مسلمان اور یقین محکم

سب کچھ اللہ سے ہوتا ہے۔ اللہ کے سوا غیر سے کچھ نہیں ہوتا۔ دعوت کے کام کو کرتے کرتے مرنا ہے۔ اور مرتے مرتے کرنا ہے۔ حاجی عبدالوہابؒ اپنے بیان میں ان فقرات کو بار بار دہرایا کرتے تھے۔ حکومت سے کچھ نہیں ہوتا۔ صدارت سے کچھ نہیں ہوتا۔ وزارت سے کچھ نہیں ہوتا۔ شہرت سے کچھ نہیں ہوتا۔ دولت سےکچھ نہیں ہوتا۔ تجارت سے کچھ نہیں ہوتا۔ سب کچھ کرنے والی ایک اللہ تعالی ٰ کی ذات اقدس ہے۔

ساری زندگی اسی توحید کی دعوت میں کھپا دی اور انکی زندگی اسی توحید کی عملی زندگی کا بہترین مثالی نمونہ تھی۔ کئی لوگوں نے بڑی بڑی گاڑیاں پیش کیں۔ ایک سرمایہ دار نے اپنا جہاز پیش کیا۔ ہمیشہ شکریہ کے ساتھ انکار کیا۔ ایک دفعہ ایک وزیر ِاعظم نے بہت بڑی رقم پیش کی۔ فرمایا ہمیں پیسے نہیں وقت چاہئیے۔ آپ یہ رقم اپنے پاس رکھیں اور جماعت میں وقت لگائیں۔ وزیرِ اعظم بار بار اصرار کرتا۔ حاجی صاحب ہر بار وقت کا مطالبہ کرتے۔ وزیر ِاعظم حاجی صاحب کے بار بار انکار کے بعد کہنے لگا۔ حاجی صاحب یہ رقم لے لیں۔ میرے بعد کوئی اتنی بڑی رقم دینے والا آپ کو نہیں ملے گا۔ حاجی صاحب نے فرمایا۔ بھائی جماعت میں وقت لگا کر دنیا و آخرت سنوار لو۔ میرے بعد تمہیں بھی اتنی بڑی رقم ٹھکرانے والا نہیں ملے گا۔ ہم سب نے پڑھا اور بارہا علماء اکرام سے سنا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں اس دنیا کی قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ حاجی صاحبؒ کےاس پہ پختہ یقین کو پوری دنیا کے انسانوں کے لئیے راہنمائی کا درجہ حاصل ہے۔ پوری دنیا کے لئیے قابل ِتقلید ہے۔
رات کے پچھلے پہر جب سب لوگ سوئے ہوتے تو مرکز کے ٹوائلٹ خود جھاڑو اور لوٹا لیکر اپنے ہاتھوں سے صاف کیا کرتے۔ نبی اکرم ﷺ کے طریقے میں دونوں جہاں کی کامیابی کا اس قدر یقین کہ ساری زندگی نبی اکرم ﷺ کی اتباع سنت میں گزاری۔ اور ساری زندگی اسی کی دعوت دی کہ اے لوگوں دونوں جہاں کی کامیابی اتباعِ محمد ﷺ میں ہے۔ انکی قبر سے خوشبو کا آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی ٰاپنے بندوں کو مشاہدہ کراتے رہتے ہیں۔یہ ہیں میرے بندے ،جنہوں نے میری اور میرے حبیب کی محبت کا دم بھرنے کے ساتھ میری اور میرے رسول کی اطاعت میں زندگی گزاری ہے اور یہی صرات ِمستقیم پہ چلنے والے لوگ ہیں۔ حاجی صاحب ؒ کی قبر سے آنے والی خوشبو ان فتنوں کے زمانے میں عام مسلمان کے لئیے راہنمائی کا درجہ رکھتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں آج مسلمانوں کا ڈیڑھ ارب تعداد میں ہونے کے باوجود پورے عالم میں( بے وقعت سچی بات یہ ہے کہ) ذلیل و خوار ہونے کی کوئی اور وجہ نہیں ہے کہ مسلمان نبی اکرم ﷺ کے طریقوں کو چھوڑ کر غیروں کے طریقوں میں کامیابی سمجھتے ہوئے غیروں کے طریقے پہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اور یہی ذلت و رسوائی کا اصل سبب ہے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسمان نے ہم کو دے مارا

عورت کو اللہ رب العزت نے کیا عالی شان عظمت عطا فرمائی۔ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہےاور عورت نے ائیر ہوسٹس بنکر غیر محرم مردوں کے جھوٹے برتن اٹھانے پہ اپنے آپ کو لگا دیا۔ جوتے کی مشہوری، کپڑے کی مشہوری،گاڑی اور موبائل فون کی مشہوری حتیٰ کہ ڈیزل اور پٹرول کی مشہوری کے لئیے عورت نے ننگے بدن سائین بورڈ اور ٹیلی وژن کی زینت بن کر بدن فروشی کےبدترین د ھندے میں اپنی کامیابی سمجھ لی۔ موسم ِسرما میں بھی عورت کو اپنے جسم کو ننگا رکھنا ضروری جانا۔اسکرٹ سے منی اسکرٹ عام ہوا۔ اور اب اس کی تقلید مسلمان معاشرے میں عام ہے۔ ہم پاکستان میں دوکاندار سے اپنی بچیوں کے لئیے پورے بازوؤں والی قمیض دکھانے کا کہتے ہیں تو دوکاندار پریشان ہوکر کہتا ہے کہ لوگ ہم سے مزید بازو کو چھو ٹاکرنے کو کہتے ہیں اورآپ پورے بازو کا مطالبہ کرتے ہیں۔ برقع پہننا دقیانوسی عمل سمجھا جاتا ہے۔ شرم حیا کی آخری نشانی دوپٹہ سر سے غائب ہو چکا ہے۔ چاند رات، مہندی ، ویلنٹائین ڈے کے نام پہ مخلوط محفلیں سجا کر بے حیائی کو اس طرح اپنایا گیا ہے کہ یورپ والے بھی شرما جائیں۔

مولانا الیاس ؒکے صاحبزادے مولانا یوسف ؒ فرمایا کرتے تھے کہ سب سے پہلے عملی ارتداد آتا ہےپھر اعتقادی ارتداد اور پھر آخر میں لسانی ارتداد آتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی نے سود پہ گھر خریدا یا سود پہ قرض لیکر کاروبار شروع کیا تو یہ عملی ارتداد ہے۔ سود اللہ سبحانہ وتعالی ٰاور اسکے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اب اس میں فائیدہ جاننا اعتقادی ارتداد ہے۔ اور پھر اس فائیدہ کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا لسانی ارتداد ہے۔ پورے عالم ِاسلام میں سودی کاروبار زور شور سے جاری ہے۔ لاٹری جوے کی بدترین شکل ہر اسلامی ملک میں رائج ہے۔ پاکستان میں کرکٹ پہ اربوں روپے کا جوا کھیلا جاتا ہے۔ اکثر اسلامی ممالک میں فٹ بال پہ جوا عام ہے۔

مجھے کہا گیا ہے کہ یورپ میں نوجوان نسل کو درپیش چیلنجز پہ لکھوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یورپ ؛ایشیاء، امریکہ؛ آسٹریلیا، افریقہ جہاں بھی مسلمان بستے ہیں۔ عورت ہے یا مرد ہے۔بچہ ہے بوڑھا یا جوان ہے۔ ہر جگہ کے سب مسلمانوں کا ایک ہی مسلۂ ہے۔ دیگر سب چیلنجز اسی مسلۂ کی وجہ سے ہیں۔ وہ یہ ہے۔ کہ اللہ تعالی ٰسے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین۔ نبی اکرم ﷺ کے طریقے میں دونوں جہاں کی کامیابی کا یقین اور غیروں کے طریقے میں دونوں جہاں کی ناکامی کا یقین۔ اس یقین میں گڑ بڑ اصل خرابی اور مسلۂ ہے۔ یہ صرف زبان کے الفاظ رہ گئے ہیں۔ ہم نے دلوں میں کئی بت پال رکھے ہیں۔ کہیں حکومت کا بت ہے۔ کہیں شہرت کا بت ہے۔ کسی دل میں ٹیکنالوجی کا بت ہے۔ امریکہ کی دوستی کا بت ابھی قائم ہی ہے کہ چین کی دوستی کا بت وجود میں آ چکا ہے۔ اللہ تعالی ٰ کی ذات عالیہ اور نبی اکرم ﷺ کی ذات مقدس بس برکت کے لئیے رہ گئی ہیں۔ دل کا یقین اغیار سے لبریز ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالی ٰ کو حاضر وناظر جا ن کر دل پہ ہاتھ رکھ کردیانت داری کے ساتھ جو بھی سوچے گا میرے ساتھ متفق ہوگا۔ وگرنہ شیطان کے پاس بہت تاویلیں ہیں۔

آج کا مسلمان اگر اپنا یقین ٹھیک کر لے تو سارے چیلنجز خود بخود حل ہو جائیں گے۔ سارا بگاڑ یقین کے بگاڑ کی وجہ سے ہے۔سارے چیلنجز اسی یقین کے بگاڑ کی وجہ سے در پیش ہیں۔ اور تبلیغی جماعت کے نام سے دعوت و تبلیغ کی محنت اسی یقین کوبنانے کی محنت ہے۔ صحابہ اکرامؓ فرمایا کرتے تھے۔ پہلے ہم نے ایمان سیکھا پھر ہم نے قرآن سیکھا۔ اور پھر اللہ ر ب العزت نے مکہ سے نکالے گئے توحید پرستوں کو ایسا عروج بخشا جسکا آج بھی زمانہ گواہ ہے۔ فرمایا میرے دائیں ابوبکر ؓ ہو ں گےبائیں عمرؓ ۔ اور شیطان عمر ؓ کو دیکھ کر راستہ سے بھاگ جاتا تھا۔ کتنے دشمنوں نے بغیر جنگ کیئے علاقے خالی کر دئیے۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
ہم رسوا ہوئے تارکِ قرآن ہو کر

یہ صرف اسی یقین کی وجہ سے تھا۔ آج کا نوجوان مسلم اپنے چہرے پہ نبی اکرم ﷺ کی سنت داڑھی سجائے اور بدن پہ سنت محمدی کی مطابق لباس پہنے کامیابی کے سچے یقین کے ساتھ یورپ کے بازاروں میں گھومے گا تو یقیناً آسمان پہ اس کے تذکرے ہونگےاور جو بہن شرعی پردے کے مطابق حجاب و جلباب پہن کر دونوں جہاں کی کامیابی کے یقین کے ساتھ اہلِ کفر میں زندگی گزارے گی یقیناً جنت میں اس کے لئیے محل تیار ہو رہے ہونگے۔ چیلنجز صرف اور صرف یقین کے بگاڑ کا نام ہے۔ یقین کے بگاڑ کی وجہ سےاعمال کرنے میں کاہلی ،سستی کے بعد بد اعمالی مقدر بنتی ہے۔ اور جو دعوت و تبلیغ کی محنت میں لگے گا اللہ سبحانہ وتعالی اسکواس دنیا میں بھی چمکائیں گے اور آخرت میں بھی۔امام احمد بن حنبل ؒ فرمایا کرتے تھےہمارے جنازے ہماری پہچان بنیں گے۔ کوئی شخص بتائے کہ حاجی عبدالوہاب مرحوم نے کبھی کوئی پریس کانفرنس کی ہو۔ کبھی ٹی وی پہ کوئی انٹر ویو دیا ہو۔ کوئی اخباری بیان یا کوئی ہی عمل اپنی شہرت کے لئیے کیا ہو۔ ساری زندگی گمنامی میں تبلیغی مرکز رائے ونڈ کی طرف سے دئیے گئے ایک کمرے میں گزار دی۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی ٰ نے اپنے فضل وکرم سے پاکستان کی تاخیر کا سب سے بڑے جنازےوالا بنا دیا۔ اللہ سچا اور اللہ کے وعدے سچے۔

Chaudhry M Zulfiqar
About the Author: Chaudhry M Zulfiqar Read More Articles by Chaudhry M Zulfiqar: 18 Articles with 18411 views I am a poet and a columnist... View More