مولانا فضل الرحمن کی مہم

تبدیلی کے سودن مکمل ہوچکے ہیں عوام ہی بہتراندازمیں یہ فیصلہ کریں گے کہ نئی حکومت نے وعدوں کی کتنی تکمیل کی ہے یاپھردلفریب نعروں سے ہی عوام کے دل بہلائے گئے ہیں ؟حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے بھی سودن مکمل ہوئے ہیں مگربکھری ہوئی اپوزیشن ان سودنوں میں اپنے نامہ اعمال میں کوئی خوش بختی کااضافہ نہیں کرسکی ہے البتہ مولانافضل الرحمن نے بھرپوراندازمیں سودن کی اننگزکھیلی ہے انہوں نے اپنی اننگزکے آخری اوورمیں سکھرمیں جوبیٹنگ کی ہے اس نے سب کے چھکے چھڑادیئے ہیں سندھ دھرتی کی یہ تاریخ سازمیچ تھا جوجمعیت علماء اسلام کے سررہا،جمعیت علماء اسلام ف کے نوجوان رہنماء علامہ راشدسومرو سندھ میں انقلاب اورتبدیلی کانشان بن کرابھرے ہیں،اورمستقبل کے سندھ میں ان کاکردارنہایت واضح ہے ،وہ اپنے والدکی میراث کے حقیقی جانشین اوروارث کے طورپرسامنے آئے ہیں، ان کے والدعلامہ ڈاکٹرسینیٹرخالدمحمود سومرو کوآج سے چارسال قبل 29نومبرکونمازفجرمیں گولیاں مارکرشہیدکردیاگیاتھا قاتل اب بھی آزادہیں مظاہر ے ،جلسے ،جلوس بہت ہوئے مگرسندھ حکومت روایتی لیت ولعل سے کام لیتے ہوئے اصل قاتلوں کوبچانے کی کوشش کررہی ہے ۔

الیکشن کے بعد سے مولانافضل الرحمن دیگرجماعتوں کودعوت دے رہے ہیں ، مسلسل کوشش میں ہیں کہ اپوزیشن مل کرآگے بڑھے ،مگرہرجماعت کی اپنی مجبوری اوراپنی تدبیرہے کہ کس طرح پھندے سے بچاجائے ، حالانکہ ہاتھ ان کے گریبان تک پہنچ چکاہے وہ کبوترکی طرح آنکھیں بندکرکے انجام سے بچنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ،س لیے کسی کوہمت نہیں ہورہی کہ وہ میدان عمل نکلے ، سب کوپتہ ہے کہ جومیدان میں نکلے گا وہ ،،قربان ،،ہوگا ،ایسے میں مولانافضل الرحمن ہی نعرہ مستانہ لگارہے ہیں ۔

مولاناکی سیاست میں اگرچہ مایوسی کالفظ نہیں ہے مگردیگراپوزیشن جماعتوں کی لیت ولعل کودیکھنے کے بعدوہ اکیلے ہی میدان نکل پڑے البتہ علامہ شاہ احمدنورانی مرحوم کے جواں ہمت صاحبزادے علامہ شاہ اویس نورانی ان کے ہمراہ خطابت کے بھرپورجوہردکھارہے ہیں۔متحدہ مجلس عمل میں شامل دیگرجماعتیں مزاحمت کی اس راہ میں ان کے ہمراہ نہیں ہیں ، کچھ لوگوں کواشارہ ملاہے کہ،، تعاونوعلی البر،،پرعمل کرتے ہوئے حکومت کے اچھے کاموں پران کاساتھ دو اورغلط کاموں پرتنقیدکرو،جبکہ باقی تیل دیکھ اورتیل کی دھاردیکھ کے مقولے پرعمل کرتے ہوئے موقع کی انتظارمیں ہیں نہ جانے ان کاانتظارکب ختم ہوگا؟مگرمولانانے پشاور،کراچی ،لاہور،کوئٹہ اورپھرسکھرمیں طوفانی جلسے کیے سکھرمیں مولانافضل الرحمن کے جلسے میں اگرچہ میڈیاکی آنکھیں نہیں کھلیں مگربہت سوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں عوام کاجم غفیرمولاناکوسننے کے لیے نکل رہاہے پرنٹ والیکٹرانک میڈیامولاناسے سوتیلی ماں جیساسلوک کررہاہے اس کے باوجود ان کاکارواں کامیابی سے چل رہاہے ،کچھ قوتوں کی کوشش ہے کہ آگ اورپانی کوملادیاجائے مگرمولانا،،کٹھ پتلی ،،حکومت سے ہاتھ ملانے بلکہ ایک لمحے کے لیے قبول کرنے کوتیارنہیں ہیں اگرچہ مولاناایک تنے ہوئے رسے پرچل رہے ہیں جہاں خطرات ہی خطرات ہیں مگروہ بلاخوف وخطرآگے بڑھ رہے ۔

ملک اورقوم پر ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے جہاں پر وہی مسلمان خاموش رہ سکتا ہے جس کے دل میں خشیت الہی نہ ہو ، دنیا کا خوف بھرا ہوا ہو، یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں پر بندے کے ایمان کا کوئی حصہ نہیں رہ جاتا ہے -مولاناخاموشی کابندھن توڑچکے ہیں، سچائی کی خاطر ڈٹ جانے والے موت سے بھی مات نہیں کھاتے وہ چوکوں چوراہوں میں کھڑے ہوکراس عزم ویقین کے ساتھ کرحکمرانوں کوللگاررہے ہیں کہ شکست فتح خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن اس جگہ پر آپ کو لڑنا ہی ہوگا -اکابرین نے سبق پڑھایاہے کہ سومنات کامندرتوڑناہے توپلٹ پلٹ کرحملے کرناہوں گے اسی لیے ان کے نرم لہجے میں تلخی آتی جارہی ہے سیاسی اندازمیں بات کرنے والااپنااندازبدل رہاہے تیوربتارہے ہیں کہ وہ ایک بڑے معرکے کی تیاری کررہاہے ۔

سکھرجلسے میں انہوں نے اس کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ ہتھکڑیاں وہ اس تحریک کا راستہ نہیں روک سکتیں اور میں کہہ چکا ہوں کہ معاملہ کو شدت کی طرف نہ لے جاؤ۔ ورنہ تمہارے لئے ہم مہنگے ثابت ہوں گے۔ آسان ثابت نہیں ہو گے۔ جعلی حکومت نہیں چلے گی۔ مغرب کے اشاروں پر ناچنے والی حکومتیں نہیں چلیں گی۔ یہودیوں کی سپورٹ پر چلنے والی حکومتیں نہیں چلیں گی۔ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے قانون پر حملہ کرنے والی حکومتیں نہیں چلیں گی۔ قادیان کے لوگوں کو اور قادیانیوں کو پاکستان میں کھلا راستہ دینے کی سازشیں نہیں چلیں گی۔ نہیں چلیں گی۔

کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ مولاناکایہ اندازسیاست درست نہیں ،ہوسکتاہے کہ ان لوگوں کی یہ سوچ درست ہو مگرساری عمرجمہوریت اورپارلیمنٹ کی سیاست کرنے والے کوآپ ذبردستی اٹھاکرباہرپھینکوگئے توان سے واپس پھولوں کی توقع کیوں کررکھتے ہو؟سیاسی قیادت کودیوارسے لگاؤ گئے توپھرردعمل توآئے گا۔مولاناکے رگ و پا میں سیاست رچی بسی ہوئی ہے اور وہ ملک وملت کے تئیں مخلص بھی ہیں۔اس کے باوجود ان کے لہجے کی تلخی بڑھی ہے تواس کے پیچھے بھی تووہ زہرہے جودھوکے سے آپ نے پلانے کی کوشش کی ہے ،مولانانے جس راستے کاانتخاب کیاہے دیگرجماعتوں کوبھی اس طرف آناہوگا آج نہیں توکل وہ بھی اس مہم میں شامل ہوں گی مگراس وقت پلوں کے نیچے سے پانی بہت بہہ چکاہوگا ۔

طاقت کے زورپرانہیں دباناآسان نہیں ہوگانہ ہی نیب ودیگراداروں تحقیقاتی اداروں سے مولانا بلیک میل ہوں گے گزشتہ کئی ماہ کی چھان پھٹک کے بعد بھی نیب ودیگراداروں کومولاناکے خلاف خاص کچھ ہاتھ نہیں آیاہے،حکمران ابھی تک ڈی چوک میں کھڑے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکرڈی چوک کی تقریریں کررہے ہیں یہ اندازحکمرانی جمہوری نہیں بلکہ آمرانہ ہے اس طرزحکومتیں نہیں چلاکرتیں ڈنڈے کے زورہانکنے کانظام ختم ہوچکاہے سیاستدانوں کوسیاستدانوں کے ذریعے بدنام کرنے کی یہ مذموم مہم زیادہ دیرتک نہیں چلے گی،تمھیں ہی بتاؤکہ یہ اندازحکمرانی کیاہے ؟ؒؒؒ جیلیں اورہتھکڑیوں سے وہ حکمران ڈرارہے ہیں جنھوں نے خودکبھی جیلیں اوریہ ہتھکڑیاں اورسختیاں جھیلی نہیں ہیں ۔مولاناتواس قبیل سے ہیں کہ جوجیلوں اورہتھکڑیوں کواس راستے کازیورسمجھتے ہیں یہ ہتھکنڈے ان کاراستہ نہیں روک نہیں سکتے۔ ہاں ایک کام کرسکتے ہوکہ سوشل میڈیاکے شیطانی چرخے سے ان کی کر دارکشی کی مہم چلاسکتے ہو۔حقائق کومسخ کرسکتے ہو۔بدزبانی اور غلط بیانی کرسکتے ہوالزامات لگاسکتے ہو ۔مگرثابت کچھ نہیں کرسکتے ہو، تم اظہارِ آزادی کاگلا گھونٹوگئے توپھراہل سیاست چوکوں چوراہوں پرہی مافی الضمیربیان کریں گے ، شخصی آزادی بھی اگرسلب کرنے کی کوشش کی جائے گی توپھرلامحالہ گھٹن توبڑھے گی اوراس گھٹن کے ماحول میں کوئی بھی کام نہیں کرسکے گا صرف پتلی تماشاہی کرناہے توپھرجمہوریت کوتوبدنام نہ کیجیے ۔

اسی لیے مولانانے سکھرجلسے میں کہاکہ جب ہماری اعلی عدالتیں جب ہماری حکومتیں جب ہماری مقتدر قوتیں بین الاقوامی دباؤ کے تحت پاکستان کی نظریاتی شناخت کو ختم کرنا چاہیں اور اپنی قوم کو مضطرب کرنے اور مغربی دنیا کو مطمئن کرنے کے لئے فیصلے صادر کریں گے تو پھر ظاہر ہے پاکستان کی آزادی پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی اسلامی شناخت، پاکستان کی نظریاتی شناخت تبدیل کی جا رہی ہے اور جس کلمہ اسلام کے نام پر یہ مملکت حاصل کی گئی تھی آج اس کلمہ کا تصور ختم کیا جا رہا ہے *آج اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے کے بجائے امریکہ اور مغربی دنیا کا کلمہ پڑھا جا رہا ہے اور آپ کو وہ کلمہ پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

مولاناکا جرات مندانہ موقف ان کی ایک نئی حیات کا پیام دے رہاہے ۔ اپنی کئی بشری کمزوریوں کے باوجود بھی وہ آج ملک کے بہترین سیاسی قائدہیں، اس فرسودہ نظام کے خلاف وہ بغاوت کرچکے ہیں کیونکہ نا انصافی تا دیر قائم نہیں رہ سکتی ۔مردِ قلند اپنی کشتیاں جلا کر میدان میں نکل چکاہے۔اس کا نعرہ مستانہ ہی موجودہ نظام کی شکست ہو گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 47 Articles with 32630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.