مشکبوعطر بیز ہوائیں فضامیں خوشی اور وجد سے دیوانہ وار
جھوم رہی تھیں صحراں کے ذرے سمندروں کے قطرے اور کائنات کا چپہ چپہ حا لت
تشکر میں سجدہ ریز تھے ۔ مالک کا ئنات نے اپنے بندوں پر احسان عظیم فرما
دیا تھا اپنے محبوب کو اپنے نو ر ﷺ کو لباس بشریت میں ملبوس فرما کر عالم
رنگ و بو میں جلوہ گری کے لیے بھیج دیا تھا ۔ چار دانگ عالم پر قابض
اندھیرے روشنیوں میں بدل چکے تھے سسکتی بلکتی عالم نزاع میں مبتلا انسانیت
کو حیات ِ نوبخشنے والا آگیا تھا منکرات کی صلیبوں پر لٹکے ہو ئے انسانوں
کو زندگی بخشنے والا آگیا تھا آگ کے بھانبھر سے لبریز جہنم کے کناروں پر
کھڑے لوگوں کا رخ فردوسِ بریں کی طرف موڑنے والا آگیا تھا ۔ یہی وہ مسیحا
اعظم تھا جس کے آنے پر ہزاروں سال سے روشن آتش کدے سرد پڑگئے غرور و تکبر
کی علامت ملک شام کے فلک بوس شاہی محلات سرنگوں ہو گئے صنم کدوں میں زلزلے
آگئے شرک و کفر کے ایوان توحید کے ترانوں سے گونج اٹھے فرش سے عرش تک قدسی
ملائکہ کا تانتا بندھ گیا جو وجہ تخلیق کائنات محبوب خدا کی زیارت کے لیے
حضرت آمنہ کے آنگن میں حاضر ہو رہے تھے اور قیامت تک اِسی محبوب خدا ﷺ کی
زیارت و طواف کے لیے آتے رہیں گے اور دِل میں یہ حسرت لیے لوٹ جائیں گے کہ
اب روزِ محشر تک ان کی دوبارہ باری نہیں آئے گی آج وہ آگئے تھے جن کے آنے
سے گلزار ِہستی میں زندگی اور روشنی کی لہر دوڑ گئی تھی آپ ﷺ صرف عرب و عجم
کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے ۔ آپ ﷺ کی آمد
سے قبل پو ری دنیا جہالت گمراہی ظلم و جبر شرک و بدعت ، صداقت و گمراہی
نافرمانی کے عمیق گڑھے میں گری ہو ئی تھی انسانیت اور انسانی اقدار کا نام
و نشان تک نہ تھا لڑکیوں بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا عورتوں اور غلاموں
کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا عورتیں اور مرد سر عام بیت اﷲ
کا ننگا طواف کر نے ایک خدا کی عبادت کی بجائے اپنے ہی ہاتھوں سے تراشیدہ
بتوں کی پوجا کی جاتی بت پرستی اِس حد تک بڑھ گئی تھی کہ خانہ خدا میں بھی
تین سو ساٹھ بت رکھے ہو ئے تھے ۔ فحاشی عریانی و بے حیائی فسق و فجور اور
بد کاریوں پر ندامت و شرمندگی کی بجائے اِس پر فخر کیا جاتا شرا ب نو شی و
قما ر بازی ان کا پسندیدہ ترین مشغلہ تھا حسب و نسب اور تفاخر میں ڈوبے ہو
ئے تھے چھوٹی چھو ٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے طویل جنگوں کا روپ دھار لیتے
انتقام و کینہ پروری کو وصف خوبی سمجھا جا تا تھا بتوں کے نام پر جا نور
ذبح کئے جاتے اور بتوں پر چڑھا و ے چڑھاتے جاتے ظلم کی انتہا یہ تھی کہ
زندہ جانوروں کا گوشت کا ٹ کرکھانا محبوب مشغلہ تھا ۔ قبا علی عصبیت نقطہ
عروج پر تھی ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کو کمتر اور ذلیل سمجھتا تھا گھڑ دوڑ پر
بازی لگائی جاتی سو دی لین دین عام تھا ۔ انسانیت سسکتی بلکتی دم توڑ تی
نظر آرہی تھی اور شدت سے اپنے مسیحا کے انتظار میں تھی اور پھر مالک بے
نیاز کو انسانیت اور کرہ ارض پر ترس آیا اور اپنے محبوب اور آخری رسول ﷺ کو
اِس دنیائے آب و گل میں بھیجا آپ ﷺ کے آنے پر حضرت آمنہ فرماتی ہیں آپ ﷺ کے
آنے پر میں نے ایک عظیم نور دیکھا جو پھیلتا چلا گیا یہاں تک کہ شام کے
محلات بھی میری نظروں میں روشن ہو گئے آپ ﷺ کسی گندگی کے بغیر پاک و صاف
پیدا ہو ئے ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص کی والدہ فرماتی ہیں آپ ﷺ کی ولادت
کے وقت جدھر نظر جا تی تھی نو ر ہی نور تھا حضرت شفا جو دایہ تھیں فرماتی
ہیں آپ ﷺ میرے ہاتھوں میں آئے تو حا لت سجدہ میں اور انگشت اٹھا ئے نا ف
بریدہ اور ختنہ شدہ تھے ایک آواز بھی آئی رب کریم تم پر رحم فرمائے حضرت
آمنہ فرماتی ہیں جب آپ ﷺ پیدا ہو ئے تو آپ ﷺ سجدہ پڑ گئے اور دونوں انگلیاں
آسمان کی طرف اٹھائے ہو ئے تھے آپ ﷺ نے سجدہ میں جانے کے بعد انگشت آسمان
کی طرف اٹھا کر فرمایا اﷲ کے سوا کو ئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک میں
اﷲ کا رسول ﷺ ہو ں ۔ حضرت آمنہ فرماتی ہیں بادل کا ٹکڑا نمودار ہوا جس کے
باعث آپ ﷺ کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے میں نے آواز سنی آپ ﷺ کو تمام عالم کی
سیر کرائی گئی تاکہ مخلوق آپ ﷺ کی صفات آپ ﷺ کی صورت اور اِسم گرامی سے
آشنا ہو جائے یہ بادل صرف ایک لمحہ کے لیے منور رہا اِس کے بعد پہلے سے بڑا
بادل آیا اس میں انسانوں اور گھوڑوں کی آوازیں سنیں پھر ایک آواز آئی ۔ آپ
ﷺ کو جن انس اور چرند پرند دکھائے گئے پھر آپ ﷺ کو آدم کی صفوت و بزرگی نوح
کی رقت ابراہیم کی سی آزمائش داد کی صورت ایوب کا صبر یحی کی زہد عیسی کی
سخاوت عطا ہو ئیں یہ بادل صرف ایک لمحہ کے لیے روشن ہوا ۔ آپ ﷺ کے ولادت کے
وقت آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب خانہ کعبہ میں طواف کر رہے تھے حضرت عبدالمطلب
فرماتے ہیں میں اس رات کعبہ میں تھا میں نے بتوں کو دیکھا کہ سب بت اپنی
اپنی جگہ سے سر بسجود سر کے بل گرِ پڑے ہیں اور کعبہ کے درو دیوار سے یہ
آواز آرہی تھی ۔ مصطفے ﷺ مختار پیدا ہوا اس کے ہاتھ سے کفار ہلاک ہوں گے
اور کعبہ بتوں کی عبادت سے پاک ہو گا اور وہ اﷲ کی عبادت کا حکم دے گا جو
حقیقی بادشاہ اور سب کچھ جاننے والا ہے عکرمہ سے مروی ہے کہ جس روز محبوب
خدا ﷺ کی ولادت ہو ئی تو ابلیس نے دیکھا کہ آسمان سے تارے گِر رہے ہیں اس
نے اپنے لشکروں کو کہا آج رات وہ پیدا ہوا ہے جو ہمارے نظام کو درہم برہم
کر دے گا اس کے لشکروں نے اسے کہا کہ تم اس کے نزدیک جا اور اسے چھو کر
جنوں میں مبتلا کر دو جب وہ اِس نیت سے آمنہ کے لا ل کے قریب جانے لگا تو
حضرت جبرئیل نے اسے پاں ٹھوکر لگائی اور اسے عدن میں پھینک دیا علامہ ابو
القاسم لکھتے ہیں ابلیس ملعون زندگی میں چار بار چیخ مار کر رویا پہلی مر
تبہ جب اس کو ملعون قرار دیا گیا دوسری مرتبہ جب اسے بلندی سے پستی کی طرف
دھکیلا گیا تیسری مر تبہ جب سرور دو عالم ﷺ کی ولادت با سعادت ہو ئی اور
چوتھی مر تبہ جب سور فاتحہ نازل ہو ئی اور چیخا چلا نا شیطان کا عمل ہے آپ
ﷺ کی ولادت سے کائنات کا ذرہ ذرہ خو شی سے جھوم رہا تھا ننھے سردار ﷺ دنیا
میں آنے کے بعد آرام فرما رہے تھے کہ امِ ایمن کنیز کمرے میں داخل ہو ئی
اور بو لی اہل قریش ننھے سردار ﷺ کو دیکھنا چاہتے ہیں حضرت آمنہ فرماتی ہیں
آپ ﷺ آرام فرما رہے ہیں اور پھر کنیز کو اٹھا نے کی اجازت دیتی ہیں کنیز
آگے بڑھ کر ننھے سردار ﷺ کو پیا ر سے دیکھتی ہے جو میٹھی نیند سے آرام فرما
رہے تھے حضرت آمنہ بو لتی ہیں شاید ننھے سردار ﷺ کا نام رکھا جانے لگا ہے ۔
جی مالکن مجھے سردار قریش عبدالمطلب نے حکم دیا ہے کہ ننھے سردار ﷺ کو نیچے
لے کر آ قوم اپنے نئے سردار کو دیکھنا چاہتی ہے اور پھر کنیز بڑھ کر ننھے
سردار ﷺ سرتاج الانبیا سرور کائنات ﷺ کو اٹھا لیتی ہے ننھے سردار ﷺ اس کے
اٹھا نے سے چونک اپنی خوبصورت کالی کالی آنکھیں کھول دیتے ہیں آرام سے ماں
بولی جی مالکن کنیز میرے آقا میرے سردار میرے مالک میری زندگی کہتے ہو ئے
اپنے سینے سے لگا لیتی ہیں اور پھر ننھے سردار ﷺ کو باہر مہمانوں کے درمیان
لے آتی ہے ننھے سردار ﷺ کا ملکوتی حسن اور چاند جیسا چہرہ دیکھ کر سب نے
تعریف کی اور قریشیوں کے مخصوص حسن کی فراخدلی سے بھر پو ر داد دی ہم ننھے
سردار ﷺ کو کس نام سے پکاریں تو سردار قریش عبدالمطلب کی آواز گونجی محمد ﷺ
تم اپنے بھتیجے اور ننھے سردار کو محمد ﷺ کے نام سے پکار و گے ۔ محمد ﷺ ؟
بہت سی حیرت زدہ آوازیں گونجیں ہاں میرے پو تے اور میرے نو بیٹوں کے بھتیجے
کا نام محمد ﷺ ہے نام تو بہت اچھا ہے میں صرف اِس لیے حیرا ن ہو رہا تھا کہ
قریش میں یہ نام کبھی سننے میں نہیں آیا حرب بن امیہ بولا سردار دادے نے اس
کی طرف دیکھا اور خوشی اور فخر سے لبریز لہجے میں کہا قریش ہی ہیں حرب پو
رے عرب میں کہو مکہ کے سینے میں یہ نام صدیوں اور قرنوں سے امانت کے طور پر
محفوظ تھا آج مکہ اپنی امانت سے سبکدوش ہو رہا ہے یہی وہ نام تھا جو حضرت
آدم نے اپنی غلطی پر عرش عظیم کی پیشانی پر لکھا ہوا دیکھا اور جب محمد ﷺ
کے نام سے معافی مانگی تو خالق بے نیاز کو ترس آیا اور محمد ﷺ کے نام سے
مانگی ہو ئی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور اپنا در کھول دیا (ماخذ عشق مصطفے
/عشق رسول ﷺ )۔
|