ربیع الا ول جیسے مبارک مہینے کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں
کے ہاں یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ اس مہینہ میں یوم میلاد منانا شرعی طور پر
جائز ہے کہ نہیں ؟ ہمارے ہاں معاشرتی مسلکی تقسیم میں اس حوالے سے دو طرح
کے مکتب فکر سامنے آتے ہیں ۔ ایک کے ہاں میلاد منانا نہ صرف جائز بلکہ افضل
عبادت اور شرط نجات ہے جبکہ دوسرے فریق کے ہاں یوم میلاد منانا جائزنہیں ہے
اور یہ ایک بدعت ہے ۔ اس میں شرعی دلائل کے اعتبار سے فریق ثانی کی پوزیشن
مظبوط ہے ، اگر شرعی دلائل کو دیکھیں تو کوئی بھی دلیل یوم میلاد کو منانے
کاساتھ نہیں دیتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ تصور بالکل نیا ہے اور اس کو اگر دیگر
اقوام سے اختلاط کی وجہ سے پیداشدہ قرار دیں تو بے جانہ ہوگا ۔ رسول اللہ
یا مابعد کے ادوار میں یوم میلاد کومنانے کے حوالےسے اہتمام تو دور اس کا
تصور بھی نہیں تھا ۔ لیکن ہمارے ہاں مسالک کی مذہبی تقسیم ہر چیز کو مذہب
کی عینک سے دیکھنے کی عادی ہے اس کے ہاں مذہبی احکام سے ہٹ کر سوسائٹی ،
کلچر ، ثقافت اور تہذیب و تمدن نام کی چیزوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے ۔
یوم میلاد کو مذہبی عینک لگا کر دیکھنے والے دونوں گروہوں نے عہد رسالت ؐ
سے اس کے جواز و عدم جواز پر دلائل تلاش کرنا شروع کردیے ۔ جو لوگ اس کو
افضل عبادت یا مستحب سمجھتے ہیں انہوں نے کہیں مجمل نصوص کو ایک خاص موقع
پر فٹ کردیا اور کہیں ضعیف اور موضوع روایات کا سہار ا لے کر اس کے جواز کے
دلائل پیش کردیے ۔
جولوگ اس کو جائز نہیں قرار دیتے ان کا مذہبی بیانیہ بالکل واضح ہے ۔ ان کے
ہاں یہ ایک بدعت اور مابعد کے ادوار کی ایجاد ہے کیونکہ جس چیز کے اسباب
عہدر سالت و صحابہ میں موجود ہوں اور پھر بھی وہ لوگ اس کام کو نہ کریں تو
مابعد کے ادوار میں اس کام کوکرنابدعت کہلاتاہے ۔ رسول اللہ کی ولادت با
سعادت کا موقع جتنی مرتبہ بھی نبی اکرم یا صحابہ کی زندگی میں آیا اس پر
کسی قسم کا اہتمام نہیں کیا گیا ، ہاں ایک روایت میں اس حوالے سے رسول اللہ
کے روزہ رکھنے کا ذکر ملتاہے لیکن وہ ہر سوموار کورکھا کرتے تھے خاص بارہ
ربیع الاول کے حوالے سے کوئی اہتمام نہیں تھا ۔
اب اصل مسئلہ کی طرف آتے ہیں جس کو سبھی نظر انداز کررہے ہیں ۔ جو لوگ اس
دن کے منانے کو ناجائز اور بدعت قرار دیتے ہیں وہ بھی اس دن کے حوالے سے
کسی نہ کسی قسم کی تقریبات کا اہتما م کررہے ہوتے ہیں ۔ جلوس نہ نکالیں تو
جلسہ کر ہی رہے ہوتے ہیں ، جھنڈیاں نہ لگائیں تو اشتہار ،فلیکس وغیرہ تو
لگاہی رہے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح وہ ولوگ جو میلاد منانے کو جائز قرار دیتے
ہیں ان کے مکتب فکر کے لوگ اس کو علماء یا مذہبی طبقہ کی ہدایات کے مطابق
نہیں منارہے ہوتے ہیں ۔چند لوگ شاید مذہبی ہدایات کو فالو کرتے ہوں یا کچھ
چیزوں میں مذہبی رہنماؤں کی بات سنی جارہی ہو لیکن اس دن ان ہدایات کی کوئی
ایسی پابندی نہیں ہوتی کہ ان سے باہر نہیں جایاجاسکتاہے ۔ گویا کہ یہ مسئلہ
ایسا ہے جس میں عوام علماء کی نہیں سنتے ہیں بلکہ علماء عوام کے پیچھے چلتے
ہیں ۔ ایک سال میں عوام کے حدود کچھ ہوتے ہیں اور دوسرے سال کچھ ہوجاتے ہیں
اور علماء حد بندی کو گھٹانے بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کرپاتے ہیں ۔
عوام کے پیچھے چلتے ہوئے عملی طور پر مذہبی طبقے کے ہاں بحیثیت مجموعی اس
دن میں خوشی منانا کوئی ایسا مسئلہ نہیں رہا ہے جس پر کوئی اختلاف ہو
باوجود یکہ کوئی مذہبی نص اس حوالے سے موجود نہیں ہے ، اصل مسئلہ اس طریق
کار ہے جس کو ہر مسلک اپنائے ہوئے ہے اور اس پر مصر ہے ۔ ہر مسلک اپنے
مزعومہ نظریات و طریقہ خوشی کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش میں ہے جبکہ عوام
ان تمام سے ماوراء ہے ۔
میرے خیال میں یہ مسئلہ کلچر و ثقافت سے تعلق رکھتاہے اور اس کو اسی تناظر
میں دیکھنا چاہیے ۔ کلچر و ثقافت نہ یکساں ہوتاہے نہ یکساں رہتاہے اس میں
تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ، اس دن کو منانے کے حوالے سے مختلف علاقوں میں
مختلف طریقے رائج ہیں جو کہ ظاہری بات ہے مذہبی نہیں ہیں ، مذہب کی ہدایات
تو ہر جگہ پر ایک ہی ہوتی ہیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے ۔ اس کلچر و
ثقافت کی سرگرمی کو خالص مذہبی بناکر ہم نے نظریاتی طور پر عوام کو مشکل
اور شش و پنج میں ڈال دیا ہے (جبکہ عملی طور پر وہ اپنی مرضی کے مطابق ہی
چل رہے ہیں )۔ اب یہی مسئلہ نظریاتی طور پر ا یک اہم اختلافی مسئلہ بنا ہوا
ہے جس میں دونو ں طرف کے عوام عملی طور پر سب کچھ کرتے ہوئے نظری طور پر
پریشان ہیں کہ ہم یہ سب مذہب کے مطابق کررہے ہیں کہ نہیں ۔
اس کو جب ہم کلچر و ثقافت سے تعلق رکھنے والی مذہبی سرگرمی سمجھیں گے تو اس
میں شریک لوگوں کو بدعتی اور نا شریک ہونے والوں کو گستاخ نہیں سمجھا جائے
گا بلکہ جس کا جو دل چاہ رہا ہوگا وہ اس کے مطابق چل رہاہوگا اور دوسرے کو
بھی اس پر اعتراض نہیں ہوگا ۔
تمام مذہبی مسالک اس موقع پر ایک اہم کام کر سکتے ہیں کہ کلچر و ثقافت کی
اس سرگرمی میں مذہب کی بنیادی روح کے خلاف جو کام ہورہے ہیں ان کی نشاندہی
کرکے ان کو روکنے کے لئے اقدامات کرسکتے ہیں ۔علماء امت کااصل کا م یہی ہے
کہ وہ مذہب اور اخلاقیات کی طرف توجہ دیں ، ان کے منافی اگر کوئی کام ہورہا
ہو تو اس کے خلاف آوا ز اٹھائیں ، اس کے علاوہ دیگر معاملات کو عوام اور ان
کے حکمرانوں پر چھوڑ دیں ۔ علماء اگر اخلاقیات اور بنیادی مذہبی روح کی طرف
تو جہ نہیں دیں گے تو مسلک پرستی کو تقویت ملے گی ۔ |