باہمی تنازعات کا اسلامی حل

چیک ریبلک کے دارا لحکومت’’ پراگ‘‘ میں مسلمانوں کی متحدہ تنظیم’’ او آئی سی‘‘ Organisation of Islamic Cooperation پراگ برانچ نے حالیہ دنوں میں چیک وزارت خارجہ کے تعاون سے ایک انٹر نیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا Dispute Resolution and Conflict Mediation (جھگڑوں کا حل اور تنازعات میں ثالثی)۔اس کانفرنس میں 23ممالک کے سفیر اور 150ممالک کے نمائندگان نے خصوصی شرکت کی۔راقم کو بھی اس کانفرنس میں ’’پاکستان ایمبیسی چیک ریپبلک‘‘ کی طرف سے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اس موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ اس کانفرنس کے پہلے سیشن کی صدارت چیک ریپبلک میں تعینات پاکستان کے سفیر اور او آئی سی پراگ برانچ کے سربراہ جناب ڈاکٹراسرار حسین نے کی۔ ڈاکٹر صاحب کا خطاب بر محل اور فکر انگیز تھا۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں مسلمان دنیا میں پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ مسلمانوں کے باہمی تنازعات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ان کے پرامن حل پر زور دیا۔ خصوصی طور پر کشمیر اور فلسطین میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور ان تنازعات کو پر امن حل کی طرف توجہ دلائی۔ اس کانفرنس میں چیک ریپبلک کے وزیر خارجہ Tomas Petricek، کنگ عبداﷲ بین الاقوامی سینٹر آسٹریا کے سیکریٹری جنرل فیصل بن معمر، وزارت مذہبی امور عمان کے مشیر محمد سید المماری، مسلمان ممالک اور یورپ کی یونیورسٹیوں کے وائس چالنسلرز، پروفیسرز اور اعلی حکومتی عہدہ داروں نے شرکت کی۔راقم نے دیے گئے موضوع’’ اسلامی نکتہ نظر سے تنازعات کے حل ‘‘پر روشنی ڈالی جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ جس طرح ہم سب آگاہ ہیں کہ اس وقت دنیا میں مختلف ملکوں اور قوموں کے درمیان بے شمار تنازعات پائے جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ان تنازعات کا پر امن حل تلاش کرنے کی بجائے طاقتور ممالک اسلحہ کے زور پر کمزور قوموں کو دبوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔خصوصا امریکہ و یورپ ماضی قریب میں طاقت کا بے دریغ استعمال کر کے لاکھوں بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ ارچکے ہیں۔ اس حوالے سے مشرق وسطی کے کئی ممالک اور افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ طاقت کا استعمال کر کے دیگر حیوانات اور جمادات پر تو قابو پایا جا سکتا ہے لیکن انسانوں پر نہیں ۔ کیونکہ قدرت نے انسان کو وجود کے ساتھ ساتھ فکری توانائی، اخلاقی اقدار اور عقل وشعور کی نعمتوں سے بھی نوازا ہے۔ اسلام نے تنازعات کے حل میں باہمی ہم آہنگی، اخلاقی اقدار اور انصاف پسندی کو بہت ہی اہمیت دی ہے تاکہ ظالم ظلم سے رک جائے اور متاثرہ فریق کی دلجوئی ہو اور اسے انصاف ملے۔ یہی وہ انداز فکر ہے جس کے ذریعے معاشرے میں امن و آشتی کا دور دورہ ہو سکتا ہے۔اسلام کا مفہوم ہی امن و سلامتی ہے اور ہر طبقہ فکر کیلئے اسلام کی تعلیمات میں امن کا عالمگیر پیغام پنہاں ہے۔اسلام ذکر و فکر اور عبادات کے ذریعے انسانوں کی اصلاح احوال پر بھرپور توجہ دیتا ہے کیونکہ انسان کے قلب و ذہن میں سکون ہو گا تو معاشرہ بھی امن کا گہوارہ بنے گا۔خارج میں وقع پزیر ہونے سے پہلے تنازعات اور فتنوں کے بیج ان کے اندر بوئے جاتے ہیں جو تناور درخت بن کر معاشرے کو جہنم زار بنا دیتے ہیں۔ حضرت نوح، حضرت موسی، حضرت ابراہیم، حضرت عیسی اور حضرت محمدصلی اﷲ علیہم و سلم کی طرف بھیجی گئی الہی تعلیمات میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ انسانوں کو جینے کا ڈھنگ سکھانے اور معاشروں کو پر امن بنانے کیلئے تشریف لائے۔اس حقیقت کو ہر کوئی مانتا ہے کہ تنازعات کسی بھی نوعیت کے ہوں، خواہ خاندانی ہوں یا معاشرتی، سیاسی ہوں یا مذہبی، ملکوں کے ملکوں سے ہوں یا قوموں کے قوموں سے وہ سماج کے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسانیت بے چینی میں سسکتی ہے اور پریشانیاں بڑھتی ہیں۔قرآن عزیز نے بنی نوع انسان کا بہت وسعت اور گہرائی کے ساتھ ذکرکر کے عظمت انسانیت کو بیان کیا ہے۔ قرآ ن حکیم میں ارشاد ہے کہ ''ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کی نسل کو عزت و شرف سے نوازا ہے۔ (سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 70)۔اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ محبت و مساوات کی بنیاد پر ایک آفاقی معاشرے کی تشکیل ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کا یکساں احترام کیا جائے۔ اسلام عالم انسانی کیلئے امن کا مذہب ہے جو اقوام کے اتحاد کی بجائے بنی نوع انسان کے اتحاد کاعظیم داعی ہے۔ دراصل انسان کی بقا کا رازانسانیت کے احترام میں ہے اور جب تک دنیا کی تمام با اثر قوتیں اپنی توجہ کو احترام انسانیت پر مرکوز نہ کردیں یہ دنیا بدستور درندوں کی بستی بنی رہے گی۔پہلی جنگ عظیم کے بعد جب جنیوا میں ’’لیگ آف نیشنز‘‘ یعنی’’ جمعیت اقوام‘‘ کی بنیاد رکھی گئی تو اس موقع پر علامہ اقبال رح نے فرمایا تھا کہ
اس دَور میں اقوام کی صحبت بھی ہُوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریقِ مِلل حکمت ِ افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصو د فقط ملّتِ آدم
مکّے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام جمعیّت ِ اقوام کہ جمعیّت آدم!

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو انصاف پسندی کی تلقین کی ہے۔ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ساری زندگی شاہد عادل ہے کہ تنازعات کے پرامن حل کی ہر ممکن کوشش فرمائی۔ آپ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں اسلامی محققین و مجتہدین نے ابتدائے اسلام سے ہی باہمی جھگڑوں اور تنازعات کے حل کیلئے جامع فقہی و عدالتی قوانین تشکیل دیے۔سیرت النبیﷺ میں کئی واقعات موجود ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فسادات اور تنازعات کا قلع قمع کرکے معاشرے میں امن و امان کی فضاء قائم فرمائی۔ ایک واقعہ یہاں عرض کرنا مناسب سمجھوں گا کہ نبی کریمﷺ کے اعلان نبوت سے قبل قریش مکہ نے خانہ کعبہ شریف کو شہید کرکے دوبارہ تعمیر کیا۔ تعمیر مکمل ہونے کے بعد حجر اسود کو نصب کرنے کا موقع آیا تو ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ چار بڑے قبائل میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ یہ اعزاز اسی کے حصے میں میں آئے۔ جب معاملہ طول پکڑ گیا تو ایک تجویز آئی کہ ’’کل صبح جو سب سے پہلے حرم مکہ میں داخل ہو گا وہی حجر اسواد دوباری نصب کرنے کی سعادت پائے گا‘‘۔ اﷲ کا کرنا ایسا ہوا کہ اگلے دن سب سے پہلے حرم شریف میں تشریف لانے والے محمد ﷺ تھے۔ اب معاہدے کے مطابق آپﷺ کا حق تھا کہ خود ہی حجر اسود کو نصب فرما دیتے۔ لیکن اس تنازعے کے مستقل حل کیلئے آپ نے حکمت و دانائی سے بھرپور طریقہ اختیار فرمایا۔ آپﷺ نے ایک چادر منگوائی۔ اس میں پتھر رکھوایا۔ چاروں بڑے قبائل کے سرداروں کو کہا کہ آپ اس چادر کے چاروں کونے پکڑ کر حجر اسود کو اوپر اٹھائیں۔ چنانچہ انہوں نے چادر اوپر اٹھائی اور حضور نبی کریمﷺ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب فرما دیا۔ اس طرح دانشمندی اوردور اندیشی سے اس الجھے ہوئے تنازعے کو احسن انداز میں سلجھا دیا گیا۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218337 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More