راستے میں چلتے چلتے اگر کھائی آجائے تو انسان کو یہ
حق ہے کہ وہ اپنا رخ محفوظ راستے کی جانب موڑلے اسے یوٹرن نہیں‘ خود حفاظتی
تدابیر کہاجاتاہے لیکن عوام کے روبرو قسم اٹھا کر جو کی بات کی جاتی ہے اس
سے مکر جانا وعدہ خلافی ‘ جھوٹ بولنا اور ناقابل اعتبار ہوناکہلاتاہے ۔
ہمارے وزیر اعظم کے بقول یو ٹرن لینے والا شخص عظیم لیڈر کہلاتا ہے ۔ آج کل
بحث اسی موضوع پر ہر جگہ تبصرے ہورہے ہیں ۔ تحریک انصاف کو چاہنے والے
یوٹرن کے حق میں دلائل دے رہے ہیں بلکہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور
گورنر سندھ یہ فرما چکے ہیں کہ ہم تو زندگی میں کتنی بار یوٹرن لے چکے۔اس
بات پر یقینا مخالفین کو تنقید کرنے کا حق پہنچتا ہے ۔ مخالفین اسے تھوک کر
چاٹنا قرار دیتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ایک شخص نے چٹان کے دو الگ الگ ٹکڑوں
کی تصویر لگا کر نیچے لکھا کہ عقل مند انسان وہی ہے جو آنکھیں بند کرکے
چلنے کی بجائے یوٹرن لے لے ۔ ایک شخص نے کمنٹ کیا یہ یوٹرن نہیں بلکہ اپنی
جان بچانے کا محفوظ طریقہ ہے ۔ ایک اور واقعے کا ذکر یہاں بے محل نہیں ۔ایک
شخص ادھار لیے ہوئے پیسے واپس لینے گیا دوسرے نے یوٹرن لیتے ہوئے پیسے واپس
دینے سے انکار کردیااب یہ معاملہ تھانے تک پہنچ چکاہے ۔ایک شخص نے قائداعظم
ؒ کی مستقل مزاجی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ جب انہوں نے پاکستان بنانے کا
فیصلہ کرلیا تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اس پر تحریک انصاف کے چاہنے
والے نے جواب دیا کہ محمد علی جناح تو کانگریس میں شامل تھے انہوں نے
کانگریس کو خیر باد کہہ کر مسلم لیگ کو جوائن کرلیا ۔ یوتھیوکے مطابق یہ
بھی ایک یوٹرن تھا ۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اکثرکہاکرتے
تھے کہ جہاں سڑک پر یوٹرن آتا ہے وہاں سائن بورڈ لگانے کی بجائے عمران خان
کی تصویر لگادی جائے ۔ بقول بلاول زرداری عمران خان نے 100دنوں میں 350
یوٹرن لیے ہیں ۔انہوں نے الیکشن سے پہلے جو جو باتیں اور وعدے کیے تھے
اقتدار ملنے کے بعد عمل اس کے بالکل برعکس کیا ۔انہوں نے مہنگائی کے خاتمے
‘ بجلی گیس پٹرول کی قیمتیں کم کرنے اور آئی ایم ایف سے مدد نہ لینے کا
وعدہ بھی کیا تھا لیکن مہنگائی بھی ڈبل کردی ‘ بجلی گیس ‘ پٹرول اور ڈالرکی
قیمت میں یہ کہتے ہوئے اضافہ کردیا اور آئی ایم ایف کی دہلیزپر تحریک انصاف
کی حکومت سجدہ ریز ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں عمران خان نے کہاتھا شیخ رشید
تو میں چپڑاسی بھی نہ رکھوں‘ پھر یوٹرن لیتے ہوئے شیخ رشید کو ریلوے کا
وزیر بنادیا ۔ موصوف چوھدری پرویز الہی کو بھی بڑا ڈاکوقرار دیا کرتے تھے
کیونکہ ان کے وزارت اعلی کے دور میں عمران خان کو پنجاب یونیورسٹی سے
گرفتارکرکے ڈیرہ غازی خان کی جیل میں بندکردیاگیا تھااور جس اذیت ناک طریقے
سے انہیں لاہور سے ایک بکتر بند گاڑی میں ڈیڑھ غازی خاں لے جایا گیا اس سے
زیادہ تکلیف دہ سفر عمران خان کی زندگی میں کوئی نہیں ہوگا ۔ عمران خان نے
چوہدری پرویز الہی کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنادیا ۔ کہنے کو تو یہ بھی
یوٹرن ہی ہے ۔ ایک عالم دین نے یوٹرن پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت خوب بات کہی
کہ خالق کائنات نے جب انسانی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو اﷲ کے حکم سے فرشتے
مٹی لے کر آئے جب مٹی کے بنے انسانی پتلے میں روح پھونکی گئی تو اﷲ تعالی
نے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ تمام فرشتے سجدہ ریز ہو گئے لیکن
ابلیس نے یہ کہتے ہوئے جھکنے سے انکا ر کردیا ۔اس نے یوٹرن لیا اور شیطان
قرار پایا ۔اﷲ تعالی نے اسے قیامت تک مردود قرار دے کر جنت سے باہر نکال
دیا ۔ یادرہے کہ شیطان قرار پانے والا سب سے مقرب اور عبادت گزار فرشتہ تھا
لیکن غلط وقت پر یوٹرن لینے کی پاداش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شیطان بن گیا
۔ پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے بہت خوب کہا کہ جھوٹ یعنی اپنی بات/ وعدے سے
انحراف ہی یوٹرن کہلاتا ہے ۔ ولادت مصطفے ﷺ کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے
خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بار پھر کہا اگر میں یوٹرن نہ لیتا تو
شوکت خانم کینسر ہسپتال نہ بناتااور نہ ہی میں سیاست دان بنتا ۔اس میں شک
نہیں کہ عمران خان ایک مقبول عوامی رہنما ہیں ‘ان زبان سے نکلی ہوئی ہر بات
میں وزن ہونا چاہیئے ۔اگر عمران خان ہی اپنی بات سے پھرنے لگے تو کون ان کی
بات پر یقین کرے گا ۔وہ عالمی رہنماؤں سے جتنی بھی گفتگو کریں گے اس گفتگو
کا بھرم ریاست پاکستان کو ہر حال میں رکھنا پڑے گا ۔ایسا ہرگز ممکن نہیں
ہوسکتا کہ وہ کسی سے چھ ارب ڈالر قرض لیں اور بعد میں یوٹرن لے لیں ۔اس طرح
کی باتیں ملک اور ریاست کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں ۔ انہوں نے 20 مئی
2018ء کو ایک پریس کانفرنس میں اپنے 100 روزہ پلان کا اعلان کیا تھا ۔
پاکستانی قوم نے 100 پلان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی عمران خان کے امیدواروں
کو ووٹ دیئے کہ شاید ایک کروڑ نوکریاں ‘ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر ‘مہنگائی
کا خاتمہ ‘ بجلی گیس اورپٹرول کی قیمتوں میں کمی ہوجائے گی اور عوام کو سکھ
کا سانس ملے گا ۔اب جبکہ عمران خان کو وزیر اعظم بنے 100دن پورے ہوچکے ہیں
تو انہوں نے کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا بلکہ مسائل میں الجھی ہوئی
قوم کو نت نئے مسائل میں الجھاتے چلے جارہے ہیں۔اب جبکہ عوام کی جانب سے
وعدے پورے کرنے کا سوال اٹھنا تھا تو انہوں نے یوٹرن کی اصطلاح متعارف کروا
دی ہے ۔ اس کا مطلب تو یہی لیا جاسکتا ہے کہ 100 روز پلان بھی ایک یوٹرن ہی
تھاجو۔ رات گئی اور بات کے مصداق اپنے انجام کو جا پہنچا ۔ یہ پاکستانی قوم
کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ عمران خان کی بات کو سنجیدگی سے نہ لے کیونکہ ان
کی زندگی کے ہر موڑ پر یوٹرن کا سائن بورڈ لگا نظر آتا ہے جبکہ ان کے پیرو
کار بھی اپنے قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صبح کچھ اور شام کچھ اور دکھائی
دیتے ہیں۔ اگر یہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا کہوعمران خان یوٹرن لینے اور مکر
جانے کا فن خوب جانتے ہیں اور اسی فن کی بدولت وہ عظیم لیڈر کے روپ میں خود
کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پاکستانی قوم ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ
اگر جھوٹے ہی وعدے کرنے تھے تو پھر آپ ‘ زرداری اور نوازشریف میں فرق کیا
رہ جاتاہے ۔
|