ؒؒیہ 1856ہے خلافت عثمانیہ نے ٹیکس اصلاحات کااعلان
کیالیکن چارسال گزرنے کے بعدبھی عملی طورپراس ضمن میں بہت کم پیش رفت ہوئی
خلافت عثمانیہ کے زیراثرعیسائیوں نے ،،ذمہ ،،(ٹیکس )دینے سے انکارکردیاترک
حکومت دوطرف پھنسی ہوئی تھی ایک طرف یورپ دباؤڈال رہاتھا کہ وہ اپنے تمام
قوانین کومتحدہ یورپ کی رکنیت کے معیارکے مطابق جدیدبنائے جبکہ دوسری طرف
مقامی اکابرین غیرمسلموں کی طرف سے ٹیکس ختم کرنے سے آنکھیں دکھارہے تھے
ایسے میں مسلم مسیحی فسادات شروع ہوگئے ان حالات میں مسلم رہنماء
امیرعبدالقادرالجزائری میدان میں آئے اورفسادزدہ علاقوں سے ہزاروں عیسائی
خاندانوں کوڈھونڈڈھونڈکراپنے گھرمیں تحفظ فراہم کیا اوران کی کفالت کی
بعدازاں ہزاروں عیسائی خاندانوں کو بحفاظت بیروت روانہ کیا۔
دوسری طرف انہی سالوں میں ہندوستان میں 1857کی جنگ آزادی چھڑی تودل کے کالے
گورے حکمرانوں نے مسلمانوں پرظلم کے پہاڑتوڑڈالے ،دہلی کی فتح کے بعد
انگریز فوجوں نے شہری آبادی سے خوف ناک انتقام لیا۔ لوگوں کو بے دریغ قتل
کیا گیا۔ سینکڑوں کو پھانسی پر چھڑھا دیا گیا ۔دہلی کی جامع مسجد سے لیکر
پشاورتک علماء کی گردنیں پیڑوں پر لٹکی ہوئی تھی، ہزاروں نفوس گولیوں سے
اڑا دیے گئے۔ مسلمان چن چن کر قتل کیے گئے۔ مقتدر اور متمول مسلمانوں کی
جائدادیں تباہ کردی گئیں۔ اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے۔انگریزفوج کے
کمانڈر کیپٹن ولیم ہڈسن نے بہادر شاہ کو ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کیا۔
ہڈسن نے ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کوسرعام گولی مار دی۔یہی ہی وہ فرق ہے
جومسلم مفکرین ،قائدین اوراستعماری قوتوں کے ایجنٹوں کے درمیان ہے ،
امیر عبد القادر:6ستمبر1808 کوالسیدمحی الدین کے گھرالجزائر(شمالی افریقہ )میں
پیداہوئے فقہ مالکیہ کے مشہورعالم اورسلسلہ قادریہ سے وابستہ باعمل صوفی
تھے امیرعبدالقادرجب جوان ہوئے تویہ ایک نہایت بدقسمت عہد تھا جب مغربی
طاقتیں دانتوں پر خون لگائے دیوانہ وار ان کے ملک پر لپک رہی تھیں اس وقت
فرانس کا مراکش،الجیریا،سوڈان،شمالی و مشرقی افریقہ پر اور برطانیہ کا
یوگنڈا، نائیجیریا،کینیا، ترکی جزائر، آسٹریلیا، برصغیر پراور پرتگالیوں کا
انگولا ، برازیل اور برصغیر کے کچھ علاقوں پر قبضہ تھا-یعنی دولت کی حوس
اور تقسیمِ انسانیت کی سازش میں مغربی ممالک کی نوآبادیاتی یلغار جاری تھی
اور محکوم اقوام دفاع کیلئے کمر بستہ تھیں کچھ اسی قسم کی صورتحال کااس وقت
بھی مسلم امہ کوسامناہے-عالمی استعمارافغانستان ،عراق ،شام ،لیبیا،تنزانیہ
اوردیگرکئی ملکوں کوتباہ وبربادکرکے مسلمان ممالک کومزیدمحکوم بنانے کے
منصوبے پرعمل پیراہے استعماری طاقتوں کی اس یلغارکوروکنے کے لیے ہمیں ایک
عبدالقادرجیسے مدبررہنماء کی ضرورت ہے -امیر عبدالقادر کا اپنے علاقوں کا
دفاع کرنا،تمام قبائلی طاقتوں کو متحد کرنا اور ایک بہترین قابل فوج کے
ساتھ ایک حکومت قائم کرنا افریقی، عرب حکمرانوں کیلئے ایک سنگ میل اور رول
ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے-
ا میر عبدالقادر کی زندگی جہدمسلسل کا ایک بہترین نمونہ ہے-اس مردِ مجاہد
نے ایام ِ شباب میں ہی ملتِ اسلامیہ کو1832ء سے 1847ء سال تک فرانسیسیوں کے
قبضے سے بچانے کے لیے 16سال تک مسلسل مزاحمت کی اور اس کے بعد قیدوبند کے
ایام میں اپنے عمل و کردار اور رہن سہن سے اسلام کے خوبصورت پیغام کی ایسی
مجسم تصویر ثابت ہوئے کہ ان کے جو پہرہ دار تھے انہوں نے ان سے متاثر ہوکر
اسلام قبول کرلیا اور آج بھی فرانس میں مسلمانوں کا وہ قبرستان گواہی دے
رہا ہے کہ امیر عبدالقادرنے کسی بھی حال میں دین حق کی ترویج سے پس و پیش
نہیں کیا اور ہر حال میں اسلام کی خدمت کی 25مئی 1883 کو عبد القادر اپنے
خالق حقیقی سے جا ملے- اس وقت وہ مغربی دمشق کے ایک علاقے دومار میں موجود
تھے ان کی نمازِ جنازہ میں60 ہزار سے زیادہ افراد نے شرکت کی اور انہیں ان
کے مرشد شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی کے مقبرہ میں ا ن کے ساتھ دفن کیا
گیاجو ان کی دیرینہ خواہش تھی-
امیر عبد القادرغیر معمولی خوبیوں کے مالک تھے-وہ ایک عالم اور سپاہی تھے
اور ان کی تربیت بنیادی طور پر روایتی علم کی بنیاد پر کی گئی تھی لیکن
انہوں نے جدید ٹیکنالوجی اور علمی جدت کی پیروی بھی کی اور ان کے کردار سے
یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ علمی و فکری جدت کو انسانی معاشرے کے لیے بہت اہم
سمجھتے تھے-عبدالقادرکی زندگی فکری ورثے کے طور پر نوجوان نسل کیلئے ایک
بہترین نمونے کی حیثیت رکھتی ہے مثلاکامل مومن اور روحانی ورثے کا امین
ہونا اور دور جدید کے نئے علوم اور خیالات کو تسلیم کرنا اور دوسرے مذاہب
کے لوگوں کیلئے صبرو تحمل کا پیکر ہونا-
عبدالقادر کا دمشق میں انسانی جذبہ کے تحت عیسائیوں کو بچانے کا یہ عمل یہ
کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ بغیر کسی مذہبی تفریق اور تعصب کے انسانیت کے
قائد تھے ،ان کے اس اقدام پرمغربی دنیا،عیسائی ودیگرقوتیں آج بھی ان کی
گرویدہ ہیں،وہ ان کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہیں،کچھ عرصہ قبل جان
کائزرجواس وقت ورجینیا(امریکہ )میں مقیم ہیں انہوں نے کولمبیایونیورسٹی
یورپی تاریخ میں ایم اے اوریونیورسٹی آف شگاگوسے ایم بی اے کیانے
عبدالقادرالجزائری کی زندگی پرایک کتاب لکھی جس کااردوترجمہ،،سچے جہادکی
ایک داستان،،کے عنوان سے شائع ہوچکاہے ۔جان کائزرعبدالقادرکاسچاعاشق
اورپیروکارہے جان نے الجزائری کی شخصیت تحقیقی کام کیاہے اوران کے نام سے
ایک فاؤنڈیشن بھی بنائی ہے ،اس کے علاوہ عبدالقادر کی زندگی میں ہی ان کو
ایک بڑا ٹریبیوٹ امریکی کانگریس مین ٹموتھی ڈیوس نے پیش کیا جس نے امریکی
ریاست آئیو کے نو آباد شدہ شہر کو فرانسیسی قبضہ کے خلاف لڑنے والے اِس مردِ
حریت کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اس کا نام القادر(Elkader) رکھا-،وہاں کے
پبلک سکولوں میں طلبہ کو امیر کی شخصیت سے واقف کرانے کے لئے ایک مستقل،
تعلیمی پروگرام چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ امیر عبدالقادر کی جدوجہد کو ان کے
مخالفین بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے جیسا کہ فرانس نے انہیں ملک کے سب
سے بڑے فوجی اعزازLegion of Honorکے سب سے بڑے تمغے Grand Crossسے نوازا -
یونانی گورنمنٹ کی طرف سے انہیں سب سے بڑے فوجی اعزاز ؛Grand Cross Order
of Redeemerسے نوازا گیا عیسائیت کے مذہبی پیشوا پوپ کی طرف سے سب سے بڑے
فوجی اعزاز؛Grand cross Order of Pope Pius IXسے نوازا گیا-عثمانیوں کی طرف
سےOrder of Majidieسے نوازا گیا-امریکی صدر ابراہم لنکن کی طرف سے امیر عبد
القادر کو دو پستول اور ایک گھوڑا تحفے کے طور پر پیش کیا گیا ۔ امیر عبد
القادر کی جدوجہد آزادی کو بہت سے مغربی مصنفین اور شعرا نے خراجِ عقیدت
پیش کیاہے ،اسی طرح ایک برطانوی آفیسر چارلس ہینری چرچل نے The life of
Abdel Kader: نام سے امیر کی سوانح حیات لکھی ہے ۔
ہمارے بھائی ودوست قاضی عبدالقدیرخاموش بڑی لگن اورجدوجہدسے
عبدالقادرالجزائری کی تعلیمات کوعام کرنے کے لیے کوشاں ہیں ایسے ہی ایک
مذاکرے میں الجزائری پرتبادلہ خیال ہواقاضی صاحب سمجھتے ہیں کہ اس وقت ایسے
مردانِ با ہمت کی ضرورت ہے جو اپنے وقت کے نمرودی مسائل کے سامنے ایمانِ
ابراہیم کی شمع روشن کریں -آج کے عہد کے وہ لوگ جو خود کو برداشت ،تحمل ،صبراورمزاحمت
کی تحریکوں سے سے منسوب کرتے ہیں اورایسی تحریکوں کے تسلسل کے نمائندہ
سمجھے جاتے ہیں ان پہ ذِمہ داری عائد ہوتی ہے کہ امیر عبد القادر الجزائری
جیسے رہنماؤں کو رول ماڈل بنائیں اور عملی جد و جہد کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |