تحریر۔ڈاکٹر بہزاد کلیم ، ڈیرہ اسماعیل خاں
پچھلے دنوں ایمرجنسی میں دورانِ ڈیوٹی ایک مریض کے معائنے کا موقع ملا تو
معلوم ہوا کہ حضرت کے گردے پتھری کی وجہ سے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ مریض کی
حالت کی دیکھتے ہوئے ڈائلسز (Dialysis) کرنے کا فیصلہ ہوا۔ مریض کے لواحقین
نے حامی نہیں بھری اور مریض اپنی آخری سانسیں لینے کے بعد چل بسا۔ ایسے
بیسیوں مریض روازانہ کی بنیاد پہ او پی ڈی کے چکر بھی کاٹتے رہے ہیں۔ اتنی
بڑی تعداد میں پتھری میں مبتلا مریضوں کو دیکھنے کے بعدذہن میں کئی سوالات
نے جنم لیا کہ کیا کوئی حفاظتی تدابیر بھی ہیں کہ جن کو اپنانے سے گردوں کے
مرض کو اس نوعیت تک پہنچنے سے بچایا جا سکے؟۔ کیا پتھری پڑ جانے کے باوجود
بھی گردوں کو فیل ہونے سے بچایا جا سکتا ہے ۔؟
اِن تمام سوالوں کے جوابات گردوں کے عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹروں نے بڑے ہی
مفصل انداز میں بیان کئے ہیں۔ جو ذیل ہیں۔
1۔ گردوں کے امراض میں پانی کا کردار کسی سے ڈھکہ چھپا نہیں ۔پانی کا وافر
مقدار میں استعمال نہ صرف پتھری سے بچاؤ بلکہ علاج کیلئے بھی بے حد ضروری
ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کم سے کم آٹھ گلاس پانی کا روزانہ کی بنیاد پر
استعمال اس مقصد کے حصول کیلئے نہایت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی کے
استعمال میں اوقات کی پابند ی بھی لازمی ہے اور چاہے دن کا ہو یا رات کا،
استعمال دونوں اوقات میں پانی زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہے۔ تحقیق سے
ثابت ہوا ہے کہ عموماً گردوں کی پتھری رات میں بنتی ہے۔ جب رات کو نیند میں
خلل کے خوف سے پانی کم پیا جاتا ہے۔
پانی کے ساتھ ساتھ ان مریضوں کیلئے خوراک کا پرہیز بھی بے حد ضروری ہے۔
محققین کے مطابق خوراک میں گوشت وہ واحد چیز ہے جو پیشاب کی تیزابیت پہ اثر
انداز ہو کے پتھری کی بڑھوتری میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اسی بات کو مد
نظر رکھتے ہوئے ماہرین نے گوشت کا استعمال کم سے کم رکھنے کی ہدایات دیں
ہیں ایک اور تحقیق کے مطابق روزانہ گوشت کی دو چھوٹی بوٹیاں سے زیادہ گوشت
کا استعمال ہر گز نہ کیا جائے۔ مزید یہ کہ مصالحہ دار اور نمکین غذائیں جس
کا ہمارے معاشرے میں رواج بڑھ چکا ہے ، کا پرہیز بھی انتہائی ضروری ہے
کیونکہ ماہرین اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ نمکین اشیاء پیشاب میں کیلشیم کی
مقدار کو خطرنا ک حد تک بڑھاتی ہے اور پتھری کا باعث بنتیں ہیں۔ اسی خطرے
کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین دن میں ایک چھوٹی چائے کی چمچ سے زیادہ کا نمک
استعمال کرنے سے منع کرتے ہیں۔ ایک اور بات جس کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے
وہ یہ کہ ’ ’ چونکہ ہمارے خطے کے لوگوں میں دوسری پتھریوں کی نسبت کیلشم کی
پتھری زیادہ بنتی ہے تو بہت سے لوگ لاعلمی میں اپنی خوراک سے کیلشم بالکل
ہی نکال لیتے ہیں جو کہ پتھری کو روکنے کی بجائے بڑھوتری کا باعث بنتی ہے۔
لہذا روزمرہ کی اشیاء جیسے دودھ ،دہی وغیرہ کا استعمال ضرورت کے مطابق ہی
جاری رکھنا چاہئے‘‘۔ مز ید یہ کہ کچھ اشیاء جیسے چاکلیٹ، کولڈ رنکس، خشک
میوہ یا پالک وغیرہ کا پرہیز بھی بعض اوقات ان مریضوں میں ضروری ہو جاتا ہے
جو کہ اپنے معالج کے مشورے سے کرنا چاہئے۔ آخر میں قارئین کو بتاتا چلوں کہ
اوپر بیان کیا گیا پرہیز خاص کر اُن حضرات کیلئے جن کو ماضی میں یا تو
پتھری کی شکایت رہی ہو یا ابھی زیرِ علاج ہوں تاہم صحت مند حضرات بھی اگر
اِن اشیاء کا ضرورت سے زیاد استعمال کریں گے تو وہ بھی اس مرض کا شکار ہو
سکتے ہیں۔ |