میری کزن نے مجھ سے کسی تحریر کے بارے میں سوال کیا کہ وہ
جو آپ نے ایک محبت کا زکر کیا ہے وہ کہیں وہ والی تو نہیں جو ۔۔۔۔۔۔
میں نے "ایک "محبت پر اعتراض کیا کہ ایک تو ہوئی ہی نہیں اور دوسرا یہ کہ
کسی serious lover سے پوچھو serial lover سے کیا پوچھنا اور اب کیا پوچھنا
اب تو شاعری اور تحریر سے ہو گئ ہے اور اس محبت میں بھی فراق اور وصل دونوں
ہی آتے ہیں مگر ایک فرق ہے کہ حُسن کی تعریف کے ساتھ تنقید بھی ہوتی ہے
میرا مطلب حُسنِ تحریر سے ہے اور اس میں بھی انسان کھو جاتا ہے مصنف بھی
اور قاری بھی جیسے دو محبت کرنے والے تھوڑی دیر ہی سہی
اور تعریف کے ساتھ کچھ تنقید بھی اچھی لگتی ہے اور کچھ لوگوں نے بڑی حوصلہ
افزای کی خاندان میں اور دوستوں میں اور پھر اتفاق سے ایک اون لاین ادبی
گروپ میں متعارف ہوا
وہاں کچھ کمنٹ یاد رہ گئے
جیسے
ایک جملہ تھا میری تحریر میں کہ " اور اُس محبت میں سماجی مجبوریاں آگئی
تھیں اور جُدائی ہو گی"
اس پر کمنٹ آیا خاتون کا
آگ لگے ایسی مجبوریوں کو
شاعری پر واہ واہ بھی اور یہ بھی کہ
خاصا بے وزن ہونے کے باوجود وزن دار ہے
یا قاری کو محو رکھنے کا فن جانتے ہیں آپ
اور ایک یہ کہ
آپ قاری کو لفظوں پر بٹھا کر ساری دنیا کی سیر کراتے ہیں اور آخر میں نماز
پڑھا دیتے ہیں
اس پر میں نے کہا کہ میں کیا نماز پڑھاوں گا کسی کو
اور اقبال نے شائد مجھ جیسوں کے لیے ہی کہا تھا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا
تجھے کیا ملے گا نماز میں
اور آج کل تو محبت میں بھی تشدد کا عنصر غالب ہوتا جا رہا ہے کہ جس سیاست
دان سے محبت ہوتی ہے تو مخالف امیدوار یا ووٹر سے بحث سے بات شروع ہو کر
دشمنی تک جا پہنچے
اور قوم دو محبتوں میں مبتلا ہو چکی ہے اور اختلاف راے رکھنے میں کوی قباحت
نہیں مگر قوم کا تقسیم ہونا پسندیدہ نہیں ہوتا غالباً اور میں بھی ایک
سیاست دان کو پسند کرتا ہوں اور اس کے کاموں کی وجہ سے کرتا ہوں اور یہ
سیاسی شعور پہلی دفعہ کب آیا اور کہاں سے آیا اس کی کچھ جھلک نویں جماعت
میں محسوس ہوی جب اسکول میں ایک دفعہ ہم متحد ہوے اور وہ بھی میری لیڈرشپ
میں جب ہمارا سیکشن تبدیل کر دیا گیا اور بہت سے دوست بچھڑ گئے اور میں نے
اور ایک دوست نے جو خوش و خرم رہنے والا تھا اور نام بھی خرم تھا اور آج کل
کسی انگریز ملک میں خوش رہنے کے بجاے ہیپی رہتا ہے اور اسکول کا نام بھی
ہیپی ہوم تھا ہم دونوں نے اصطفی دے دیا کہ ہمیں پریفیکٹ بنایا گیا تھا اور
ہمیں سیاست میں پرفیکٹ ہونا تھا یہ بھی سُنا ہوا تھا کہ
جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مگر ہمیں تو چنگیزی کرنی تھی اور بات انگریزی کرنی تھی کیونکہ انگریزی
اسکول تھا
۔ پوری کلاس نے مزاحمت کی اس اقدام کی جو ہمیں جدا کر دیا گیا تھا اور اپنا
احتجاج رکوڑد کرایا اور ایک دوست اپنا ذاتی اثر رسوخ استعمال کرتے ہوے
فوراً تبادلے میں کامیاب و کامران ہوا جس کا نام بھی کامران تھا
پھر جب عملی زندگی میں قدم رکھا اور ایک کاروبار سے منسلک ہوا تو ان لوگوں
نے مجھے اپنی ایسو سیےشن کا وایس چیئرمین بنا دیا اور قدرت نے کچھ اچھے کام
کروا دیے مجھ سے جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوے تھے اور انہوں نے تاحیات رہنے
کی پیشکش کی مگر میں نے عزت کے ساتھ رُخصتی کو تر جیح دی مگر مجھے اس چھوٹے
سے فورم پر بڑی سیاست کی جھلکی نظر آی اور باہمی اختلاف کے ہونے کے باوجود
سب کو ساتھ لے کر کس طرح چلا جاتا ہے اور اگر نیک نیتی سے دوسروں کی خدمت
کا ارادہ ہو تو کس طرح غیبی مدد آتی ہے
بات محبت میں تشدد کی ہورہی تھی تو ایک معصوم تشدد بھی دیکھا میں نے ایک
بچی جو اپنے والد کی گُڑیا تھی اور اُن سے محبت میں اُن کے بال نوچنے لگتی
کہ دفتر کیوں جا رہے ہو اور وہ معصوم والد مسکراتا رہتا کہ اُس کو بھی محبت
تھی
اس کے والد تو تھے ہی محبت کے آدمی وہ تو ہر انسان سے کرتے تو اس سے تو کچھ
زیادہ ہی کرتے اور آدمی کچھ ایسے ہی تھے جو کہتے تھے
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے
مگر وہ ہمارے جیسے نہیں تھے
جو آدمی نیند کی گولیاں کھا کر بدستور کام کرتا رہے وہ ہمارے جیسا کہاں ہو
سکتا ہے جب جیب میں ہاتھ ڈالے تو بغیر گِنے دے دے اور سامنے کوی اپنا یا
پرایا اور جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے اپنی جایداد سے دستبردار ہو جاے وہ
ہمارے جیسا کہاں ہو سکتا ہے اور جب اُن کے دنیا سے جانے کے بعد ان کے گھر
والوں نے اعلان کیا کہ کسی کا اُن کی طرف کچھ نکلتا ہو تو ہمیں بتا دے اُس
پر ایک آواز آی کہ انہوں نے لینا ہی لینا ہو سکتا ہے دینا تو کسی کا نہیں
ہو سکتا
اور اُن کا نام آج بھی "باقی "ہے
لیکن اس محبت پر اُن کی والدہ ناراض ہوتی تھیں کہ اس کو بگاڑ رہے ہیں آپ
اور اب وہ اپنے شوہر سے بھی ویسی ہی محبت کرتی ہے بلکہ اس کے پورے خاندان
سے اور اب تو اُن کے گھر میں بھی ایک گڑیا آگی ہے اور سب کی توجہ کا مرکز
بن گئ ہے اور اس ننھی پری سے محبت میں لڑای ہوتی ہے کہ کون زیادہ کرتا ہے
اور پہلے والی اُن کی گڑیا زرا بڑی ہو گئ ہے
اور ایک گڑیا اور تھی اپنے والد کی اور وہ اپنے دادا کی خاص گڑیا تھی اور
سارے خاندان کی گڑیا تھی مگر وہ اپنے خاندان کے علاوہ بھی کسی سے محبت کرتی
تھی جو اس کی اپنی بلّی تھی اور اس کی دادی بھی اس کی وجہ سے بلّی سے اتنی
زیادہ محبت کرنے لگی تھیں جو شائد اپنے بچوں سے بھی نہ کی ہو
کسی کو اپنے مسلک سے یا اپنی برادری سے اتنی محبت ہو جاتی ہے کہ جتنی شاید
خدا سے ہونی چاہیے اور جس سے محبت ہو اس کا ذکر بھی ہوتا ہے اور خدا نے بھی
شاید اسی لیے کہہ دیا
الله کا ذکر اس طرح کرو جیسے اپنے باپ دادوں کا کیا کرتے ہو بلکہ اس سے
بھی زیادہ ذکر
|