عمران خان نے سو دنوں میں وعدے پورے کیے یا نہیں ......

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے سو دنوں میں عوام سے کیے گئے وعدے پورے کیے یا نہیں ۔ حکومت اور عوام کی جانب سے متضاد رائے کا اظہار کیاجارہا ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقائے کار فرماتے ہیں کہ ہم نے سو دنوں میں 375ارب کے جعلی اکاؤنٹس پکڑے ‘ 26ممالک سے ناجائزدولت واپس لانے کے معاہدے کیے ‘ بھارت سمیت کئی ممالک سے اچھے تعلقات استوار کیے سعودی عرب ‘ چین اور امارات سے مالیاتی پیکج حاصل کیے ‘مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا ‘ نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخانہ خاکے بنانے والوں کو روکا ‘ قبضہ مافیا سے اربوں روپے کی اراضی واگزار کروائی ‘ بیرون ملک پاکستانیوں کی پراپرٹی کا کھوج لگا یا ‘ قبائلی علاقوں کے لیے یونیورسٹی ‘ ہسپتال اور سپورٹس سرگرمیوں کا اعلان کیا ‘ پناہ گاہوں کا انتظام کیا ‘عالمی قرضوں کی واجب الادا قسطوں کی ادائیگی کا اہتمام کیا ‘ پسماندہ ترین علاقے سے وزیر اعلی پنجاب کاانتخاب ممکن بنایا‘کفایت شعاری کو ہر سطح پر رواج دیا ‘ نئے بلدیاتی سسٹم متعارف کروانے کی تیاریاں مکمل کیں‘بھاشا ڈیم سمیت مزید ڈیم بنانے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا ۔جبکہ اپوزیشن کا ردعمل بالکل اس کے برعکس ہے ۔بلاول زرداری کے مطابق مودی نے پاکستان کو اتنا بدنام نہیں کیا جتنا دوسرے ممالک میں جاکر عمران خان نے اپنے ملک کی برائیاں کیں ‘ سو دنوں میں 350یوٹرن لیے ‘ حکومتی اقدامات سے یوں محسوس ہوا جیسے ان کے پاس حکومت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ‘ مولانا فضل الرحمن کے مطابق عمران خان یہودی ایجنڈے کو پاکستان میں نافذ کرنے کی جستجو میں ہیں ‘ سکھوں کے لیے راستے ہموار کیے جارہے ہیں اورعلمائے کرام کو زنجیریں پہنائی جارہی ہیں‘ عمران خان کہتا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے میں خودکشی کرلوں گالیکن اب آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر ہی سجدہ ریز ہے ۔قادیانیوں کو کلیدی عہدوں پر فائز کیا جارہا ہے ‘ چوری کے ووٹوں سے بننے والی حکومت کو میں تسلیم نہیں کرتا ۔ سراج الحق نے کہا اور تو تبدیلی کہیں نظر نہیں آئی صرف مہنگائی کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے ‘ دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگاجاتاتھا غریب اور امیر میں پہلے سے زیادہ فرق دکھائی دیتا ہے ۔مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے کہاجارہا ہے کہ عمران خان کو کھیلنے کے لیے سیدھی پچ ملی ہے جس پر نہ فاسٹ اور نہ سپین باولنگ اثر دکھا سکتی ہے پھر بھی عمران کی کارکردگی صفر ہے ‘ وہ جو کہتا ہے عمل اس کے برعکس کرتا ہے ‘ کشکول اٹھاکر پوری دنیا میں بھیک مانگنے والا پاکستانی عوام کو کچھ نہیں دے سکا ۔اس کے پاس نہ صلاحیت ہے اور نہ ہی وژن ۔وہ اناڑیوں کی طرح بات کرتا ہے اور اگلے دن مکر جاتا ہے ‘الیکشن سے پہلے بھی عمران خان گالیوں اور بدتمیزی کا طوفان اٹھائے رکھا ‘ وزیر اعظم بننے کے باوجود اس کاانداز نہیں بدلا وہ اب بھی سب کو چور ‘ بددیانت اور کرپٹ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ خود بھی فرشتہ نہیں ‘ نکاح کے بغیر جگہ جگہ اولاد پیدا کرنے اور رنگ ریلیاں منانے ‘ شراب نوشی کرنے میں سب سے آگے دکھائی دیتا ہے ۔انہوں نے ریاست سے بغاوت پر اکسایا ‘ بجلی کے بل جمع نہ کرنے کی ترغیب دی ‘ اورسیز پاکستانیوں کو پیسے نہ بھیجنے کی تلقین کی ‘ جہاں جہاں بھی جلسہ کیا وہاں وہاں خواتین سے بدتمیزی کے مناظر دیکھے گئے ‘ وہ مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے ‘ سڑکوں پر رکاوٹ اور شہروں کو بند کرکے ریاست سے ٹکرانے کا جوکام عمران کرتے رہے ۔ وہی کام تحریک لبیک کررہی ہے تو اسے بغاوت کیسے قرار دیاجاسکتا ہے ۔ جو کام عمران کے لیے ٹھیک تھا وہ کام تحریک لبیک کے لیے غلط کیسے ہوگیا۔ تحریک لبیک کے رہنماؤں اور کارکنوں کو کو گھروں سے اٹھاکر جیلوں میں بند کردیا گیا ۔ عمران خان دہشت گردی کی عدالت سے دوسال تک مفرور ر ہنے پر اشتہاری قرار پائے ‘ عدالتوں کااحترام عمران کتنا کرتے ہیں وہ ایس ایس پی تشدد کیس میں دیکھاجاسکتا ہے ۔صدر ‘ وزیر اعظم ‘ وزیر خزانہ ‘ وزیراطلاعات ‘ وزیر تعلیم سمیت آدھی کابینہ دہشت گردی عدالت میں ملزم کی حیثیت سے کھڑی ہے ۔عمران خان کے رویے اور تکبرانہ گفتگو کو دیکھتے ہوئے خورشید شاہ انہیں ہٹلر کاخطاب دے چکے ہیں ‘ احسن اقبال انہیں اناڑی قرار دے چکے ۔رانا مشہود کے بقول عمران خان کو اقتدار میں لانے والے اب پچھتا رہے ہیں انہوں نے جسے گھوڑا سمجھا تھا وہ گدھا نکلا۔ یہ تو مخالف سیاست دانوں کا عمران خان کے سو روزہ کارکردگی پر تاثر تھا ۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ اب بھی سرکاری دفتروں میں سائلوں سے رشوت وصول کی جاتی ہے ‘ تھانوں میں اب بھی شرفا ذلیل خوار ہوتے ہیں ۔بجلی ‘ گیس اور پٹرول کی قیمتیں کم کرنے کی بجائے بڑھا دی گئیں ‘کراچی میں اب بھی پانی اور بجلی کا بحران سراٹھائے کھڑا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ نہ عمران خان اور نہ فواد چودھری کو اپنی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ چیئر مین سینٹ سے وہ جس لہجے میں بات کرتے ہیں اس کے بعد انہیں وزارت پر قابض رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اپوزیشن لیڈروں کو چورڈاکو کہناان کا محبوب طرز تخاطب ہے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب چیئرمین سینٹ نے فواد چودھری کو سینٹ سے نکالا تو عمران خان نے کہا کہ کسی کو ہمارے وزیر کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ۔عمران خان سینٹ اور قومی اسمبلی میں کتنی بار گئے اس کا حساب وہ خود ہی جانتے ہیں ۔ایک شخص نے ان سادگی اور کفایت شعاری پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت خوب کہا گاڑی سے اتر کر وہ ہیلی کاپٹر میں سوار ہوگئے جو بقول فواد چودھری کے رکشے سے سستی سواری ہے ۔بس یہی تبدیلی تو ہمیں دکھائی دیتی ہے ۔نہ بڑے بڑے محلات کی سرکاری رہائش گاہوں کو ختم کیاجاسکا۔نہ تعلیم سستی ہوئی ‘ نہ صحت کارڈ تقسیم ہوئے ‘ نہ کلین اینڈ گرین پاکستان بنا ‘ نہ غریب کی حالت بدلی ‘نہ بے روزگاروں کو نوکریاں ملیں ‘ نہ بے گھر افراد کو گھرمیسر آئے ‘خزانہ خالی کا رونادھونا شروع سے آج تک ہر جگہ رویاجاتارہا ۔نوائے وقت رپورٹ کے مطابق عمرانی حکومت نے صرف سو دنوں میں 29کھرب کا قرضہ حاصل کیا ۔ڈالر کی قیمت بڑھنے سے 900 ارب کا قرضوں میں جو اضافہ ہوا وہ اس سے الگ ہے ۔اب بھی عمران خان فرماتے ہیں کہ آنے والے دن آسان نہیں ‘بہت مشکل ہوں گے ۔خداخیرکرے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 668937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.