معاشرے کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کا کردار

بسم اﷲ الرحمان الرحیم

دنیا کے کسی بھی شعبے اور کسی بھی لائن میں قوم اور معاشرے کے پھلنے پھولنے اور ترقی یافتہ ہونے میں’’تعلیم ‘‘ کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔ یہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے انسان ملک و وطن اور ملت و مذہب کی بہترطور پر خدمت سرانجام دے کر ایک بہترین اور عمدہ معاشرے کا قیام عمل میں لاسکتا ہے ۔ انسانی معاشرے کے ڈھانچے سے اگر تعلیم کی روح نکال دی جائے تو اس سے معاشرے میں غربت و افلاس، ظلم و ستم،بدامنی و بے چینی اور اغوابرائے تاوان وغیرہ جیسے ناسور تو جنم لے سکتے ہیں، لیکن اس سے معاشرے کی تعمیر و ترقی، اس میں عدل و انصاف ،راحت و سکون اور ایک پرامن فضاء ہرگز قائم نہیں ہوسکتی۔

چنانچہ اس وقت وطن عزیز ملک پاکستان اپنی تعمیر و ترقی اور اپنی اندرونی بدامنی و بے چینی کے لحاظ سے جن تشویش ناک مسائل یا جن ناگفتہ بہ حالات کا شکارہے اس کا بنیادی سبب ایک تو تعلیم کی کمی اور دوسرے معیاری تعلیم کا فقدان ہے۔اگر آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی پر نظر ڈالیں توآپ کو محسوس ہو گا کہ کسی بھی معاشرے اور کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک ناروے، روس اور قزاقستان وغیرہ میں بالترتیب شرح خواندگی 100 فی صد99.6 فی صد اور 99.6 فی صدہے، جب کہ امریکہ، لندن،آسٹریلیا، کنیڈا، فرانس اور جرمنی وغیرہ ممالک میں شرح خواندگی 99 فی صد ہے۔ اسی طرح ان ممالک کی خواتین تعلیم میں مردوں سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں بلکہ ان میں عورتوں اور مردوں کی تعلیم کا تناسب تقریباً برابر ہے۔ آپ یہ پڑھ کر بھی حیران ہوں گے کہ متحدہ عرب امارات میں اگرچہ ان ترقی یافتہ ممالک کی بہ نسبتبحیثیت مجموعی شرح خواندگی کا تناسب کم ضرور ہے لیکن وہاں خواتین مردوں کی 76.1 فی صد شرح خواندگی کے مقابلے میں 81.7 فی صد شرح خواندگی میں مردوں سے آگے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج یہ ترقی یافتہ ممالک اپنی تعلیمی دور اندیشی کے سبب سائنس ، ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات وغیرہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر پوری دنیا پر راج کررہے ہیں، اور ان کی محنت اور کوشش کا یہ پھل آج ساری دنیا کھارہی ہے۔

لیکن اس کے بالمقابل اگر آپ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کا جائزہ لیں جن میں ہندوستان64 فی صد شرح خواندگی کے ساتھ، پاکستان 60 فی صد شرح خواندگی کے ساتھ، نیپال 66 فی صد شرح خواندگی کے ساتھ، بنگلہ دیش 56.8 فی صد شرح خواندگی کے ساتھ،بھوٹان 46 فی صد شرح خواندگی کے ساتھ، ایتھوپیا 42.7 فی صد شرح خواندگی کے ساتھ، اور افغانستان 28.1 فی صد شرح خواندگی کے ساتھ سرفہرست ہیں، تو آپ کو محسوس ہو گا کہ ان ممالک کے سائنسی و اقتصادی اورصنعتی ترقی کی عالمی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا بنیادی سبب فقط تعلیم کا فقدان ہے۔

پاکستان میں اگر آپ مجموعی طور پر شرح خواندگی کاجائزہ لیں تو یہاں 58 سے60 فی صد شرح خواندگی ریکارڈ کی جاتی ہے، جس میں مردوں کی شرح خواندگی 71.29 فی صد جب کہ خواتین کی شرح خواندگی 48.35 فی صد ہے۔اور اگر صوبائی اعتبار سے شرح خواندگی کا جائزہ لیں تو پاکستان کے چاروں صوبوں میں پنجاب سب سے آگے ہے، جس میں شرح خواندگی کا تناسب 71 فی صد ہے۔ دوسرے نمبر پر سندھ ہے جس میں شرح خواندگی کا تناسب 69 فی صد ہے۔ تیسرے نمبر پر خیبرپختون خواہ ہے جس میں شرح خواندگی کا تناسب 60 فی صد ہے اور چوتھے نمبر پر بلوچستان ہے جس میں شرح خواندگی کا تناسب 50 فی صد ہے۔اور اگر چاروں صوبوں میں صرف خواتین کی شرح خواندگی کا جائزہ لیاجائے تو پنجاب میں خواتین کی شرح خواندگی کا تناسب 35 فی صد ہے۔ خیبر پختون خواہ میں کا تناسب 31 فی صد ہے۔ سندھ میں شرح خواندگی کا تناسب 22 فی صد ہے۔ اوربلوچستان میں شرح خواندگی کا تناسب13 فی صدہے۔ اور اگر علاقائی سطح پر شرح خواندگی کا جائزہ لیں تواسلام آباد میں شرح خواندگی کا تناسب سب سے زیادہ 96 فی صد ہے ، جب کہ کوہلو میں شرح خواندگی کا تناسب سب سے کم 28 فی صد ہے۔

گزشتہ دھائی کے پہلے چار سالوں یعنی 2000ء سے لے کر 2004ء کے دوران 55 سے 64 سال تک کی عمر کے افراد میں شرح خواندگی کا تناسب 38 فی صد رہا ہے۔ اور 45 سے54 سال کی عمر کے افراد میں شرح خواندگی کا تناسب 46 فی صد رہا ہے۔اور 25 سے34 سال کی عمر کے افراد میں شرح خواندگی کا تناسب 57 فی صد رہا ہے۔ اور 15 سے 24 سال کی عمر کے افراد میں شرح خواندگی کا تناسب 72 فی صد رہا ہے۔

پاکستان میں 58 سے 60 فی صد شرح خواندگی کے لحاظ سے اگرچہ 49 فی صد افراد کافی حد تک انگلش زبان لکھنا پڑھنا اور بولنا جانتے ہیں اور سالانہ 445 ہزار پاکستانی جامعات سے اور 10000 کمپیوٹر سائنس سے گریجویٹ کرتے ہیں نیزپاکستان میں دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک سے خواندگی کی شرح بھی زیادہ ہے، لیکن بایں ہمہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تقریباً پانچ ملین کی ایک بہت بڑی آبادی اس وقت بھی اسکول جانے سے محروم ہے۔

چنانچہ پاکستان میں اس وقت پرائمری اسکول جانے کی عمر کے تقریباً 56 لاکھ بچے، جب کہ لوئر سیکنڈری اسکول جانے کی عمر کے تقریباً 55 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔دوسری جانب بلوغت کی عمر کو پہنچنے والے ایک کروڑ سے زائد نوجوان بچے اپر سیکنڈری اسکول جانے سے محروم ہیں، جن کی کل تعداد کم و بیش اڑھائی کروڑ بنتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی 58 سے60 فی صد شرح خواندگی کے اعتبار سے 46 فی صد بچے سکول نہیں جارہے، جس کی دیگر مختلف وجوہات و اسباب کے علاوہ ایک بڑا اور اہم ترین سبب غربت و افلاس اور تعلیمی وسائل کی عدم دست یابی بھی ہے۔

اس وقت پاکستان جنوبی ایشیاء میں تعلیم پر کم سرمایہ خرچ کرنے والا ملک ہے جو اپنی مجموعی پیدا وار کا تقریباً دو فی صد سے زیادہ تعلیم پر خرچ کرتا ہے ، جب کہ تعلیم میں بہتری کے لئے اسے کم از کم اس شرح کو دوفی صدسے بڑھاکر چار فی صد تک کرنا چاہیے، تاکہ اس سے ملک کی تعمیر و ترقی میں اضافہ ہو اور یہ بھی سائنسی ، اقتصادی اور صنعتی ترقی کی بین الاقوامی دوڑ میں میں شامل ہوکر دیگر ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ کھڑا ہوسکے۔
 

Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278779 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.