خواتین انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار
ہیں۔ جبکہ زمانہ جاہلیت میں جزیرۃ العرب میں عورت کے لئے کوئی قابل ذکر
حقوق نہ تھے، عورت کی حیثیت کو ماننا تو درکنار اسکو معاشرے میں زندہ بھی
رہنے کاحق تک نہ تھاـ اسلام نے جو عزت اور مقام عورت کو عطا کیا ہے اُس کی
مثال نہ تو قومی تاریخ میں ملتی ہے اور نہ ہی دنیا کی مذہبی تاریخ
میں۔اسلام نے صرف عورت کے حقوق ہی نہیں مقرر کئے بلکہ ان کو مردوں کے برابر
درجہ دے کر مکمل انسانیت قرار دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت چاہے ماں،بہن،بیوی اور بیٹی ہر روپ میں قدرت کا قیمتی
تحفہ ہے جس کے بغیر کائناتِ انسانی کی ہرشے پھیکی اور ماند ہے۔اللہ تعالیٰ
نے مرد کو اس کا محافظ اور سائبان بنایا ہے ۔عورت اپنی ذات میں ایک تناور
درخت کی ما نند ہے جو ہر قسم کے سردوگرم حالات کا دلیری سے مقابلہ کرتی ہے
۔
آج کے ترقی یافتہ دور کا تقاضہ ہے کہ ہر معاشرے کو صنفی امتیاز سے پاک کیا
جائے۔ عورتوں کو اُن کا اصل مقام حاصل ہو اور انہیں اُن کے بنیادی انسانی
حقوق میسر ہوں۔ ساتھ ہی خواتین اور مردوں میں یہ شعور بھی بیدار ہو کہ دنیا
میں تمام انسان قابل احترام ہیں اور ان کے حقوق یکساں ہیں۔ تعلیم، صحت اور
مناسب روزگار ہر انسان کا حق ہے اور اُسے ملنا چاہیے۔
خواتین جو کہ انسانی آبادی کا نصف حصہ ہیں، انہیں ہمارے معاشرے میں عام طور
پر صنف نازک کہا اور سمجھا جاتا ہے. اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ خواتین کا
کام صرف گھر کا کام کاج کرنا، کھانا پکانا، بچے پیدا کرنا اور چار دیواری
میں رہنا ہے. معاشی معاملات اور معاشرتی زندگی کے باقی تمام پہلوؤں سے ان
کا کوئی سروکار نہیں ہے،
جب ہم مغربی معاشروں میں خواتین کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تو مغرب میں
بھی ہمیں کئی طرح کے مسائل نظر آتے ہیں۔ تاہم ان کی نوعیت اور ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو حالات انتہائی ابتر ہیں، گھریلو
حالات، غربت، افلاس، تنگدستی، محرومی، لاعلاجی اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ
اور مجبور عورت جب روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے تو وہاں بھی اسے جنسی
طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، حالاں کہ یہ صرف پاکستان نہیں ہے بلکہ پوری
دنیا میں پایا جانے والا ایک مسئلہ ہے لیکن ہمارے ہاں اس کا سارا ملبہ
خواتین پر گرتا ہے, اگر خواتین کو ملازمت مل جائے تو سماج میں موجود مردوں
کی حاکمیت کے باعث انہیں ہر وقت جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے، افسوس
کی بات ہے لیکن اب بھی دفاتر میں کام کرنے والے بہت سے لوگ بھی یہی سوچ
رکھتے ہیں کہ خواتین کو کام کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے اور اکثر اوقات
وہ صنفی تعصب پر مبنی ایسے جملے کہہ جاتے ہیں جو ان کی اسی سوچ کی عکاسی
کرتے ہیں۔ ایسے تبصرے نہ صرف تکلیف دہ ہوتے ہیں، بلکہ یہ ان کے کام پر بھی
منفی اثر ڈالتے ہی ہیں اور بعض اوقات وہ دل برداشتہ ہو کر نوکری بھی چھوڑ
دیتی ہیں۔خواتین کے گھر سے نکل کر نوکری کرنے کی مخالفت کی جاتی ہے، جبکہ
وہی خواتین روز مرہ کے گھریلو کام کاج میں مصروف رہیں تو خوشی کا اظہار کیا
جاتا ہے،
عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور گینگ ریپ جیسے واقعات میں روز بروز اضافہ
ہورہا ہے اور پہلے اِکا دُکا نظر آنیوالے یہ واقعات اب روز کا معمول بنتے
جارہے ہیں، اس درندگی سے معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں. آج کے جدید دور
میں بھی خواتین غیرت کے نام پر قتل کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے بہت سے
علاقوں میں آج بھی عورتوں میں بنیادی تعلیم کا فقدان ہےـ ان کی صحت اور
معاشرتی تربیت کا کوئی باقاعدہ بندوبست موجود نہیں۔
آج بھی کارو کاری، وٹہ سٹہ، ونی اور ستی جیسے جاہلانہ رواج عروج پر ہیں،
اور کہیں انہیں کسی مرد کی غلامی میں دے دیا جاتا ہے، وہ بھی عقد کے نام پر
آج بھی عورت کو حقیر اور کم تر سمجھا جاتا ہے، راہ چلتے عورتوں پر آوازیں
کسنا، مذاق اڑانا، سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر جاری کرنا، انہیں بلیک میل
کرنا اور غیراخلاقی الفاظ کا استعمال کرنا، روز کا معمول بن چکا ہے، آپ
کبھی غور کریں تو ہمارے معاشرے میں غلیظ ترین گالیوں میں بھی صرف عورت کے
نام اور رشتوں کا استعمال کیا جاتا ہے، کہیں تیزاب پھینک کر عورتوں کی
شکلیں بگاڑ کر انہیں عمر بھر کیلئے بے سہارا چھوڑ دیا جاتا ہے، اس دور میں
بھی دور جہالت کے پیروکار موجود ہیں، کسی کی بہن کی اگر آبرو ریزی ہوجائے
تو بھائی اسے غیرت کے نام پر قتل کردیتا ہے، بجائے یہ کہ اپنی بہن کے ساتھ
ہونیوالی زیادتی پر مجرم کو قانون کے دائرے میں لائے، وہ اپنی ہی بہن کو
قتل کردیتا ہے، کہیں کوئی شخص کسی کی بہن کے ساتھ زیادیتی کرتا ہے تو جواب
میں اس مجرم کی بہن سے زیادتی کرنے اور کہیں تو اجتماعی زیادتی کرنے کا
جاہلانہ فیصلہ دے دیا جاتا ہے
بدقسمتی سے مشرقی، روایتی اور مردوں کی اجارہ داری والے معاشروں میں اس
جدید دور میں بھی چند بنیادی مسائل ایسے ہیں جن کا حل جلد سے جلد تلاش کر
لیا جانا چاہیے. آج کل این جی اوز خواتین کے حقوق اورحقوقِ نسواں کے نام پر
ہر دوسرے دن بڑے بڑے ہوٹلز میں سیمینار اور ورک شوپ کے نام پر فنڈز ریزینگ
کر کے اپنے اپنے آکاؤنٹ بھر رہے ہیں اور غریب اور ظلم سے پسی خواتین کو
اپنے مقاصد اور شہرت کمانے کا ذریعہ ہیں کوئی این جی اوز صحیح معنوں میں
خواتین کے حقوق کے لئے کام نہیں کر رہے کہ جن سے باقاعدہ ہمارے معاشرے میں
کوئی سدھار آۓ. لفاظیوں، ریلیوں اور سیمیناروں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی،
معاشرے میں خواتین کو مقام کی اہمیت کو کھلے دل، کھلے ذہن سے تسلیم کرنا
ہوگا، ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جو خواتین پر تشدد کرتے ہیں، ان جاہلانہ رسم
و رواج کیخلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا جس سے ناصرف ہمارا ملک بلکہ اسلام بھی
بدنام ہورہا ہے، حکومت کو سنجیدگی سے قانون بنانے ہوں گے اور خواتین کو
تحفظ دینا ہوگا۔ |