امریکا کی ریسرچ یونیورسٹیوں کے حالیہ جائزہ رپورٹ میں یہ
واضح کیا گیا ہے کہ دیندار حضرات میں شرح بیماری کم ہے اور ان کے اندر قوت
ِدفاع دوسروں کے بالمقابل زیادہ ہے، ہائی بلڈ پریشر کا شکار عمومی طور پر65
سال کی عمر والے حضرات ہوتے ہیں لیکن دیندار حضرات میں یہ تناسب 40 فیصد کم
ہے،واضح رہے کہ بلڈ پریشر عمومی طور پر دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے اور
ان حالات میں دماغی رگوں کے پھٹنے کا امکان زیادہ بڑھ جاتا ہے، ڈاکٹرہارولڈ
کہتا ہے: ’’ہمیں پور ایقین ہے کہ اسلام میں نماز اور دیگر شعائر کی ادائیگی
کا حکم ایک مثبت اور درست حکم ہے جس کے بہتر اور صحت افزا اثرات انسانی جسم
پر نمودار ہوتے ہیں اور عام لوگوں کے مقابلہ میں دیندار حضرا ت بیماریوں کا
کم شکار ہوتے ہیں۔"
اس تحقیقی رپورٹ کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ امریکی یونیورسٹیوںکی
خالص علمی و تحقیقی ریسرچ کمپنیوں نے اس کا انکشاف کیا ہے اور ایسے معاشرہ
میں یہ بات سامنے آئی ہے جو خالص مادی ہے، جو محسوسات سے ماوراء چیزوں کو
نہیں دیکھتا، پھر ایسے ماہرین و محققین نے اعتراف کیا ہے جو خالص عالمی
بنیادوں کو اپنا معیار بناتے ہیں، اور پھر ایسے زمانے میں جب کہ مادیت کا
ہر طرف غلبہ ہے اور لوگ روحانی افلاس کا شکار ہیں۔
زمانہ قدیم سے طب اور علاج مذہب اور دین سے جڑے ہیں لیکن امراض سے شفا حاصل
کرتے پنڈتوں اور کاہنوں کے پاس جاتے اور وہ روحانی پیشوا کچھ خاص طریقوں سے
ان کا علاج کرتے اور یہ طریقہ بابل، کلادن، اور آشوریوں کے یہاں رائج تھا،
مصر اور ہندوستان میں زمانہ قدیم ہی سے تعویذ اور گنڈوں کا استعمال عام تھا،
یونانیوں کے یہاں علم طلب دیندار طبقہ کے ساتھ خاص تھا، مریض عبادت گاہوں
کا چکر لگاتے، کاہنوں کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ بحالت خواب مرض و علاج
کی تشخیص کرتے ہیں۔
ماضی کا انسان امراض اور اسباب علاج کو دین و مذہب سے جوڑے ہوتا تھا لیکن
آج مغربی و مادی تہذیب میں گھل مل کر انسان اس سے بالکل غافل ہوچکا ہے اور
بے شمار لاعلاج امراض میں گھر کر بھی دین و اخلاق اور اعلیٰ اقدار سے کوسوں
دور ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان بے شمار جسمانی اور نفسیاتی امراض میں گھر گیا
ہے یہ بیماریاں ان معاشروں میں بکثرت ہیں جو مادیت میں غرق ہیں اور فضائل
واخلاق سے بہت دور، آج خطرناک ترین بیماریوں کے گراف بڑھتے جارہے ہیں، ایڈز،
منشیات کی لت، دل کی بیماریوں، دورے اور شوگر جیسی مہلک بیماریاں عام ہورہی
ہیں، ایک جائزہ کے مطابق 10فیصد امریکی عوام نفسیاتی امراض میں مبتلا
ہیں85فیصد لوگ ذہنی و دماغی الجھنوں کا شکار ہیں، شفاخانوں میں50فیصد سیٹیں
ایسے مریضوں کیلئےخاص ہیں جو ذہنی و دماغی امراض میں مبتلا ہیں۔
گزشتہ ادیان کے ماننے والے علاج و معالجہ کا رشتہ مذہب و دین سے جوڑے ہوئے
تھے جبکہ مذاہب انسانوں کے خود ساختہ تھے۔ آسمانی مذاہب اس کے زیادہ اہل
ہیں کہ دوا علاج کو مذہب سے جوڑیں، دین اسلام جو ہر طرح کی تحریف و تاویل
سے پاک و مبرا ہے اس پر یہ ذمہ داری مزید عائد ہوتی ہے جبکہ سورۂ حجر کی
آیت9میں ارشاد ہے ’’ إِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّكْرَوَإِنَّالَهُ
لَحَافِظُونَبے شک یہ کتاب نصیحت ہم ہی نے اتاری اور ہم ہی اس کے نگہبان
ہیں" مذہب اسلام پوری انسانیت کیلئےہدایت و رحمت کا دین ہے، ایک کامل و
مکمل نمونہ حیات ہے، انسان کی زندگی کو راحت بخشنے والا مصائب و آلام سے
چھٹکارا دلانے والا دین ہے، دنیا وآخرت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔ قرآن و
حدیث میں امراض اور ان کے اسباب و علاج مذکورہیں۔
نماز اسلام کا پہلا رکن ہے اور اسی پر دین کی بنیاد رکھی گئی ہے، یہ دوسرے
خصائص کے ساتھ ظاہر و باطنی آلودگیوں سے پاکی کی علامت ہے جو غسل یا وضو کے
طریقہ سے حاصل ہوتی ہے برائیوں سے دور اور اخلاق حسنہ سے متصف ہونے کا
ذریعہ ہے ، نماز برائیوں اور منکرات سے روکنے والی ہے، اس میں نشاط ، دل کا
سکون واطمینان موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلالؓ سے فرمایا کرتے
: بلال نماز کے ذریعہ راحت و سکون حاصل کرو۔ ماہرین اطباء نماز سے جسمانی
فوائد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ جسمانی اعضاء کو طاقتور بناتی ہے
اور نظام ہضم کو مضبوط بناتی ہے ، طویل سجدے ہائی بلڈ پریشر کو کم کرتے ہیں،
رات کی عبادتیں زیادہ موثر ہوتی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا
مفہوم یہ ہے کہ راتوں میں نماز کی ادائیگی و عبادت گزاری یہ صالحین کا
طریقہ ہے اور جسمانی امراض کے خاتمہ کا ذریعہ ہے۔
اسلام کا تیسرا رکن روزہ دوسری خصوصیات کے ساتھ نظام ہضم کو راحت بخشتا ہے
اور آج کے اس ترقی یافتہ دور میں متعدد بیماریوں سے نجات پانے کا طریقہ بھی
ہے، چنانچہ جسمانی موٹاپا، معدہ کی خرابی، شوگر اور دیگر جسمانی عضلات کی
خرابیوں میں روزہ بہت ہی کار آمد ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں اس کی
بڑی تاکیدآئی ہے۔ سال میں ایک مہینہ رمضان کے روزے فرض کئے
گئے۔يَاأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُواكُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَاكُتِبَ
عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ’’مومنو! تم پر
روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ پرہیز
گار بنو،،۔ (سورۃ البقرہ:183)
دوسری طرف عام طور پر کھانے پینے میں بے جا اسراف سے منافع کیا گیا ہے
وَكُلُواوَاشْرَبُواوَلَا تُسْرِفُوا ۚ’’کھاؤپیو اور بے جا نہ اڑاؤ،، (سورہ
اعراف:31) حدیث شریف میں ہے روزہ رکھو اور صحت یاب بنو، اس مناسبت سے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وارد ہے کہ معدہ بیماریوں کا گھر ہے اور پرہیز
دوا کی اصل ہے روزہ شہوت کا ازالہ ہوتا ہے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
ان حضرات کو جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتے روزہ کی تلقین فرماتے ہیں اور
فرماتے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔ اسی طرح اگر دیگر اسلامی تعلیمات کو
پیش نظر رکھا جائے تو بیشتر امراض سے انسان خو د کو محفوظ رکھ سکتا ہے ،
کھانے پینے میں ایسی اشیاء سے پرہیز کرے جو صحت کیلئےمضر ہوں، قرآن کریم نے
جامع انداز میں محرمات کو بیان کیا ہے’’ إِنَّمَاحَرَّمَ عَلَيْكُمُ
الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِوَمَاأُهِلَّ بِهِ
لِغَيْرِاللَّهِۖ فَمَنِ اضْطُرَّغَيْرَبَاغٍ وَلَاعَادٍ فَلَا إِثْمَ
عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور
لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے
حرام کیا، ہاں جو ناچار ہوجائے(بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد
(ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں، بے شک خدا بخشنے والا ہے
اور رحم کرنے والا ہے،،(البقرۃ:173)
اسلام نے شراب اورہرنشہ آور شے کو حرام قرار دیا اور اس چیز کو ناجائز
بتلایا جو صحت انسانی کیلئےمضر ہو، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا
أَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُواإِنَّمَاالْخَمْرُوَالْمَيْسِرُ وَ الْأَنصَابُ
وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اے ایمان والو! شراب اور جوااور بت اورپانسے (یہ
سب) ناپاک شیطانی اعمال میں سے ہیں سو ان سے بچتے رہناتاکہ نجات پاؤ،،
(المائدہ :90) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہر نشہ آور چیز شراب
ہے اور یہ حرام ہے۔
اب ہم اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ دین دار حضرات
دماغی و نفسیاتی الجھنوں کا کم شکار ہوتے ہیں اور بیماریاں انہیں بہت کم
لاحق ہوتی ہیں، دیگرلوگوں کے مقابلہ میں قوت دفاع، ان میں زیادہ ہوتی ہے
درحقیقت ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کا خاص سبب تنہائی، بے کاری کا احساس اور
روحانی افلاس ہے، ظاہر ہے اسلام کی تعلیمات و احکامات نفسیای امراض علاج
ہیں انسان اگر خدا کی کاریگری اور زمین و آسمان میں اس کی خلاقیت اور
عجائبات پر غور کرے تو بہت سی نشانیاں ملیں گی اور اسے ذہنی و قلبی سکون
حاصل ہوگا، ارکان اسلام پر ایمان رکھنے والا زندگی، موت ، قضا و قدر پر
یقین رکھنے والا شخص نفسیاتی قلق اور دماغی الجھنوں سے نجات پاتا ہے ’’
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا
مُّؤَجَّلًا ۗ کوئی شخص مر نہیں سکتا بغیر اللہ کے حکم کے، ایک مقررہ وقت
لکھ دیا گیا ہے۔،، (آل عمران :145)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رحم مادر میں انسان کا عمل، اس کی
موت کا مقرر وقت ، روزی، اس کی نیک بختی اور بدبختی لکھ دی جاتی ہے نمازمیں
خشوع، کامل راحت اطمینان ہے ایک صاحب ایمان نمازوتلاوت اورذکرودعاکے ذریعہ
کامل راحت وسکون حاصل کرتاہے،اوربہت سی بیماریوں سے نجات پاتا ہے قرآن کی
تلاوت اور ذکر سے انسان متعدد بیماریوں میں شفا حاصل کرتا ہے اللہ تبارک
وتعالیٰ کاارشادہے’’وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَاهُوَشِفَاءٌوَرَحْمَةٌ
لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًااورہم
اتارتے ہیں قرآن میں سے جس سے روگ دفع ہوں اوررحمت ہوایمان والوں کے واسطے
اور گناہ گاروں کا تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے۔،، (بنی اسرائیل :82)
’’يَاأَيُّهَاالنَّاسُ قَدْجَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ
وَشِفَاءٌلِّمَافِي الصُّدُورِوَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ اے
لوگو!تمہارے پاس آئی ہے نصیحت تمہارے رب سے اور شفا دلوں کے روگ کی اور
ہدایت و رحمت مسلمانوں کے واسطے۔،، (یونس:57)دعائوں سے انسان نفسیاتی
ودماغی بیماریوں سے شفایاب ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں جذام اور جنون جیسی
مہلک بیماریوں سے شفا پاتا ہے ہر مومن کیلئےدعا لازمی ہے ارشاد باری
ہے:’’اے ایمان والو! اللہ کا خوب ذکر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح وتحمید
کرو۔،، (احزاب:42) پھر ذکر الٰہی راحت قلب کا سامان ہے ’’بے شک جو ایمان
لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں بے شک اللہ کا ذکر دلوں کو
مطمئن کرنے والا ہے۔،، (رعد:28)
ڈاکٹر ہارولڈ کی یہ تحقیق کہ اہل ایمان مصائب سے کم دوچار ہوتے ہیں ایک
حقیقت ہے دین اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے، دیندار حضرات جو رات دن کلام
اللہ کی تلاوت میں مشغول رہتے ہیں او رمصائب و آلام میں تقویٰ و صبر کے
دامن کو نہیں چھوڑتے ہیں انہیں بیماریاں بہت کم لاحق ہوتی ہیں پھر اگر آتی
بھی ہیں تو ان کا امتحان ہوتا ہے، اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے جس پر
وہ صبر و شکر کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، صبر اور تقویٰ کا انعام
نہایت عظیم ہے قرآن کریم کا ارشاد ہے ’’البتہ تمہاری آزمائش ہوگی مالوں میں
اور جانوں میں اور سنو گے تم اگلی کتاب والوں سے اور مشرکوں سے بہت بدگوئی
بہت اور اگر تم صبر اور پرہیز کرو تو یہ ہمت کے کام ہیں۔،، (آل عمران:۱۸۶)
’’ وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ
الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِالصَّابِرِينَ اور
البتہ ہم آزمائیں گے تم کو تھوڑے سے ڈر سے اور بھوک سے اور نقصان سے مالوں
کے اور جانوں کے اور میووں کے اور خوشخبری ہے ان صبر کرنے والوں کو کیا کہ
جب پہنچے ان کو کچھ مصیبت تو کہیں کہ ہم تو اللہ ہی کا مال ہیں اور ہم اسی
کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔" (البقرۃ:155)
قرآن کریم اس پر بھی زور دیتا ہے کہ تقویٰ دشواریوں کو دور کرتا ہے اور
انسان بہت سے مصائب وآلام سے محفوظ ہوجاتاہے۔’’وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ
يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًاجوکوئی اللہ سے ڈرتاہے اللہ اسے مشکلات سے نکلنے کا
راستہ بتادیتا ہے۔" (طلاق:۲) راحت وسکون اوررضامومن بندے کا شعارہے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’مومن بندے کی تو حالت ہی عجیب ہے اگر کوئی
خوشی کی بات ہوتوشکرکرتاہے یہ بھی خیرہے،اوراگرمصیبت آئے توصبرکرتاہے تویہ
بھی اس کیلئےخیر ہے۔،،
اگر آج انسانی معاشرہ اوہام و خرافات سے دور ہوکر صحیح اور راست دین کا
متبع بن جائے، ہدایت اور نور ایمان اس کے اندر آجائے اورقول عمل کے ذریعہ
تمام معاملات میں دین کی تابع داری کرے اخلاق فاضلہ اوراعلیٰ اقدار کا پیکر
بن جائے تو ا س کی تمام مشکلات خود بخود دور ہوجائیں اور جسمانی اور
نفسیاتی امراض اجتماعی اور معاشی دشواریاں ختم ہوجائیں، بھلائی اور سعادت
کے راستے کھل جائیں اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے:’’وَلَوْأَنَّ أَهْلَ
الْقُرَىٰ آمَنُواوَاتَّقَوْالَفَتَحْنَاعَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ
السَّمَاءِوَالْأَرْضِاوراگربستیوں والے ایمان لاتے اورپرہیزگاری کرتے توہم
کھول دیتے ان پرنعمتیں آسمان وزمین سے"۔ (اعراف:96) |