گزشتہ دنوں محکمہ تعلیم پنجاب کی جانب سے جاری کردہ ایک
رپورٹ دیکھنے کو ملی جس میں پنجاب بھر کے اضلاع کی تعلیمی حوالے سے
کارکردگی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے پنجاب کے 36 اضلاع میں سے ضلع راولپنڈی
اپنی کارکردگی کے لحاظ سے 33 ویں نمبر پر آیا ہے اس رپورٹ کے مطابق
راولپنڈی ضلع اساتذہ کی حاضری کے حواے سے 35ویں نمبر پر آیا ہے طلبہ کی
حاضریوں کے حوالے سے 13ویں نمبر پر اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز کی سکولوں کے
دوروں کے حوالے سے 32ویں نمبر پر کچھی جماعت میں حاضریوں کے حوالے سے 12ویں
نمبرمسنگ سہولیات جے ھوالے سے 14نمبر پر آیا ہے یہ رپورٹ سکول ڈیپارٹمنٹ
پنجاب نے جاری کی ہے ضلع راولپنڈی کے حوالے سے یہ رپورٹ پڑھ کر والدین ایک
بار پھر مایوسی کے دلدل میں پھنس گئے ہیں حکومت نے اساتذہ کے بے شمار
مراعات سے نواز رکھا ہے ان کو ہر طرح کی سہولیات دے رکھی ہیں فی سکول میں
اساتذہ کی آسامیوں میں اضافہ ہو چکا ہے اس کے باوجود اتنی ناقص کارکردگی نے
والدین کو چکرا کر رکھ دیا ہے بڑے عرصے سے یہ ڈھونڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ
سرکاری سکولوں کی کارکردگی اب پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو چکی ہے مگر اس
رپورٹ نے سارے پول کھول کر رکھ دیئے ہیں اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ
والدین کو صرف فرضی دعووں پر گمراہ کیا جاتا رہا ہے کارکددگی بچوں کو تعلیم
دے کر نہیں دکھائی جاتی رہی ہے بلکہ کارکردگی سکولوں کو رنگ روغن کر کے اور
والدین پر رعب جما کر دکھائی گئی ہے سکولوں میں سیکورٹی کے حوالے سے بھی
پنجاب گورنمنٹ نے ہیڈز کو خصوصی فنڈز مہیا کیئے ہیں تا کے اس حوالے سے کوئی
مسئلہ درپیش نہ رہے سکولوں میں اعلی قسم کے فرنیچر فراہم کیئے گئے ہیں
اساتذہ کو وہ مراعات دیں جو پنجاب گورنمنٹ کے دوسرے محکموں کے ملازمین کو
حاصل نہیں ہیں ان کی تنخواہوں میں سے اگر ایک سو روپیہ بھی کاٹ لیا جائے تو
پورا ضلع ہلا کر رکھ دیتے ہیں لیکن اس مایوس کن رپورٹ پر تمام اساتذہ
تنظیموں نے بلکل خاموشی اختیار کر لی ہے اب ان کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ
وہ اپنے اپنے سکولوں میں متعلقہ والدین کو بلوا کر اپنے آپ کو والدین کی
عدالت میں پیش کریں اور ان سے اپنی ناقص کارکردگی پر معافی مانگیں اور
آئندہ کیلیئے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کا وعدہ کریں کیوں کہ
والدین اپنے بچوں کو بڑی مشکل سے تعلیم دلوا رہے ہیں وہ اپنے پیٹ کاٹ کر
بچوں کی ضروریات پورا کر رہے ہیں لیکن اگر ان کو ایسے نتائج مل رہے ہیں تو
وہ یقینا مایوس ہی ہوں گئے دوسری طرف اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز جن کا کام ہی
سکولوں کو چیک کرنا ہے وہ سارا سارا دن دفتروں میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں
مصروف رہتے ہیں وی اپنے فراٗض منصبی کیوں نہیں صحیح طرح ادا کرتے ہیں وہ
سکولوں کے دورے کیوں نہیں کرتے ہیں گورنمنٹ نے ہر دو تین یو سیز پر ایک
اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر تعینات کر رکھا ہے اس کے باوجود بھی ان کا کارکردگی
کے لحاظ سے 32ویں نمبر پر آنا نہایت ہی قابل افسوس بات ہے اسسٹنٹ ایجوکیشن
آفیسرز کا سکولوں کے دورون کے حوالے سے دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ چند دن قبل
ایک سرکاری تقریب کے دوران میری ملاقات تھصیل کلرسیداں سے تعلق رکھنے والے
چند اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز سے ہو گئی میں نے ان سے پوچھا کہ آپ میں سے یو
سی غزن آباد کے سکول کس کے ما تحت آتے ہیں ان میں سے ایک یاسر اکرام نامی
افسر نے کہا کہ یو سی غزن آباد میرے پاس ہے مین نے ان سے گزارش کرتے ہوئے
کہا کہ آپ کبھی میرے گاوں کے سکول کا دورہ مجھے بتا کر کریں میں آپ کو سکول
کے حوالے کچھ گزاشات اور کچھ مسائل سے متعلق آپ کو آگاہ کروں گا لیکن وی
میرے بات کا بغیر کوئی جواب دیئے دوسری طرف متوجہ ہو گئے کیوں کہ انہوں نے
اس بات کو بلکل فضول سمجھ کر ٹال دیا تو یہ حال ہے ان کی زمہ داری کا ایسی
صورتحال میں ان کا کارکردگی کے لحاظ سے 32 نمبر پر آنا کوئی تعجب کی بات
نہیں ہے شکر ہے چار ضلعوں سے تو آگے رہے آئندہ یہ فرق بھی دور کر دیں گئے
حیرانگی اس بات پر ہے کہ ڈپٹی ڈی او میل ان کو سارا دن اپنے پاس کیوں
بٹھائے رکھتے ہیں ان کو اپنے اپنے سکولوں کی وزٹ کرنے کی ہدایات کیوں نہیں
کرتے ہیں ان کا خراب کارکدگی میں ڈپٹی ڈی اوز کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے
ہمارے معاشرے مین اساتذہ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اساتذہ کا
بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ والدیں اور عام افراد
ان کو مزید قدر کی نگاہ سے دیکھیں ایسا تب ہی ممکن ہو سکے گا جب اساتذہ
کرام اپنے فرائض کو اپنی زمہ داری سمجھ کر ادا کریں گئے وہ بچوں کی تعلیم
اور تربیت پر توجہ دیں گئے ناقص کارکردگی والدین کسی بھی طرح برداشت نہیں
کریں گئے یہ کتنے تعجب اور نا انصافی کی بات ہے کہ 36 ضلعوں میں سے 33 نمبر
پر آنا اپنے فرائض سے غفلت اور لا پرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے امید ہے کہ
ضلع راولپنڈی کے اساتذہ آئندہ سال اگر پہلے نمبر پر نہ ہی سہی تو کم از کم
پندرہ بیس ضلعوں سے آگے نکل جائیں گئے- |