امریکہ میں بسنے کی چاہ!

 دستگیر نواز
فرحین Living Hall میں بیٹھی کسی اُردو کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھی،ابھی مغرب ہونے میں کافی وقت تھا۔مطالعہ فرحین کی کمزوری تھی یا یوں کہنا درست ہو گا اُسے جنون کی حد تک مطالعہ کا شوق تھا اور وہ جب کبھی اپنے ملک آتی ضرور با ضرور اپنے پڑوس میں رہنے والے خان چاچا کے پاس سے چند چنندہ کُتب لے جاتی تھی اور خان چاچا سے کہتی تھی یہ کتابیں وہاں پردیس میں نہ صرف میری تنہائی کی ساتھی ہوتی ہیں بلکہ آپ تمام کی یاد بھی دلاتی رہتی ہیں۔
خان چاچا اورفرحین کے والد کا کوئی خونی رشتہ تو نہیں پھر بھی نصف صدی سے بھی زیاد عرصہ سے دونوں گھرانے ایک دوسرے کے ساتھ یوں رہتے ہوئے آئے ہیں جیسا کہ حقیقی رشتے دار ہی ہوں۔فرحین کے دادا،دادی جب با حیات تھے تو خان چاچا کے والد ،والدہ نے انسانیت کی خاطر ایک بہترین پڑوسی کا رشتہ بنایا تھا کیوں کہ 1944؁ء میںجب خان چاچا کے والد نے پڑوس میں گھر خریدا تھا ۔ اُس سے بھی قبل فرحین کے دادا یہیں مقیم تھے۔دونوں طرف کے بزرگوں نے جو رشتہ قائم کیا تھا بلکہ یوں کہنا چاہئے جس رشتہ کی بنیاد رکھی تھی اُس رشتہ کو فرحین کے والد اور خان چاچا نے پروان چڑھایا تھا،اس طرح دو بہترین پڑوسیوں کا ساتھ وقت کے گزرتے گزرتے ایک مضبوط رشتہ میں بدل چکا تھا ۔
اس طرح دو پیڑیوں کے ساتھ کو اور مضبوطی فراہم کرنے کے لئے تیسری پیڑی کے روپ میں فرحین اور مہناز بھی اپنا حق ادا کرنے لگی تھی یعنی یہ دو نوں بھی بہت اچھی سہلیاںثابت ہوئی تھیں اور لڑکوں میں فرحین کے منجلے،سنجلے اور چھوٹے بھائی، خان چاچا کے چوتھے ،پانچویں اور چھٹے لڑکوں کے گہرے دوست رہے،اس طرح کہ دیکھنے والوں کو،ملنے جلنے والوں کو کبھی یہ احساس ہی نا ہو پایا کہ ان دو گھرانوں میں رشتہ انسانیت کے سوائے کوئی اور رشتہ ہی نہیں۔ یہ جانکر نہ صرف حیرت ہوتی ہے بلکہ رشک کرنا پڑتا ہے کہ یہ سلسلہ اب چوتھی پیڑی تک پہنچ چکا تھا یعنی فرحین کے لڑکے مہناز کے لڑکوں کے دوست ہیں تو اُدھر اسکے بھائیوں کے لڑکے اور خان چاچا کے پوترے ایک دوسرے کے بہترین دوست ہیں۔
ثریا کی رُندھی ہوئی آواز سے وہ چونک سی گئی تھی پلٹ کر دیکھا تو ثریا کہہ رہی تھی
آپ ہمت سے کام لیجئے
امی سے بات کیجئے
آپ امی سے بات کیجئے کہتی ہوئی، ساس سے کہا، امی یہ لیجئے بات کیجئے کہہ کر اپنا Smart phone ساس کے ہاتھوں دیدیا
فرحین نے دیکھا شہزادVideo call پر ہے پسنہ سے تربتر چہرہ لئے مایوسی میںڈوبی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا امی ۔۔۔۔امی میرے لئے دُعا کیجئے امی۔ میرے سینہ میں ناقابل برداشت تکلیف ہو رہی ہے، امی میں بڑی مشکل سے Drive کررہا ہوں امی، بس کچھ ہی دیر میں ہاسپٹل پہنچ جائونگا امی، بس آپ دُعا کیجئے میری حالت بگڑتی جا رہی ہے امی۔
شہزاد کی حالت دیکھ کر اسکی خود حالت غیر ہو چکی تھی۔ماں ہے آخر وہ بھی۔ سارے جسم میں تھرتھراہٹ سی محسوس کرنے لگی ۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔اس سے قبل کے وہ چکرا جاتی یا پھر اپنے حواس کھو دیتی اسکے ہاتھوںمیں رکھے فون کی گھنٹی پھر سے بجنے لگی وہ یک لخت ہڑ بڑا گئی اور فون ثریا کی جانب بڑھاتے ہوئے غم میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا دیکھو کون ہیں۔ثریا نے فون پر کسی سے بات کرنے کے بعداسکی سمت بڑی اور نہایت ہی صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے نہ صرف اپنے آپکو سمبھالا بلکہ ساس کو بھی ہمت دلاتے ہوئے کہنے لگی امی آپ فکر مت کیجئے وہ دواخانہ پہنچ گئے ہیںCalifornia کے بہت بڑے ہاسپٹل میں ہیں وہ ، میں نے مختار کو بھی فون کردیاہے وہ بھی کچھ ہی دیر میں یہاں پہنچ جائنگے ۔آپ ہمت سے کام لیجئے سب سب ٹھیک ہو جائیگاآپکی دُعائوں کی سخت ضرورت ہے امی بس آپ دُعا کیجئے۔
فٖرحین کے پاس اب کوئی چارہ نہیں تھا وہ اور کیا کرسکتی تھی۔ اپنے ملک،اپنے شہر،اپنے محلہ میں ہوتی تو اب تک ہزارہا افراد ایسے وقت میں جمع ہوجاتے۔پردیس میں وہ کیا کرسکتی تھی ۔کس کو کہتی ،کیا کہتی،کیسے کہتی اپنے گھر ہوتی تو ماں ہی کافی تھی اسے تسلی دینے ،اپنے سینہ سے لگا کر اسکے دکھ درد کو تسکین میں بدلنے کے لئے۔ واہ رے وقت تیرا بھی جواب نہیں ۔جب بھائی کی موت ہوئی تو میں یہاں تھی اپنی ماں سے ملکر ماں کا دکھ درد دور کرنہ سکی اب میرا بیٹا زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے تو ماں میری ماں وہاں ہے۔ بڑی مشکل سے اپنی تمام تر اندرونی قوت کو ایک جگہ جمع کرتے ہوئے وہ کرسی پر سے اُٹھنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوگئی اب وہ Washroom کی طرف چل پڑی اور اُسے بہت ہی دشواری ہو رہی تھی دماغی وسوسوں کو دماغ سے دور بہت دور بھگانے میں،دلی کیفیت کو اپنے چہرے پر عیاں ہونے سے بچانے میں،پھر بھی وہ حوصلہ نہیں ہاری اور وضو کرکے مصلّہ پر آہی گئی اور سجدہ ریزہوگئی۔اب ایک ماں تھی اپنی دلی کیفیت لئے، بے بس، مجبور،لاچار جسکے لب سلے ہوئے تھے،آواز جیسے کہیں کھو گئی تھی اور آنکھوںمیں اشکوں کا سیلاب لئے،اسکے دربار میں آگری تھی جو اپنے بندوں سے ستّر مائوں کی محبت رکھتا ہے۔
مختار گھر پہنچ چکا تھا اپنی بھابی سے سرگوشی سے انداز میں گفتگو کر رہاتھا،اسی دوراں پھر سے ثریا کا فون بجاوہ بات کرنے لگی ،مختار Washroom کی طرف چلا گیا ابھی وہ ٹھیک سے فریش بھی نہ ہو پایا تھا کہ ثریا کی سسکیاں سُنائی دی وہ عجلت میں باہرنکل آیا دیکھا تو اسکی بھابی ہال میں کرسی پر بیٹھی سسکیاں لے رہی تھی۔
بھابی کیا ہوا؟
بھابی کس کا فون تھا ؟
بھابی بتائیے نہ کہ کس کا فون تھا؟
بھابی آپ کچھ کہتی کیوں نہیں۔
ثریا تصویر بنی سامنے Corner piece پر لگے ہوئے Frame میں لگی اپنے شوہرکی تصویر کو حسرت بھری نگاہوں سے بنا پلک جھپکائے دیکھتی رہی۔اس سے قبل کہ مختار پھر سے کچھ دریافت کرتا اور کوئی سوال کرتا یا پھر اپنی بھابی کی حالت سمجھ پاتا،وہاں فرحین ہال میں آچکی تھی،جیسے ہی مختار کی نظر اپنی ماں پر پڑی وہ قریب گیا اور ماں سے کہنے لگا امی بھابی کو فون آیا تھا، میں نے بھی ہاسپٹل فون کیا تھا کیفیت لے لیا ہوں،کوئی فکر کی بات نہیں سب ٹھیک ہو جائیگا۔بس آپ دعا کیجئے ہاں میں نے وہاں اپنے گھر اور خان چاچا کے گھر بھی فون کردیا ہوںوہاں بھی سبھی لوگ دعا کر رہے ہیں شہزاد بھائی کے لئے۔ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
فرحین کی نظر جب ثریا پر پڑی تو ٖفرحین ثریا کی حالت دیکھتے ہی سب کچھ سمجھ گئی اسے کسی سے کچھ پوچھنے، کسی کو کچھ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی، وہ مختار سے بھی کوئی سوال نہیں کرسکی۔مختار کا فون بجنے لگا اُس نے فون پر بہت ہی دھیمی آواز میں گفتگو کی اور ماں و بھابی کی طرف پشت کرتے ہوئے اپنے جیب سے رُمال نکالا اور آنسوں کے بہتے ہوئے سیلاب کو رُمال میں جذب کرنے یا پھر رُمال کے سہارے اس سیلاب کے آگے باندھ باندھنے کی ناکام کو شش کرنے لگا۔
فرحین ثریا کی حالت دیکھ کر پہلے ہی تمام تر حالات کو بخوبی سمجھ چکی تھی۔اب وہ ثریا کے قریب گئی اور اُسے بنا کچھ کہے چند لمحے دیکھتی رہی لیکن ثریا تمام عالم سے بے خبراپنی نگاہیں شہزاد کی تصویر پر لگائے آنسوئوں سے تر بتر چہرہ لئے دکھ درد کی تصویر بنی بیٹھی ہی رہی۔ فرحین کے دل میں ایک ہوک سی اُٹھی اور دماغ میں وہ منظر گھومنے لگے جب چوبیس سال قبل سعودی سے سمیر کے انتقال کی خبر آئی تھی، گھر کے پاس سارے کا سارا محلہ جمع ہو گیا تھا ،خان چاچا کا بنگلہ کسی دلھن کی طرح سجایا گیاتھا اُنکے لڑکے کی شادی تقریب چند دن بعد ہونے والی تھی پورے کا پورا بنگلہ Lighting سے جگ مگ کر رہا تھا لیکن جیسے ہی سمیر کے انتقال کی خبر آئی خان چاچا نے رنگ برنگی بجلی بتیوں کو گل کروادیا اور پھر تمام تر تقریبات مکمل ہونے تک بھی دبارہ کبھی روشن نہیں کیا۔
ثریا کو تڑپتا دیکھ کر فرحین سوچنے لگی یہ کیسے طے کر پائیگی زندگی کااتنا لمبا سفر جو ہمسفر کے گزر جانے کے بعد اور بھی طویل تر ہوجاتا ہے،معصوم بچوں کا کیا ہوگا ؟ ابھی تو یہ بہت چھوٹے ہیں،کیا ہوگا ان سب کا دیکھتے ہیں آگے جاکر حالات کیا موڑ اختیار کرتے ہیںویسے بھی اللہ تعالیٰ جو بھی کرتے ہیں وہ بندوں کی بھلائی کے لئے ہی ہوتا ہے اور مالک کے ہر کام میں ایک مصلحت رہتی ہے جو ہمیں دیر سے سمجھ میں آتی ہے۔
ایک بار پھر مختار کا فون بجا پھر اُس نے دھیمی آواز میں گفتگو کرتے ہو ے کوئی لاحہ عمل طئے کر رہا تھا اور ماں سے کہنے لگاآپ ہمت سے کام لیجئے میں ابھی ہاسپٹل جارہا ہوںمیرے دوست بھی ساتھ چل رہے ہیںانشاء اللہ سب ٹھیک ہوجائگا آپ کوئی فکر نہ کیجئے ۔فرحین سوچ رہی تھی ایک بیٹا تو چلا گیا اور دوسرا اپنے آپکو مجھ سے بھی بڑا بن کر دکھانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اُسے کیا پتہ ؟میں ماں ہوں اور ماں ممتا نچھاور کرے تو نرم موم سے بھی نرم اور حوصلہ دکھانے پر آئے تو فولاد بھی اپنے آپکو اُسکے سامنے نرم پڑتا پائے خیر۔

جیسے ہی مختار گھر سے باہر نکلا فرحین اپنی کرسی سے اُٹھی سیدھے ثریا کے پاس آئی اور کہنے لگی بیٹی اپنے آپکو سمبھالوورنہ ان معصوموں کا کیا ہوگا؟ اب تمہیں یہ فیصلہ کر لینا ہو گا کہ آگے کیا کرنا ہے اور یہ جان لو بیٹی آج سے تم ہی انکی ماں اور تم ہی انکے لئے باپ ہو۔تمہیں پتہ ہے جب چوبیس سال قبل سمیر کے انتقال کی اطلاع آئی تھی تو میرا بھی یہی حال ہوا تھا اور زندگی بے فیض ،دنیا بدرنگ دکھائی دینے لگی تھی لیکن میں نے اپنے بچوں کا خیال کیا اور اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ دیکھو بیٹی آج بھی زندگی رواں ہے۔تمھارا غم مجھ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے لیکن اب ہمیں غم سے نڈھال ہونے کے بجائے حالات سے مقابلہ کرنا ہوگا بیٹی۔آج نا جانے کیوں میںاپنے آپکو بہت ہی ناطواںاور دکھی سا محسوس کر رہی ہوں ۔آخر ماں ہو ںنا، پھر بھی بیٹی یہاں میں،تم اور منجلی بہو ہی ہیں جو ان معصوموں کو سمبھال سکتے ہیں۔اب تمہیں بہت ہی صبر اور تحمل سے کام لینا ہوگا۔ اتنا سب سننے کے بعد ثریا اپنی کرسی پر سے اُٹھی اور آکر اپنی ساس سے یوں لپٹی کہ بس رو رو کردم توڑ دیگی۔ صرف یہی کہتی رہی امی میں شہزاد کے بغیر کیسے جی پائو نگی؟ کیسے طے ہو گا یہ سفر؟ فرحین اُسے حوصلہ دیتی رہی اور یہی کہتی رہی بیٹی ہمت سے کام لو جائو Fresh ہوکر آئو۔ ثریا کسی Robot کی طرح بڑی مشکل سے اُٹھی اور اپنے کمرے کے طرف جانے لگی ٹھیک روبوٹ کی طرح جو کسی کے اشارے پر ہر کام کرتا ہے لیکن اُسکی خود کوئی مرضی نہیں ہوتی۔
فرحین کے یہ خواب و گماں میں بھی نہ تھا کہ آج ڈوبتا ہوا سورج اسکے گھر کے چراغ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گل کرجائیگا اور ثریا کی زندگی میں اُسکی تاریکی چھا جائیگی!ایسی ہی تاریکی کبھی فرحین کا مقدر بھی بنی تھی لیکن کئی سال گزر نے کے بعد اسکی زندگی میں خوشیوں کی روشنی چمک اُٹھی تھی شہزاد کئی برسوں کی جد و جہد کے بعد آخر کار امریکہ جانے کے لئے ویزا حاصل کرلیا تھا،دیکھتے ہی دیکھتے وہ بڑی چاہ سے امریکہ کے لئے روانہ ہوا پھر اٹھارہ اُنیس سال کے عرصہ کے دوراں شہزاد نے اپنے ملک میں اپنا گھر بنایا،خود کی شادی کی، اپنی بہن کی شادی کی، دو چھوٹے بھائیوں کی شادی کی اوراپنے تینوں بھائیوں کو نوکریاں بھی دلوادیا تھا، دو چھوٹے بھائی شہزاد کے ساتھ ہی رہتے تھے ایک اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ اور ایک ابھی غیر شادی شدہ تھا ،وہ اپنی ماں کو بھی امریکہ بلوالیا تھا سبھی لوگ پردیس میں بھی یوں رہ رہے تھے جیسے کہ اپنے ہی دیس، اپنے ہی گھر میں ہو۔فرحین بہت خوش تھی اپنے تینوں بیٹوں کے ساتھ دو بہویں اور انکے بچے،ایک لڑکے کی شادی ابھی ہونی باقی تھی،فرحین کبھی اپنے ملک میں تو کبھی پردیس میں ہوتی ہندوستان اور امریکہ اُسکے لئے گھر آنگن بنے ہوئے تھے، اسی دوران جب وہ امریکہ میں تھی یہاں اپنے ملک میں اُسکے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیاتھا وہ آنا سکی ۔
حالات یکسر بدل چکے تھے شہزاد کی امریکہ میں بسنے اور اپنی پوری Family کو وہاں بسانے کی جستجو بھی جاری تھی وہ کسی نہ کسی طرح اپنی بہن اور اپنے ایک بھائی اور اُسکے بیوی بچے کو امریکہ بلوانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا، جسکے لئے بڑی شدت کے ساتھ کوشش کر رہا تھا لیکن ایک بار پھر امریکہ میں Elections ہونے والے تھے اس بار جو امیدوار President کے لئے میدان میں تھا وہ بہت ہی جارحانا انداز اپنایا ہوا تھا، وہ امریکہ کے قانون میں سختیاں اور تبدلیاں چاہتاتھااور جیت کر آنے کے بعد اپنے تمام تر منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ بھی کر رہا تھا۔ قدرت کو یہی منظور تھا وہ منتخب ہو گیا، بس کیا تھا اُسنے اپنے کئے ہوئے وعدے پورے کرنے کا عمل شروع کردیا تھا۔وہ چاہتا تھا کے امریکہ کو غیر امریکوں سے پاک کر دیاجائے اور کسی بھی ملک سے آنے والوں کو ویزا فراہم نہیں کریگا اور جو کوئی یہاں دنیاکے دوسرے ممالک سے آئے ہوئے ہیں وہ واپس چلے جائیں ورنہ اُنکے ساتھ سخت ترین قانون کا استعمال کیا جائگا وغیرہ وغیرہ۔
دیکھتے ہی دیکھتے حالات دن بدن بد سے بدتر ہو تے جارہے تھے،امریکی عوام بھی غیر امریکی افراد پر دن دھاڑے حملہ کرنے لگی تھی ایک دو ہفتہ کے اندر اندر کئی لوگ اس حملوں کا شکار ہوئے کئی ہندوستانیوں کی جان بھی گئی،فرحین گھر بیٹھی کبھی کبھار T.V پر خبریں دیکھ کر شہزاد سے کہتی بیٹا یہ جو بتا رہا ہے ۔
کیا یہ سچ ہے بیٹا ؟
کیا حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں؟
کیایہ لوگ بھی انسانیت کا سبق بھول گئے؟
وہ ماں کے سوالوں کا جواب کیا دیتا ؟ کیسے دیتا؟ وہ خود پریشان تھا، کہنے لگا امی News channels کو کوئی اور کام تو ہے نہیں بتاتے رہتے ہیں کچھ نہ کچھ۔ایسا کچھ نہیں ہے ۔امی آپ فکر مت کیجئے۔ پھر بھی امریکہ کے حالات یوں تھے جیسے ابر اور سورج چھپم چھپی کھیل رہے ہو۔دن بدن بدلتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی کچھ کہنے کے موقف میں نہیں تھا کہ کل کیا ہوگا؟ آنے والے پل کیا ہوگا؟ امریکی شہریوں اور دوسرے ممالک کے باشندوں کے بیچ اب نفرت کی دیوار کھڑی ہو چکی تھی اور یہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ اس نفرت کی آندھی کی لپیٹ میںGreen Card Holders بھی آچکے تھے۔ جس کا ثبوت ہر جگہ ہر کام میں چاہے وہ دفتری معاملات ہو، کاروباری معاملات ہو یا پھر کسی تفریحی مقام یا پھر کسی سرکاری و غیر سرکاری تقریب ہی کیوں نہ ہو، ہر ہر جگہ پر امریکی و غیر امریکی کا فرق صاف طور پر نظر آرہا تھا، ہر کوئی یہ محسوس کر نے لگا تھا۔ کبھی کبھار شہزاد بے حد فکر مند ہوجاتا تھا یہ سب دیکھ کر اور اسے یہی فکر پریشان کر رکھی تھی کہ یہی حالات رہے تو کیسے گزارا ہو پائیگا؟ کیسے مقابلہ کرپائیگا وہ حالات کا؟ کیا اب بہن اور بھائی کو بلانا ناممکن ہو جائیگا؟ جس امریکا کو انسانیت نواز ملک سمجھ کر خوشی خوشی اُس نے جو شہریت حاصل کی تھی کہیں وہ اسکی زندگی کی سنگین غلطی تو نہیں تھی؟ زندگی اس طرح بسر ہو رہی تھی کہ بس اب کیا ہوگا ۔
فرحین کئی دنوں سے دیکھ رہی تھی کہ شہزاد بہت گم صم سا نظر آرہا ہے۔ اُسنے اپنے بیٹے سے بار ہا اس بارے میں دریافت بھی کیا لیکن وہ یہ کہہ کر ٹال گیا امی آج کل کام کاLoad کچھ زیادہ ہوگیا ہے بس اور کوئی بات نہیں۔پھر بھی وہ ماں تھی اسے یہی فکر کھانے لگی تھی کہ شہزاد کو کیا پریشانی ہے جس کے لئے وہ اتناDisturb ہے۔ وہ خدا سے دعائیں کرتی رہی کہ شہزاد کو راحت نصیب ہو وہ پریشانیوں سے آزاد ہوجائے۔پھر بھی اسے شہزاد کی حالت میں کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آرہی تھی بلکہ اور بھی پریشان سا نظر آنے لگا تھا شہزاد۔
اچانک ایک شام جب وہ مطالعہ میں مصروف تھی،ثریا نے اپنا فون لاکر شہزاد سے بات کروائی اور دیکھتے ہی دیکھتے چند گھنٹوں کے اندر اندر وہ ہوگیا جو کوئی سُنا یقین کرنے کو تیار نہیں تھا، لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا، جو کوئی بھی جاندار ہیں ان تمام کو ایک نہ ایک دن اپنے آپ کو موت کی آغوش میں سونپ دینا ہے۔
فرحین ہی پردیس میں اپنے خاندان کے لئے سب سے بڑی تھی اسی لئے ہر کوئی آ آکر اسے ہی پرسہ دے رہے تھے،پورے 48 گھنٹوں بعد شہزاد کی میت گھر لائی گئی تھی غسل،کفن اور دفن سب پردیس میں ہی ہوا۔فرحین ثریا اور بچوں کو دیکھ دیکھ کر اپنے میں آپ تڑپتی رہی، سسکتی رہی، بلکتی رہی ، بظاہر بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتی رہی۔ مختار اُسکی بیوی بچے اس سے لپٹ کر رورہے تھے وہ اُنھیںدلاسہ دے رہی تھی،چھوٹا بیٹا ماں سے لپٹ کر روتے روتے اپنا بُرا حال کر چکا تھا وہ بہت ہی صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اپنے بچوں اور بہوئوںکو دلاسہ دی رہی تھی اُنکی ہمت بندھا رہی تھی،پوترے کو سینے سے لگائی اندر ہی اندر کرب کے پہاڑ ڈھانے کی ناکام کوشش کرتی رہی وہ پوترئوں اور پوتریوں کو بہت چاہتی ہے دراصل ان بچوں کو نہ صرف دادی بلکہ نانی کا بھی پیار دیتی تھی،وہ اپنی ایک لوتی بیٹی کو اولاد نہ ہونے کا غم بھی بڑی ہمت سے جھیل رہی تھی،جب کبھی وہ اپنے اور پرائے بچوں کوکھیلتا کودتا دیکھتی توبے ساختہ اُسے اپنی بیٹی کی سوٍنی گود کا خیال ستانے لگتا ۔ اللہ کی مصلحت اللہ ہی جانیں۔
اب گھر پر ایک سکوت سا طاری تھا میت میں آنیوالے تمام تر لوگ شہزاد کے دوست احباب،آفس والے،کچھ یہاں کے کچھ وہاں کے جاننے والے پہچاننے والے ۔مختار کے دوست فرحین کی چند سہیلیاں جو یہاں بنی تھی تمام کے تمام جاچکے تھے۔ گھر پر جانلیوا خاموشی چھائی ہوئی تھی ہر شہہ پر اُداسی کا راج تھا یوں محسوس ہوتا تھا گھر کی ہر چیز شہزاد کے غم میں ڈوبی ہوئی ہے،گھر کے سارے مکیں سو چکے تھے سونا کیسا 50-60گھنٹوں کی بھاگ دوڑ کی تھکان کی وجہ وہ نیند کی آغوش میں چلے گئے تھے اُنکے دکھ ،درد اور غم سے نڈھال دل و دماغ کو نیند نے آدبوچ لیا ہوگا ۔
خیر فرحین کی آنکھوں سے نیند اُتنے میل ہی دور تھی جتنے میل وہ پردیس میں اپنوں سے دور بیٹھی ہوئی تھی۔ماں تھی کیسے نیند آتی اُسے،اپنا جوان بیٹا کھوچکی تھی ایسا بیٹا جو کبھی اپنے بھائیوں اور ایک لوتی بہن کو باپ کی کمی محسوس ہونے نہ دیا،وہ چھت کو گھورتے ہوئے اپنی گزری زندگی اور ثریا کی آنے والی زندگی کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی،ایک ہی جگہ چھت پر نظرین ٹکائے وہ بہت دیر تک لیٹی رہی اچانک وہ یوں اُٹھ کھڑی ہوئی جیسے کوئی Machine ہو جھٹ پٹ اپنا موبائل اُٹھایا اور اپنے گھر، اپنے دیس،اپنے شہر اپنی ماں کو فون لگایا۔لگتا ہے اِدھر فرحین اپنے بیٹے کے لئے تڑپ رہی ہے تو اُدھر ماں اپنی بیٹی کے لئے تڑپ رہی ہے۔اُسنے اپنی امی کی آواز سُنی بیٹی کیا ہوا؟ کیسی ہو؟ فرحین کہو تو سہی کچھ۔ کیوں فون کیا؟ وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ پائی ماں تھی وہ خود اور دوسری طرف اُسکی امی ۔ماں کی آواز نے اُسے جذباتی کر دیااور اُسکی ساری کی ساری دانشمندی،خوداعتمادی،دوراندیشی یک لخت کافور ہو گئی ضبط کا باندھ ٹوٹ گیا،وہ اپنی ہمت کا بھرم کھو چکی تھی زار قطار رونے لگی روتے روتے اُسنے کہا امی بڑی چاہ تھی شہزاد کو امریکہ میں بسنے کی۔۔۔۔اب اسکا رونا ہچکیوں میں تبدیل ہو چکا تھا وہ ہچکیوںکے درمیان کہہ رہی تھی امی۔۔۔۔ام۔۔۔ی۔۔۔آخر۔۔کار ۔۔شہ ۔۔۔شہز۔۔۔اد۔ امریکا میں بس ہی گیا!۔
٭٭٭٭٭٭٭

 

Dastagir Nawaaz
About the Author: Dastagir Nawaaz Read More Articles by Dastagir Nawaaz: 14 Articles with 11735 views I'M An Hyderabadi(Deccan) On 26th April 1971. Born in A Pathan Family My Name Is Dastagir Mohammed Khan (Yousuf zai) Pen Name Dastagir Nawaaz Given By.. View More