پاکستان اور چین دو ہمسائے ہی نہیں بلکہ مثالی دوست ممالک
ہیں جن کی دوستی وقت کی ہر آزمائش پر پوری اُتری ہے اور دونوں طرف سے اس
دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور اسے برابری کی بنیاد پررکھا گیا
ہے۔ اگر چین پاکستان کی مدد پر ہروقت تیار رہتا ہے تو پاکستان نے بھی کسی
بھی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر چین کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ایک طرح سے اس
کی اور بڑی طاقتوں کے درمیان حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔چین کے لیے مشرق وسطیٰ
یعنی تیل پیدا کرنے والے ممالک تک پہنچنے کا سب سے مختصر راستہ بھی پاکستان
سے گزر کر ہی پڑتا ہے جبکہ ایک بہت بڑی معیشت ہونے کے ناطے چین کی ترقی کے
فوائد و ثمرات پاکستان تک بھی پہنچتے ہیں اور پہنچ رہے ہیں۔ سی پیک کا
منصوبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور یہ پہلا منصوبہ نہیں جو چین کی مدد سے
پاکستان میں چل رہا ہو لیکن اس کے حجم کی وجہ سے خاص توجہ کا مرکز ہے۔ یہ
خاص کر عالمی اور علاقائی قوتوں کے لیے باعث تکلیف ہے اور یہی وجہ ہے کہ
پاکستان دشمن عناصر دونوں ملکوں کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی کو ششوں میں
مصروف ہیں اور کئی طریقوں سے ایسا کر رہے ہیں ۔23نومبر کو کراچی میں چینی
قونصل خانے پر حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس کی ذمہ داری بی ایل اے
یعنی بلو چستان لبریشن آرمی نے قبول کی۔ بلوچستان میں بھارت کی مداخلت بڑی
واضح ہے اور ثابت شدہ بھی ، وہاں اُس نے کئی لوگ خرید رکھے ہیں جو وہاں
موجود محرومی سے زیادہ اُس کو اُچھال رہے ہیں اور ایسا تاثر دیا جاتا ہے
جیسے بلوچستان کے ساتھ کوئی دشمنانہ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ذاتی
دشمنی کی بنا پر ہونے والی وارداتوں کو بھی ایجنسیوں کے کھاتے میں ڈال دیا
جاتا ہے اسی طرح عام اغوا کے واقعات بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل کر
دیے جاتے ہیں۔جن لوگوں کو ملک دشمن عناصر اپنی تنظیموں میں کسی نہ کسی طرح
شامل کر دیتے ہیں وہ بھی ان لوگوں کی گنتی میں ڈال دیے جاتے ہیں اور یوں
ملک کو نہ صرف یہ لوگ بلکہ دوسرے ادارے بھی بد نام کرنے لگ جاتے ہیں۔ اسی
طرح ہر لاوارث لاش کو بھی ایجنسیوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے اور یہ
لوگ بڑی آزادی سے ملک دشمن سر گرمیوں میں مصروف رہتے ہیں کچھ لوگ انہی
لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ کر لیڈر بن جاتے ہیں۔ خود یہ انتہائی ناز و نعم میں
پلے ہوئے دنیا کی ہر دولت کے مالک سردار زادے جو کبھی اپنے علاقے کے غریب
لوگوں کی غربت مٹانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ خود یورپ کے پُر تعیش گھروں
میں رہ کر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ان کے لیڈر بن جاتے
ہیں اور ملک کے پُرامن شہریوں کا قتلِ عام کرتے ہیں اور بین الاقوامی سطح
پر بھی ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ چینی قونصلیٹ پر حملے میں بھی
حربیار مری کو ہی ماسٹر مائنڈ نامزد کیا گیا ہے اس کے ساتھ اسلم اچھو کا
نام بھی سامنے آیا ہے جسے کچھ عرصہ تک بھارت میں زیر علاج رکھا جاتا ہے اور
پھر افغانستان میں این ڈی ایس کے لوگوں سے ملوایا جاتا ہے آخر ان ملاقاتوں
کا مقصد کیا تھا کیا ایسا ہی نہیں تھا کہ کسی طرح دوبارہ بین الاقوامی
برادری کو یقین کروایا دیاجائے کہ پاکستان اب بھی ان کے لیے محفوظ ملک نہیں۔
حملے میں مارے جانے والے تینوں دہشتگرد افضل خان بلوچ، رازق بلوچ اور رئیس
بلوچ اپنے نام کے ساتھ بلوچ لگاتے تھے کیا یہ بلوچوں کو بھی بدنام کرنے کی
سازش نہیں تھی ۔اِن کے پاس سے اسلحے کے ساتھ ساتھ بی ایل اے کا پرچم بھی
برآمد ہوا ۔ان میں رازق بلوچ کے انگلیوں کے نشانات کی تو شناخت ہو چکی ہے
تاہم باقی دو دہشتگرد وں کے فنگر پرنٹس نادرا کے پاس موجود نہیں ہیں جس کا
مطلب یہ ہے کہ اِن کے شناختی کارڈ نہیں بنے تھے یا بننے نہیں دیے گئے تھے
یہ تو بعد میں معلوم ہو گا بہر حال دشمن نے انہیں اپنے مقاصد کے لیے
استعمال کر لیا ۔پولیس کے مطابق اس حملے میں بی ایل اے کے مزید بارہ ارکان
کے نام بھی ایف آئی آر میں شامل کیے گئے ہیں ۔بی ایل اے اور اس جیسی دیگر
تنظیموں کی چینی حکام یا باشندوں کے خلاف کاروائیوں میں ملوث ہو نے کا یہ
پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی متعدد بار پاکستان میں چین کی مدد سے
چلنے والے منصوبوں پر کام کرنے والے کارکنوں پر حملے کیے گئے ہیں لیکن سی
پیک کے معاہدے اور پھر اس کے منصوبوں پر کام کے آغاز نے دشمن قوتوں کو
بوکھلا دیا ہے کہ ان منصوبوں سے گوادر کی بندرگا ہ اور پھر اس سے جڑی ہوئی
ترقی کے بلوچستان پر جو اثرات مرتب ہونگے اُس سے دشمن کا بلوچستان میں ترقی
نہ ہونے اور پسماندہ رہ جانے کا بہانہ ختم ہو جائے گا اور یو ں ان کی لیڈری
بھی ختم ہو جائے گی ۔ ساتھ ہی اس حملے سے بیرونی سرمایہ کاری کو نقصان
پہنچانے کی بھی کوشش کی گئی کہ اگر چین جیسے دوست ملک کے باشندے اور سفارتی
حکام پاکستان میں محفوظ نہیں تو کوئی دوسرا ملک کیسے محفوظ ہو سکتا ہے لیکن
اس موقع پر جس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس منصوبے کو ناکام
بنایا اُس نے دشمن کو ہی زیادہ نقصان پہنچایا اور چین کو باور کرایا گیا کہ
پاکستان اس کے پاکستان میں موجود باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری لے سکتا ہے
اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اس موقع پر پولیس، فوج اور رینجرز
نے جس سرعت کے ساتھ کاروائی کی وہ بذاتِ خود قابلِ تحسین ہے اور دہشت گردوں
اور ملک دشمنوں کے لیے ایک کُھلا پیغام ہے کہ وہ اتنی آسانی سے حالات کو
اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے چاہے اُن کے ساتھ دشمن قوتوں کی پوری مدد بھی
ہو ۔ اُنہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ’’را‘‘ کا مقابلہ پاک فوج، پولیس
اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے عرصہ دراز سے کر رہے ہیں اور اب اس
کی تیار کردہ اور پالتو این ڈی ایس بھی اگرچہ اُس کے ساتھ شامل ہو گئی ہے
تاہم اب بھی وہ پاکستان کو شکست نہیں دے سکتے۔ اس بار تو ایک نوجوان خاتون
پولیس افسر سہانی عزیز نے بھی اُن کو بتا دیا ہے کہ اُن کے مقابلے لیے تو
پاکستانی خواتین ہی کافی ہیں۔دہشت گردی کے اس واقعے کا دوسرا پہلو بھی
انتہائی اہم ہے جس میں پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی
اس موقع پر چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے
کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔
پاکستان میں چینی سفارت خانے نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ پاک فوج اور پولیس
کے کردار کو انتہائی تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ جس طرح درست اور بروقت
کاروائی کی گئی اُس نے اس کوشش کو ناکام بنایا، اس بیان میں مزید کہا گیا
کہ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان ہماری حفاظت کی ذمہ داری بخوبی نبھا سکتا ہے
اور کوئی بھی ایسی دہشت گرد کاروائی جو پاک چین تعلقات کو خراب کرنے کے لیے
کی جائے گی وہ ناکامی سے دوچار ہو گی اور یہ کہ چین سی پیک کے منصوبے پر
کام جاری رکھے گا۔ چین کے اس دوستانہ رویے نے دشمن کو مزید پریشان ضرور کیا
ہوگا۔یہ سب درست کہ دشمن کو شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس بات
پر بھی توجہ ضروری ہے کہ ایک حساس علاقے تک دشمن کی رسائی کیسے ہوئی تاکہ
آئندہ اس قسم کے واقعات کو ہونے سے روکا جاسکے۔
|