ذکر اُن دنوں کا

یہ اُن دنوں کی بات ہے اور اُن دنوں کی کیا بات ہے کہ جب پڑھائی کے علاوہ نہ کوئی فکر نہ بناوٹ کا کوی ذکر اور اگر کوی پریشانی ہو تو بس یہ کہ دس دن سے مراقبہ میں بیٹھی مرغی کے تلے انڈوں سے بچے نہ نکلے
جنہیں نکلنا ہے نہیں پہلے
نکلنا بھی اکیس دن ڈھلے
اور اُن کا یہ نہ کہنا کہ "کیوں نکلے"
نیلے گگن کے تلے

اُن دنوں کے بارے میں کسی نے خوب کہا ہے

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغز کی کشتی وہ بارش کا پانی

اور اُن معصومیت کے دنوں میں بھی محبت ہو ہی جایا کرتی ہے بلا سوچےسمجھے
پہلی محبت شائد مجھے چوتھی جماعت میں اپنی اسکول کی مِس سے ہو گئ تھی جو کلاس ٹیچر تھی مگر وہ کچھ مختلف سی اُنسیت ہو جاتی ہے لیکن اُن دنوں چھٹی میں بھی اسکول جانے کا دل چاہتا تھا ورنہ تو چھٹی کا انتظار رہتا تھا وہ کب ختم ہوی یاد نہیں پھر اور بڑے ہوے تو یہ سلسلہ رُکا نہیں اور ہم اُس وقت دل ہی دل میں خاموشی سے کرتے تھے اور ہمارے ایک عزیز اُس وقت بھی کسی کی دیوار پھلانگ جاتے تھے اور ہم چار دیواری کے اندر ۔ شاید اس وقت بھی محبوب کی رُسوای کا خیال ہوتا تھا جبکہ مزکورہ ہم عمر عزیز خاندان کی رُسوای سے بھی بے نیاز سے ہوتے تھے
اور ہمارا یہ حال کہ

تیری رسوایوں سے ڈرتا ہوں
جب تیرے شھر سے گزرتا ہوں

اس عمر میں بھی کچھ آیسا تجربہ ہوا کہ کچھ محبتیں جسمانی اور کچھ روحانی ٹایپ ہوتی ہیں

جسمانی محبت جب تک رہتی ہے جب تک جسم موجود ہو اور روحانی تو تا حیات بلکہ بعد الممات
اور ایک محبت تو مجھے ایسی ہوی کہ وہ تو شروع ہی جب ہوی جب محبوب حیات ہی نہیں تھا اور وہ ایک کتاب کا مصنف تھا کیونکہ روحانی محبت میں صنف مخالف ہونے کی قید نہیں
اور پھر ایک ہم عمر سے ہوی جو روٹھ کر بھی اچھی لگتی اور میں اُسے چھوٹ کر بھی اچھا لگتا جب کبھی ساتھ چھوٹتا اور ٹوٹ کر اچھا لگتا کافی دن رہی پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے کہ
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اب بھی دلکش ہے تیرا حُسن مگر کیا کیجیے
ہیں اور بھی دُکھ زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ

ایک لیکچر سُنا کہ جس میں بتایا گیا کہ اگر کوی محبت سے مغلوب اس طرح ہو جاے کہ گھر کا رہے نہ گھاٹ کا تو اُن کی سائنس کے مطابق 40 دن رابطہ کا منقطع ہونا ضروری ہے پھر ختم ہوتی ہے اگر اس سے نکلنا چاہے کیونکہ اس کا خطرہ ساری عمر ہی رہتا ہے
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بات صرف ہمدردی سے شروع ہوتی ہے اور اُنسیت سے ہوتی ہوی پیار میں بدل جاتی ہے اور اگر یہ پیار قانونی شکل اختیار کر جاے تو پھر نقشہ کچھ یوں بنتا ہے

رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا سامان ہو گئے
پہلے جان پھر جانِ جان پھر جانِ جاناں ہو گئے

آپ تو نزدیک سے نزدیک تر آتے گئے
پہلے دل پھر دلربہ پھر دل کے مہمان ہو گئے

لیکن پھر دونوں ایک دوسرے کے خان ساماں ہو گئے
ہستی کا ساماں بس یہی ہو کر رہ جاے کہ روٹی پکای جاے اور کھلای جاے اور صفحہ ہستی پر دو خاموش وجود مخالف سمتوں میں منہ کیے ہوے اور ایک بول بھی رہا ہو تو دوسرا سُن کر بھی نہ سُن رہا ہو

ہستی کے ساماں تک بات رہتی نہیں اور روماں بڑھتے بڑھتے کنبہ بڑھ جاتا ہے اور ایک بستی کا ساماں بن جاتا ہے اور مزید رومانوی تشدد پر آمادہ ہو کر کُنبے کو مزید بڑھا کر سیاست دانوں کے لیے ووٹر کی تعداد بڑھاتا رہتا ہے اور حکومت میں آکر کہتے ہیں دو ہی اچھے اور خود کے بارہ میں سے دو ہی اچھے جبکہ سیاست دانوں میں ایک ہی اچھا نکل آے تو بات بن سکتی ہے

ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ تصوف کیا ہے
تو جواب ملا
"کامیاب ازدواجی زندگی"

بعض خوش نصیبوں کو خُدا کے ذکر سے محبت ہو جاتی ہے اور ایسی محفلوں سے لگاو پیدا ہو جاتا ہے جہاں ذکر ہوتا ہے اور ایسی محویت میں داخل ہو جاتے ہیں کہ پھر اُنہیں کسی چیز سے محبت نہیں رہتی اور اگر کسی انسان سے محبت کرتے بھی ہیں تو کسی اور کی محبت میں اور وہ یہی کہتے ہیں

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں
کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں

صد شکرکہ اپنی راتوں میں

اب ہجر کی کوی رات نہیں

اور ان کے بارے خُدا نے بھی یہی کہا ہے

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ

جو اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوے الله کو یاد کرتے ہیں

 

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 262383 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.