تحریر ۔ ۔ ۔ ۔ ابو افنان
یوں تو شادیاں کسی خاص موسم یا وقت کی پابند نہیں ہوتیں لیکن عام طور پر
عیدالاضحی کے بعد شادیوں کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو
چلتے چلتے
موجودہ شب و روز میں اپنے عروج کو پہنچ جاتاہے۔
شومئی قسمت کہ پردیس میں ہونے کی وجہ سے نہ تو ولیمے کی کسی دیگ کی کُھرچن
یا خوشبو پاسکتے ہیں اور نہ ہی کسی بےگانی شادی میں عبداللہ کی دیوانگی
والا رول پلے کرسکتے ہیں۔
لیکن شادیوں کے اس سہانے موسم اورپے درپے شادیوں کو دیکھ کرجی میں آیا کہ
کیوں نہ اس نئی زندگی میں قدم رکھنے والوں سے چند حروف کے ذریعہ مخاطب
ہواجائے جو سب کے لئے مبارک باد بھی بنے اور ہمارے احساسِ محرومی کا کچھ نہ
کچھ ازالہ بھی ہو ۔
بلاشبہ شادی ایک خوبصورت بندھن کا نام ہے اور
میاں بیوی کے ما بین محبت ایک فطری اور طبعی معاملہ ہے،
لیکن اگر کوئی شوہر یہ سمجھتا ہے کہ یہ زندگی
محضِ پھولوں بھرے خوابوں سے معمور ہوتی ہے اور بس ! تو وہ درحقیقت ایک نا
قابلِ وجود چیز کو اس دنیوی زندگی میں تلاش کر رہا ہے، جبکہ اس دنیوی زندگی
کی طبیعت اور مزاج میں مشکلات، مشقتیں اور تکلیفیں ودیعت کی جا چکی ہیں،
اللہ تعالی نے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:
یقیناً ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے [البلد 4]
مصائب و حوادث، پریشانیاں اور مشکلات اس دنیوی زندگی کا حصہ ہے اور
اگر کوئی شخص اس گردشِ حیات سے اُلٹ چلنا چاہے تو یہ پانی میں انگارے تلاش
کرنے کےسوا کچھ بھی نہیں جس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گا ۔ آپ کو
اس دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نظر نہیں آئے گی جو ہر اعتبار سے کامل اور
ہر قسم کے عیب سے پاک ہو، لیکن کامیاب انسان وہی ہے جو ان عیوب کو دیکھنے
کے باوجود معاملات کو آگے کی جانب لیکر جائے۔
ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہ رہا تھا
تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
تم اسے کیوں طلاق دینا چاہتے ہو؟
اس نے کہا: مجھے اس سے محبت نہیں ہے!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
تو کیا ہر گھر کی بنیاد محبت پر ہی ہوتی ہے؟ یا باہمی شفقت اور حیا بھی
کوئی چیز ہوتی ہے؟
قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالی کاارشادہے:
اور ان کے ساتھ بھلے اندازمیں زندگی بسر کرو، پس اگر تم انہیں پسند نہ کرتے
ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ تعالی نےاس
میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو [ النساء: 19]
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی
اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی مومن کسی مومنہ [بیوی] سے بغض مت رکھے،
اگر اس کی کوئی بات اچھی نہ لگے تو دیگر امور سے خوش ہو جائے)
یعنی بیوی کو ہرگز قابلِ نفرت نہیں سمجھنا چاہئے؛ اگر بیوی کی کوئی بات نا
گوار لگے تو دیگر اچھی صفات پر غور کرنا چاہئے مثلاً: بیوی تیز مزاج اور
کرخت لہجہ کی مالک ہے؛ لیکن ساتھ میں صوم وصلاة کی پابند ہے، خوب صورت اور
پاکدامن ہے یا رفاقت کا حق ادا کرتی ہے یا اسی طرح کی کوئی اور خوبی اس میں
پائی جاتی ہے تو ان خوبیوں پر غور کرکے زندگی کی گاڑی کو چلنے دینا چاہئے
بعض حضرات شوہر بننے سے پہلے بیوی کے بارے میں تمام ترذمہ داریوں، مشکلات،
پریشانیوں اور مصائب سے مبرّا خوشیوں، مستیوں، کانٹوں کے بغیر پھولوں کاایک
عجیب خواب دیکھتےہیں اور پھر جب شادی کے بعد من پسند تعبیر نہیں ملتی تو
خود پنکچر ہوکر سارا بوجھ ایک ٹائر (بیوی)
پر ڈال دیتے ہیں۔
بعض حضرات بیوی سے کسی قسم کے مشورہ لینے، اس کی خدمت کرنے، اس سے عزت و
احترام سے پیش آنے، گھر کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹانے اور اس کے ساتھ اچھا
برتاؤ کرنے کو رن مریدی سمجھتے ہیں۔
اسلام میں کہیں نہیں لکھا کہ شوہر کا بیوی کے ساتھ کاموں میں ہاتھ بٹانا
گناہ ہے لیکن افسوس کہ بعض نا عاقبت اندیش جب کسی شوہر کو اپنی بیوی کا
ہاتھ بٹاتے ہوئے دیکھتے ہیں توشیطان کے چیلے کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے رن
مرید کہہ کر بیوی سے دور کر دیتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’ تم میں سے بہتر وہ ہے جو
اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے
زیادہ بہتر ہوں‘
نبی کریم صلى الله عليه و سلم اپنےگھر والوں کی خدمت میں ہوتے تھے ، بکری
سے دودھ بھی نکالتے، کپڑوں میں پیوند بھی لگا لیا کرتے ، اور اپنے جوتوں کی
مرمت بھی خود کر لیا کرتے تھے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوڑ میں
دو بار مقابلہ بھی فرمایا۔ ان کو حبشیوں کے نیزہ بازی کے کھیل کا نظارہ بھی
کرایا۔ اور ان کو پیارے نام سے بھی پکارا
حقیقت یہ ہے کہ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ رن مریدی نہیں بلکہ حکمِ خداوندی
کی بجا آوری ہے۔
اگر شادی کے بعد نمازوں کے اوقات بیوی سے دل بہلانے میں گزرے، ماں باپ
پرانے لگنے لگے۔ بھائی بےگانے لگنے لگے، بہنیں
اجنبی لگنے لگے اور دیگر خدا یامخلوقِ خدا کے حقوق متاثر ہونے لگے تو سمجھ
جائےکہ آپ بیوی کے ہاتھ پکی بیعت کرچکے ہیں،
ورنہ محضِ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ سے کوئی رن مرید نہیں بن جاتا
اسلام کا خلاصہ ہی حقوق ادا کرنے کا نام ہے
اللہ تعالی اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنا (جس میں بیوی بھی شامل ہے) رن
مریدی نہیں عینِ شریعت ہے
رن مریدی کا درست مفہوم سمجھنے کے لۓ عربی مثَل
(عَنْزٌ وَلَوْ طَارَتْ) یعنی بکری ہے اگرچہ اُڑ جائے کاپسِ منظر پڑھ
لیجیئے
بیوی نے اپنے مظلوم شوہر کو بطخ دیکر بازار بھیجا اور ساتھ ساتھ رعب انگیز
لہجے میں حکم صادر کرتے ہوئے فر مایا : اس کو بکری کِہکر بیچنا ہے بطخ
نہیں، شوہر بے چارہ (مرتا کیا نہ کرتا) محاورے کے عینِ مطابق
بطخ بازار لے جاکر " بکری خریدو بکری خریدو" کی صدائیں بلند کرتا رہا
خریدار آکر بکری کا پوچھتے اور یہ بطخ دکھاتا
وہ بہت سمجھاتے رہیں کہ بھائی یہ بطخ ہے بکری نہیں لیکن وہ کسی بھی قیمت یہ
بات ماننے کے لئے تیار نہیں تھا کسی صاحبِ حکمت آزمودہ کار کا وہاں سےگزر
ہوا، کمالِ حکمت سے بطخ کو ہاتھ میں لیکر اُڑا دیا اور کہنے لگا بھائی
دیکھو ! یہ اُڑگئی جبکہ بکری اُڑتی نہیں، تب اُس مظلوم شوہر نے مظلومانہ
لہجے میں یہ مشہور جملہ کہا جو آج تک ہٹ دھرم لوگوں اور رن مریدوں کے لئے
مَثَل کے طور پر کہا جاتا ہے (بکری ہے اگرچہ اُڑجائے)
بیوی کو بھر پور محبت بھی دیں، ہنسی مذاق بھی کریں، خدمت بھی کریں،گھریلو
کام کاج میں ہاتھ بھی بٹائیں، مقدور بھر اچھے اچھے ذائقہ دار کھانے بھی
کھلائیں، سیر سپاٹے بھی کرائیں، ساتھ دوڑ بھی لگائیں، پیارے نام سے پکار کر
محبت کا اظہار بھی کریں۔کھیلیں کودیں بھی
اس کے گِلے شکوے بھی سنیں، اور دراندازیوں پر صبر بھی کریں کہ ظالم بننے سے
مظلوم بننا بہرحال بہتر ہے لیکن رن مریدی میں ظلم سِہتے سِہتے اتنا بھی
مظلوم نہ بنیں کہ کل کلاں بطخ کو بکری کہنا پڑ جائے
دیگر مظلوموں کی فریاد رسی کو کوئی نہ کوئی پہنچ ہی جاتا ہے لیکن رن مرید
کی مدد کو کوئی نہیں پہنچتا کہتے ہیں:
پرائے نا موس پہ کون ہاتھ اٹھائے گا
اُمید ہے کہ آپ کو رن مرید کا درست کنسپٹ سمجھ آیا ہوگا
اللہ تعالی آپ کاحامی و ناصر ہو اور شادی آپ کو مبارک ہو |