کسی بھی ملک یا شہر کی ترقی اس کے ذرائع نقل و حمل کی
ترقی سے مر بوط ہوتی ہے کراچی جسے اگر ماضی کا ایک گاؤں کہا جائے تو غلط نہ
ہوگا کیونکہ کراچی جسے کلاچی کہا جاتا تھا منوڑہ میں صرف ایک قلعہ بند ماہی
گیروں کا ایک چھوٹے سے گاؤں کے علاوہ کچھ نہ تھا تالپوروں کے دور1809 میں
قلعہ بند شہر کی کل آبادی 6500نفوس پر مشتمل تھی یہ پہلی مر دم شماری کے
اعدادوشمار ہیں جبکہ 1813 میں ہونے والی دوسری مر دم شماری میں بھی آبادی
کل 13000تھی فصیل شہر کے اندر مکانات کی کل تعداد 3250تھی جبکہ اس قلعے یا
شہر کے دو دروازے تھے جن میں سے ایک میٹھا در اور دوسرا کھارا در کہلاتا
تھا ماضی میں کیونکہ کوئی ٹرانسپورٹ اور سڑکیں نہیں تھیں لہذا لوگ ایک جگہ
سے دوسری جگہ جانے کے لئے بیل گاڑیاں ،اونٹ گاڑیاں ، گھوڑا گاڑیاں استعمال
کیا کرتے تھے کراچی سے کراچی بندر گاہ پر آنے والے تجارتی مال کو شمالی علا
قوں تک مال کو اونٹ گاڑیوں ،گدھا گاڑیوں کے ذریعے دور دراز تک کے شہروں میں
پہنچایا جاتا تھا جبکہ اسی زمانے تجارتی سامان کوٹری سے حیدرآباد یہاں تک
کے ملتان بھی کشتیوں میں بھیجا جاتا تھا
جب اس شہر پر انگریزوں نے 1839میں قبضہ کیا تو اس شہر نے ترقی کا نہ رکنے
والا سفر شروع کیا انگریزوں نے اس شہر کو سڑکوں ،ریلوں ،ٹراموں ،ڈاک ،وتار
،بجلی اور پانی سمیت دیگر سہولیات مہیا کیں انگریز گورنر سر چارلیس نیپئر
نے نظام سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے فصیل شہر توڑ دی اور فصیل کی جگہ سڑک
تعمیر کی گئی یہ سڑک یقیناًہر چند رائے روڈ جوکہ اب صدیق وہاب روڈ کہلاتی
ہے تعمیر کرا وائی اس کے بعد چھاگلہ اسٹریٹ اور مولجی اسٹریٹ تعمیر ہوئیں
اس کے بعد اس نے کئی سڑکیں تعمیر کر وائیں جن میں بندر روڈ بھی شامل ہے کو
تعمیر کر وایا اور بندرگاہ کی نسبت سے اس کا نام بندر روڈ رکھادلچسپ بات یہ
ہے کہ کیونکہ اس وقت کراچی میں بجلی نہیں تھی لہذا کراچی کی سڑکوں پرگیس
لیمپ لگائے گئے جنہیں روشن رکھنے کے لئے دن کے اوقات میں زمین کے نیچے بنی
ہوئی ٹینکی میں مٹی کا تیل ڈالا جاتا تھا اور رات میں انتظامیہ کے لوگ اسے
روشن کر نے کا کام کرتے تھے جس سے کراچی کی بیشتر سڑکیں روشن رہنے لگیں اور
لوگوں کو رات کے اوقات میں بھی سفر کے دوران کسی قسم کی دشواری پیش نہیں
آتی تھی شہر میں بیشتر سڑکیں تعمیر کئے جانے کے بعد سر چارلیس نیپئر کے ہی
دور میں کراچی کو اندرون شہر سے ملانے کے لئے ایک کچی سڑک کو کراچی سے
کوٹری تک پہنچا دیا پھر اس سڑک کو 1852میں سیہون تک جا پہنچایا جس سے لوگوں
کواندرون سندھ تک سفری سہولیات میسر آگئیں۔
انگریز جوکہ کراچی کے تجارتی اور فوجی اہمیت کا اندازہ لگا چکے تھے انہوں
نے ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ کراچی کو بر صغیر سے ملانے کے لئے ریلوے کی
منصوبہ بندی بھی کی 29اپریل 1858کو کمشنر سندھ بارٹلے فریئر نے موجودہ سٹی
اسٹیشن جوکہ ماضی میں میکلوڈ اسٹیشن کے نام سے جانا جاتا تھا کے زمین کے
ایک ٹکرے پر کدال مار کر چھاؤنی سے کیماڑی تک ریلوے لائن بچھانے کے کام کا
آغاز کیا اس موقع پر 21توپ کے گولے بھی داغے گئے اور پھر فریئر نے اس
تاریخی موقعے پر اپنی مختصر تقریر میں کہا کہ کراچی میں ریلوے کی ابتداء
ایک عظیم منصوبے کا آغاز ہے اس فوقیت کی وجہ سے کراچی بر صغیر کا ایک اہم
شہر بن کر ابھرے گا کیونکہ اس زمانے میں سندھ کوسٹڈ کے نام سے ایک اخبار
بھی آیا کرتا تھا اس نے ریلوے کے منصوبے پر اپنے تبصرے میں لکھا کہ اس
منصوبہ بندی کے تحت بر طانیہ کو بر صغیر میں اپنی گرفت مضبوط کر نے میں بڑی
مدد ملے گی پھر 1861کراچی سے کوٹری تک 169کلو میٹر کی ریلوے لائن بچھا دی
گئی۔
ریلوے ٹریک بچھانے کا کام 1855 میں لندن میں قائم ہونے والی کمپنی جوکہ
سندھ ریلوے کمپنی کہلاتی تھی نے انجام دیا پھر اسی سال دسمبر میں ایسٹ
انڈیا کمپنی اور سندھ ریلوے کمپنی نے کراچی سے کوٹری تک ریلوے لائن بچھانے
کا کام مکمل کیا اور اس کے بعد کراچی سے کوٹری تک ٹرینیں چلنے لگیں جن سے
بیرون ملک سے لایا جانے والا سامان کوٹری تک پہنچایا جانے لگا جہاں سے
کشتیاں اس ساما ن کو کشتیوں میں لاد کر حیدر آباد پہنچاتے تھے پھر نومبر
1879میں حیدر آباد سے ملتان تک ٹرینیں چلنے لگیں 1887میں کوٹری اور کوئٹہ
کے درمیان بھی ٹرینیں چلائی گئیں ۔کیونکہ 1870تک تین کمپنیاں ریلوے ٹریک
بچھانے اور ٹرینیں چلانے کے لئے علیحدہ علیحدہ کا م کر رہی تھیں1870 میں ان
تینوں کمپنیوں کو سندھ، پنجاب، دہلی ریلوے کمپنی کا نام دے دیا گیا
جبکہ1886 اسے نارتھ ویسٹرن ریلوے کا نام دیا گیا اور اس ریلوے کمپنی کا
آخری اسٹیشن کراچی کے دو ریلوے اسٹیشن سے جس میں ایک میکلوڈ ریلوے اسٹیشن
جسے آج سٹی اسٹیشن جبکہ دوسرا فریئر اسٹریٹ اسٹیشن جو کہ آج کینٹ اسٹیشن کے
نام سے موسوم ہے موجود تھے مگر ان دونوں اسٹیشنوں میں بندر گاہ سے قریب
ہونے کے پیش نظر سٹی اسٹیشن کو ایک خصوصی اہمیت حاصل تھی ۔
سٹی اسٹیشن جس کے ایک طرف حبیب بینک پلازہ جبکہ دوسری اولڈ کوئنس روڈ ہے
میں چار پلیٹ فورم اور چار ٹریک ہوا کرتے تھے جوکہ آج بھی ہے مگر آج بھی سب
سے قدیم ترین اسٹیشن کا اعزاز حاصل ہے مگر آج اس اسٹیشن سے مال گاڑیوں کے
علاوہ ہزارہ ایکسپریس ،بولان ایکسپریس ،ذکریہ ایکسپریس ،فرید ایکسپریس اور
خو شحال خاں خٹک ایکسپریس لاہور اور پشاور جاتی ہیں جبکہ صبح سے رات گئے تک
لگ بھگ تمام مال گاڑیاں یہاں سے ہی آپریٹ ہوتی ہیں سٹی اسٹیشن گوکہ اب پہلے
کی طرح فعال نہیں ہے مگر کیونکہ یہاں انگریزوں کے دور میں ہی ڈویژنل آفس
قائم ہوا تھا اور ڈویژنل سپریٹنڈینٹ اسی دفتر میں بیٹھتے ہیں لہذا آج بھی
اسے ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے سٹی اسٹیشن اور وہاں موجود ڈی ایس آفس قدیم
ترین عمارتوں میں شمار ہوتے ہیں اور آج بھی قدیم پتھروں سے بنی یہ عمارت
قابل دید ہے جبکہ ڈی ایس آفس میں لگائی جانے والی قدیم ترین گرل والی لفٹ
وہ واحد قدیم ترین لفٹ ہے جوکہ آج بھی چیخ چیخ کر اپنے شاندار داستان بیاں
کرر ہی ہیں یہ اسٹیشن جوکہ میلوں رقبے پر پھیلا ہوا ہے اس کے ٹریک کے ارد
گرد قدیم ترین گودام آج بھی زیر استعمال ہے اور ملک بھر سے آنے والے
سازوسامان کو ان گوداموں میں انتہائی حفاظت کے ساتھ رکھا جاتا ہے جبکہ ایک
اکاؤنٹ آفس ،گارڈ روم جوکہ پتھروں سے بنے ہوئے ہیں آج بھی اپنی داستاں بیان
کر تے نظر آتے ہیں۔ |