انسان جیسے جیسے زندگی کی منزلیں تہہ کرتا چلا جاتا ہے اس
کی زندگی میں آنے والے مسائل بھی اسی تناسب سے بڑھتے جاتے ہیں۔ ان مسائل کا
اکثروبیشتر خالق انسان خود ہوتا ہے۔ انسان جس ماحول میں پرورش پاتا ہے وہاں
مختلف صنفِ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں جن کا زندگی گزارنے
کا معیار، رہن سہن ، لباس، عادات، ترجیحات،سوچ اورحیثیت ایک دوسرے سے منفرد
ہوتی ہیں۔ انسان اپنے معیا رِ زندگی لوگوں کی پسند نا پسند پر منحصر کر
لیتا ہے اور اپنی خوشیوں اور نوازشوں پر شکر کی بجائے دوسروں کی کامیابیوں،
خوش قسمتی کو اپنی بد قسمتی سمجھنے لگتا ہے اور نتیجہ کے طور پر حسد، بغض
اور پریشانیوں میں خود کو مبتلا کر لیتا ہے۔ اگر اپنے گردو نواح میں غور
کیا جائے تو شائد انسان ان نعمتوں کا حساب نہ کر سکے جو اللہ نے اسے بن
مانگے عطا کی ہیں۔ کسی کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں ہے، کوئی ماں باپ جیسی
عظیم نعمت سے بے نوا ہیں، کسی کے پاس پہننے کو لباس نہیں، کوئی دو وقت کی
روٹی سے محتاج ہے تو کوئی دوالگی کا شکار ہے ایسی لا تعداد مثالیں بلا شبہ
ہر محلہ،گلی، کوچے میں دیکھنے کو مل جاتی ہیں مگر احساس بہت کم دیکھنے میں
ملتا ہے۔
انسان اکثر مقامات پر اللہ سے شکوہ کرتا ہے کہ یہ دکھ، تکالیف، پریشانیاں
اسی کی زندگی کا حصہ کیوں بن گئے ہیں؟ اور خود کو بد قسمت سمجھنے لگتا ہے
کچھ امتحان اللہ کی طرف سے ہماری زندگیوں میں نمودار ہوتے ہیں جس کا مقصد
انسان کی آزامائش کرنا ہوتا ہے۔ کبھی کسی اپنے کو ہم سے جدا کر کہ تو کبھی
غریبی ومفلسی دے کر ہمارے صبر کا امتحان لیتا ہے۔ کبھی عطا کر کہ ہمیں
آزماتا ہے تو کبھی چھین کر۔ مگر کیوں ماں سے ستر گناہ زیادہ پیار کرنے والا
ہمیں ان امتحانات سے آشنا کرواتا ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ
ہماری ذات میں نکھار اور ہمارے فہم کو آزما کر ہمارا مقام بلند کرنا چاہتا
ہے۔ جب ہم اول جماعت کے طالبِ علم تھے تو ہمیں اگلی جماعت میں تبادلے کے
لیے امتحان دینا پڑا تھا اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا ہم ہر جماعت کا
امتحان دیتے چلے گئے اور کوئی ڈاکٹر،کوئی پائلٹ، کوئی وکیل بن گیا۔ اگر ہم
امتحان پاس نہ کرتے تو شاید آج بھی ہم کلاس اول کے طالبِ علم تصور کیے
جاتے۔ اسی طرح اللہ بھی اس شخص کا امتحان لیتا ہے جو اُسے دوسروں سے افضل
ہو جسے اللہ اپنی نعمتوں کے خزانے سے نوازنا چاہتا ہو۔ صر ف ہم سے یہ توقع
کی جاتی ہے کہ ہم جیسا بھی مسئلہ ہو، کسی بھی قسم کی پریشانی ہو اللہ پر
اپنا پورا یقین رکھے ہر مشکل وقت میں صبر کریں ہر اچھے وقت پر اللہ کا شکر
ادا کریں بلا شبہ دنیاء آخرت کی کھیتی ہے ہمارے دنیاء میں آنے کا مقصد بھی
یہی ہے کہ ہم اپنی زندگی کی فصل کو خوش و خضو بوئے اللہ کی رضا کے لیے اللہ
اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی اطاعت کریں جس سے نہ صرف ہماری دنیاء سنورے
گی بلکہ انشاءاللہ آخرت میں بھی کامیابی و کامرانی ہما را مقدر بنے گی۔
|