تحریر: نور فائقہ، کراچی
رات کا وقت تھا، آسمان ستاروں سے جھل مل کر رہا تھا۔ ثمن کی نظریں ستاروں
کی جانب تھیں۔ کافی دیر سے وہ ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھ رہی تھی۔ کبھی مشرق
کی جانب ستاروں کو گھورتی تو کبھی مغربی ستاروں کو دیکھتی۔ ان میں ایک
ستارہ زیادہ چمک رہا تھا اور اپنی چمک کی وجہ سے دوسروں سے منفرد نظر آرہا
تھا۔ جب ثمن کی نظر اس پر پڑی تو اس کی خوبصورتی نے اسے اپنے سحر میں
جکڑلیا۔ وہ یک ٹک اس ننھے چمکتے تارے کو دیکھتی رہی ،وہ سوچ میں پڑگئی۔
’’ستارے تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں پھر اس ایک میں آخر ایسا کیا ہے جس نے اسے
دوسروں سے منفرد بنادیاہے‘‘، اس نے دل ہی دل میں سوچالیکن کوئی جواب نہ
پاکر سابقہ مشغلے میں مشغول ہوگئی اور نہ جانے کب نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
’’ثمن اٹھو بیٹا، صبح ہو گئی ہے اور اسکول کے لیے دیر ہو رہی ہے‘‘، امی نے
کچن سے آواز دیتے ہوئے کہا۔ امی کی مسلسل آواز سے ثمن کی آنکھ کھل چکی تھی۔
’’جی امی آئی‘‘، ثمن آنکھیں ملتے ہوئے بولی۔ ناشتہ تیار تھا اور میز پر لگ
چکا تھا۔ ثمن نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور اسکول روانہ ہوگئی۔مس نمرہ کا
پریڈ شروع ہوچکا تھا، مس نمرہ انگلش کی ٹیچر تھیں اور آج انہوں نے انگلش کی
نظم ’’شائیننگ اسٹار‘‘ پڑھانی تھی۔ وائٹ بورڈ پر ’’چمکتے ستارے‘‘ کا عنوان
دیکھ کر ثمن کو رات والا منظر یاد آگیا۔ ستارے ہی ستارے اس آنکھو ں کے
سامنے تھے۔ اسے اپنا سوال یاد آیا کہ آخر سب ستارے ایک جیسے کیوں نہیں ہوتے؟
’’اچھا تو یہ تھا ہمارا آج کا لیکچر، کسی کو کوئی سوال پوچھنا ہو تو پوچھے
سکتا ہے‘‘، مس نمرہ نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا۔ ثمن نے ہاتھ کھڑا کردیا،
’’جی پوچھیے کیا جاننا ہے؟‘‘، مس نے ثمن کو اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’میم! اﷲ
نے تو سب ستاروں کو ایک جیسے پیدا کیا ہے، پھر کیوں کچھ زیادہ چمکتے ہیں
اور کچھ کم ؟‘‘، ثمن نے کھڑے ہوتے ہوئے مودبانہ انداز میں سوال کیا۔
’’زبردست سوال، مس نمرہ نے مختصر کہا اور پھر جواب دینے لگیں۔
’’دیکھیے جیسے اﷲ نے سب انسانوں کو اعضا کے لحاظ سے برابر پیدا کیا ہے سب
کو دو آنکھیں، دو کان، دو پاؤں اور دو ہاتھ وغیرہ دیے ہیں۔ ان سب چیزوں میں
ان کو یکساں بنایا ہے لیکن ان کو ایک دوسرے سے منفرد کرنے کے لیے کسی کو
ذہین بنایا تو کسی کو تخلیق کار، کسی میں کوئی ہنر رکھا تو کسی میں کوئی
اور بالکل اسی طرح اﷲ نے سب ستاروں کو کچھ خصوصیات کی بنا پر یکساں
بنایااور کچھ میں ان کو مختلف کیا ایک دوسرے سے۔جیسے کچھ کم چمکتے ہیں اور
کچھ زیا دہ اور کچھ چھوٹے ہیں اور کچھ بڑے‘‘،مس نمرہ نے جواب دیا۔
’’تو کیا جو ستا رے زیا دہ چمکتے ہیں وہ کم چمکتے ستاروں سے بہتر ہوتے ہیں‘‘؟
،ثمن نے ایک بار پھر سوال کیا۔’’نہیں ،ہرگز نہیں۔دیکھیے ، غور کر یں تو
چمکتے ہوئے ستاروں کی چمک کا اندازہ ہمیں تب ہو تا ہے جب ان کے آس پا س کم
چمکتے ستار ے ہو،یہیں بات ان کو اہم بنا تی ہیں۔ہمارے ارد گرد کے لوگ ہی
ہماری پہچان ہوتے ہیں اور وہی ہمیں منفرد بناتے ہیں۔ کبھی ماں باپ کی صورت
میں ہماری حوصلہ افزائی کرکے اور ہماری پیٹھ تھپتھپا کر تو کبھی ایک اچھے
دوست کی طرح ہمیں گرتے ہوئے سنبھالتے ہیں۔ جیسے ہم اکیلے کچھ نہیں ہیں۔
ہمارے ارد گرد کے لوگ جب تک ہمارا ساتھ نہ دیں، ہماری حوصلہ افزائی نہ کریں
تب تک ہم بھی کامیابی کے آسمان پر نہیں جگمگا سکتے۔ بالکل اسی طرح ان تاروں
کو جو دور سے چمکتے دکھائی دیتے ہیں اپنے ارد گرد تاروں کی مدد سے ہی
انفرادیت حاصل کرتے ہیں‘‘ ،مس نمرہ نے جواب دیا۔’’واہ جی! ،زبردست‘‘،ثمن نے
مس نمرہ کے جواب پر کہا۔ثمن آج بہت خوش خوش گھر لو ٹی کیو ں کہ اسے اپنے
سوال کا جواب مل گیا تھا۔ |