوتے اورلڑکے کی پیدائش پرخوش ہوتے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی ولادت کے جشن میں پورے عرب بلکہ پوری دنیاکوشامل کرنے کے لئے اس سال اتنالطف وکرم فرمایاکہ ہرعورت کے یہاں لڑکاپیداہوا۔ایک روایت عمروبن قتیبہ سے ہے کہ :میں نے اپنے والدسے سناجوبہت بڑے عالم تھے کہ جب حضرت آمنہ کے یہاں ولادت باسعادت کاوقت قریب آیاتواﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایاتمام آسمانوں اورجنتوں کے دروازے کھول دواوراس دن سورج کو عظیم نورپہنایاگیااوراس سال اﷲ تعالیٰ نے دنیابھرکی عورتوں کے لئے یہ حکم نافذکردیاکہ وہ محمدﷺ کی آمدکی برکت سے لڑکے جنیں۔(انوارمحمدکہ،ص۲۲/السیرۃ الحلبیہ،ج۱،ص۷۸)
 

محمدصدرِعالم قادری مصباحی
About the Author: محمدصدرِعالم قادری مصباحی Read More Articles by محمدصدرِعالم قادری مصباحی: 87 Articles with 87303 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.