تحریر: راحیلہ چودھری
نوجوان کسی ملک و قوم کا وہ سرمایہ ہوتے ہیں جو وقت اور حالات کا رخ بدلنے
کی صلاحیت رکھتے ہیں۔دنیا کی ابتدا سے لے کر آج تک جتنے بھی نرم اور گرم
انقلابات رونما ہوئے ہیں۔ان کا ہر اول دستہ نوجوان ہی رہے ہیں۔عام لوگوں کے
مقابلے میں نوجوان آئیڈ یل ازم کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔وہ اپنے دل و دما غ
میں کسی نہ کسی حوالے سے آئیڈیل تراشتے ہیں۔آئیڈیل کی تلاش ان کوخوب سے خوب
تر کے لیے جہد مسلسل پر آمادہ و تیار کرتی ہے۔اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے
کہ اس کے سامنے ایک ایسا کامل نمونہ ہوجس کے اسوہ پہ چل کر وہ زندگی کی اصل
حقیقت جان سکے۔ہر انسان فطری طور پر نمونے کا محتاج ہے۔چا ہے وہ عمر کے جس
حصے میں بھی ہو،زندگی کے جس مرحلے پہ بھی ہو۔اسے ہمیشہ مشورے اور ہدایت کی
ضرورت رہتی ہے۔
اسلام میں سیرت اور کردار کا پہلو بہت اہم ہے کیو نکہ اس کا تعلق دنیا اور
آخرت دونوں سے ہے۔اور ایک ایسی شخصیت ہی پوری انسانیت کے لیے نمونہ بن سکتی
ہے جس میں کم از کم یہ تین خصوصیا ت پائی جا تی ہوں:
اول: اس کی سیرت تاریخی طور پر محفوظ ہو اور ایسے مستند اور معتبر ذریعوں
سے ہم تک پہنچی ہو،جس پر ہم اعتماد کر سکیں۔
دوم: اس کا پیغام اور اس کا عطا کیا ہوا دستورِ زندگی تمام انسانیت کے لیے
ہو،کسی مخصوص علاقہ یا نسل کے لوگوں کے لیے نہ ہو۔
سوم: اُس کی سیرت زندگی کے ہر گوشہ کے لیے ر ہنمائی کرتی ہو،اور اس کو اپنا
رہنما تسلیم کرنے کے بعد انسان اپنی زندگی میں کہیں کوئی تشنگی اور خلا نہ
پائے۔
اور اس پورے عالم میں کوئی ایسی شخصیت نہیں جس کے اندر یہ تمام خصو صیات
ایک سا تھ پائی جا تی ہوں۔ان تمام خصوصیات کی حامل صرف حضرت محمدﷺ کی ہستی
وہ واحد ہستی ہے جو جا معیت، کا ملیت، عالمگیر یت جیسی خصوصیا ت کا مجموعہ
ہے۔ اسلام کا مقصد صرف ایک فرد کی اصلاح تک محدود نہیں۔بلکہ پورے معاشرے کی
اصلاح ہے۔تاکہ ایک صحت مند ریاست تشکیل پا سکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب
افراد کی تر بیت اور اصلاح کی جائے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
افراد کے ہا تھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
عصر حا ضر کے انسان نے سنت کو پس پشت ڈال دیا ہے اور زمانے کے ساتھ سر پٹ
دوڑتا چلا جا رہا ہے اپنی اصلاح سے بالکل غا فل ہو چکا ہے۔ قرآن اور سنت کا
آپس میں گہرا تعلق ہے اوراسی طرح تعمیر سیرت اور مطالعہ سیرت کا آپس میں
گہرا تعلق ہے۔آج مسلمان اخلاقی لحاظ سے،معاشرتی لحاظ سے،علمی لحاظ سے غرض
زندگی کے جس شعبے میں بھی زوال پذیر ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ سنت رسول ﷺسے
دوری ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ فرد کی تربیت میں سنت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ
نقطہ اعتدال سامنے لایا جائے جو انتہا وں اور خامیوں سے مبرا ہواور ایک
متوازن شخصیت سامنے آسکے۔
عصر حاضر میں ہر فرد کو اس طرف توجہ کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔کیونکہ صرف
مطالعہ سیرت سے ہی ایک ایسی شخصیت وجود میں آتی ہے۔جو دنیا میں کامیا بی سے
زندگی گزار سکے اور دنیاوی زندگی کی کامیا بی سے اخر وی فلا ح و کامرانی
حاصل کر سکے۔بد قسمتی سے ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں معاشر ے میں اتنے
اعلی تعلیم یافتہ افراد ہو تے ہوئے بھی ہر طرف جہالت ہی نظر آتی ہے۔انسانوں
کے معا شرے میں رہتے ہوئے، دین اسلام کی پیر وی کرتے ہوئے اور امت محمدیہ
کا نعرہ لگاتے ہوئے پھربھی کوئی مخلص نظر نہیں آتا۔ معاشرے میں کو ئی ایسا
معا ملہ نہیں جو جھو ٹ اور فریب سے خا لی ہو۔آج مسلمان ہی مسلمان کی جان کا
سب سے بڑا دشمن ہے۔عورت کی عزت سرِ عام لو ٹی جا رہی۔ وا لدین خود اپنی
اولاد کو قتل کر رہے ہیں۔ کھانوں میں حرام شامل کیا جا رہا ہے ۔عدالتوں میں
عدل نہیں ہے شہروں میں امن نہیں ہے۔اس سے بری تصویر کسی جہالت میں ڈوبے
ہوئے معا شرے کی نہیں کھنچی جا سکتی۔ بد قسمتی سے ہم ایسے دور سے گزر رہے
ہیں۔جہاں آج کا انسان تعلیم یا فتہ تو نظر آتا ہے لیکن تہذ یب یا فتہ نظر
نہیں آ تا۔
ہم آج پھر اسی دور جاہلیت کی جانب تیزی کے ساتھ رواں دواں ہیں جہاں سے رحمت
عالم ﷺنے انسانوں کو راہ راست پر لانے کا آغاز کیا تھا۔ہم اس ہادی کائنات ﷺ
کی تعلیمات کو یکسر فراموش کرچکے ہیں۔ اگر ہم دنیاوہ اور اخروی بہتری چاہتے
ہیں تو ہمیں چاہیے کہ تعمیر سیرت کی طرف توجہ دیں اوراُسوہ حسنہ کی پیروی
جس سے قلبی سکون، ذہنی سکون اور آخرت کی فلاح حا صل کرنا ہی مقصود نہیں
بلکہ یہ سب سے بڑی انسانی ضرورت ہے۔جیسے انسان اپنے پیٹ کے لیے غذا کا، تن
کے لیے لباس کا،علاج کے لییدوا کا،حفاظت کے لیے اسلحے کامحتاج ہے۔
اس سب سے بڑھ کے نبیﷺ کی تعلیمات کا محتاج ہے،کیونکہ نبیﷺ کی تعلیمات اس کے
پورے وجود کے لیے غذا ہیں، وہ ذہن و دماغ کو بتا تی ہیں کہ اُنھیں کیا
سوچنا چا ہیے، وہ آنکھوں کی رہنمائی کرتی ہیں کہ اُنھیں کیا دیکھنا اور کیا
نہ دیکھنا چا ہیے، وہ زبان کو ہدایت دیتی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت
کا استعمال کن مقاصد کے لیے کیا جائے اور کن مفاسد سے بچا جائے؟وہ ہاتھوں
سے کہتی ہیں کہ یہ ظلم اور ظالموں کے خلاف اُٹھے نہ کہ مظلوموں اور کمزوروں
کے خلاف،وہ پاوں کو بتا تی ہیں کہ اسے نیکی اور حق کی راہ میں چلنا
چاہئے،نہ کہ باطل اور بُرائی کے راستے میں اور اس کی چال میں تواضع،
انکساراور عاجزی ہونی چاہئے،نہ کہ فخر و غرور۔اور اس کے علاوہ خوشی غمی میں،
گھریلو معملات میں، تجارتی معاملات میں،معاشی معاملات میں یاطالب علم
ہو،معلم ہو،عالم ہو،غرض ہر حالت،ہر کیفیت،ہر مقام میں اُسے نبیﷺکی تعلیمات
اور روشن ہدایا ت مطلوب ہیں۔جو انسان اس سے محروم ہو وہ ایک کھا تا
پیتا،سوتا جاگتااور ہنستا بولتاترقی یافتہ حیوان تو ہو سکتا ہے۔ لیکن حقیقی
اور اپنی حقیقت سے آشنا انسان نہیں ہو سکتا۔
مسلمانوں کو آپ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کرنا چاہیے کہ آپﷺ ایک
انسان کامل کی حیثیت سے پوری دنیا کی رہنمائی کے لیے آئے۔جو حکم کسی دوسرے
کو دیا۔پہلے خود عمل کر کے دکھایا۔ایک عام آدمی سیرت طیبہ کا مطالعہ اس لیے
کرے کہ اسے انسانیت کا پتا چلے۔کہ انسان کیا ہے؟اس کا مقصد تخلیق کیا ہے؟جو
آسائشیں اور سہولتیں زندگی گزارنے کے لیے ملی ہیں ان کا مصرف کیا ہے؟اور اس
کے بارے میں اسے کس کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔ایک سیا ستدان جب آپ ﷺکی سیرت
کا مطالعہ کرے گا۔تو اسے ریاست اور اہلیان ریاست کے حقوق اوران قواعد و
ضوابط کا پتہ چلے گا جس پر ریاست کی فلاح کا انحصارہے۔ایک سپہ سالار جب آپﷺ
کی سیرت کا مطالعہ کرے گا تو اس کے اندر عزم اور ہمت جیسے جذبے پختگی
اختیار کریں گے۔
اسی طرح جب ایک تاجر آپ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرے گا تو اسے یہ سبق ملے گا
کہ تجارت نہ صرف حصول معاش کا ذریعہ ہے بلکہ دین اور دنیا کی کامیابی اور
بھلائی کا رازاس میں پوشیدہ ہے۔اس طرح وہ ملاوٹ،ناپ تول میں کمی اور اس
جیسی اور بڑی بُرائیوں سے بچ جائے گا۔ایک شوہر اور باپ جب سیرت کا مطالعہ
کرے گا۔تو اسے اپنی زندگی کو عدل و انصاف اور مسا وات سے گزارنے کا موقع
ملے گااسی طرح ایک حکمران یا سربراہ ادارہ کی حیثیت سے جب آپﷺ کی سیرت کا
مطالعہ کرے گا تو اوصاف حمیدہ سے تعمیر کردار کا سبق ملے گا۔الغرض نبی اکرم
ﷺ کی ذات مقدسہ زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کے لیے بہترین نمونہ
عمل ہے۔ اﷲ تعالی ہمیں اسوہ حسنہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
|