پاکستان میں صحت کے شعبے کی حالتِ زار

ال ہی میں شائع ہونیوالی دو رپورٹس پاکستان میں صحت کی سہولیات کی حالت ِزار کی واضح منظرکشی کرتی ہیں۔ پہلی رپورٹ یونیسف کی جانب سے شائع کی گئی ہے جس میں نوزائیدہ بچوں کی شرحِ اموات کے حوالے سے پیش کی جانیوالی فہرست میں افغانستان اور سینٹرل افریقن ممالک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پاکستان پہلے نمبر پر آگیا۔

حال ہی میں شائع ہونیوالی دو رپورٹس پاکستان میں صحت کی سہولیات کی حالت ِزار کی واضح منظرکشی کرتی ہیں۔ پہلی رپورٹ یونیسف کی جانب سے شائع کی گئی ہے جس میں نوزائیدہ بچوں کی شرحِ اموات کے حوالے سے پیش کی جانیوالی فہرست میں افغانستان اور سینٹرل افریقن ممالک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پاکستان پہلے نمبر پر آگیا۔ دوسرے نمبر پر، نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق پاکستان کے45فیصد بچوں کی افزائش ٹھیک نہیں ہے جس کی وجہ غذائیت کی شدید کمی ہے جوکہ مستقل جسمانی اور ذہنی مسائل کا سبب بنتی ہے۔ اگر پاکستان میں ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع دستیاب بھی ہوں تو ایک نسل کا نصف ان مواقعوں کو پوری طرح استعمال کرنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ دوسری جانب، غذائیت کی کمی کا شکار ان بچوں کی اتنی بڑی تعداد ہمارے صحت کے فرسودہ نظام پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے جو پہلے ہی مریضوں کی ایک بڑی تعداد کو مناسب سہولیات اور ادویات فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ان رپورٹس کے علاوہ اگر صحت کے دیگر شعبوں کی بات کی جائے تو صورتحال کسی بھی لحاظ سے تسلی بخش نہیں کہی جاسکتی۔ اس وقت ملک میں بچوں کو خسرے سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے کی شرح صرف 50فیصد ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں بچوں میں خسرے کی بیماری ایک وبائی صورت اختیار کر لیتی ہے اور گزشتہ برس پاکستان میں خسرے کے 6494 کیسز سامنے آئے تھے جبکہ افغانستان میں ایسے کیسز کی تعداد 1511 اور جنگ زدہ شام میں صرف 513 رہی۔ اسی طرح بچے کی پیدائش کے دوران ماں کی ہلاکت کی شرح کو دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر 10000 ماؤں میں 286 مائیں زچگی کے دوران اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں جبکہ بلوچستان میں مذکورہ تعداد 786 ہے۔ ہسپتالوں میں بیڈز کی کمی اور کوریڈورز میں مریضوں کی ہلاکت کی خبریں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں اور ان خبروں کے باعث چیف جسٹس آف پاکستان نے بذاتِ خود ملک میں صحت کی سہولیات کی دگرگوں صورتحال کو بہتر کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔ وزارتِ صحت میں بہتری لانے کیلئے چیف جسٹس کے ان قدامات کے باعث ان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے لیکن یہ وہ کام ہے جس پر پورے ملک کے مستقبل کا انحصار ہے اسلئے چیف جسٹس نے اس تنقید کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ اسی طرح جعلی ادویات کی بھرمار اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے مسائل پاکستان میں ہر خاص وعام کو معلوم ہیں۔ یہاں پر یہ بات دلچسپی کا باعث ہے کہ جہاں ملک میں صحت کی صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے وہیں پر ملک کے طول وعرض میں میڈیکل کالجز، میڈیکل یونیورسٹیوں، ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور نرسوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیکنالوجی میں آنیوالی ترقی اور مختلف ایپس کی وجہ سے اب تشخیص اور علاج کے طریقہ کار میں بہتری آئی ہے لیکن ٹیکنالوجی کی یہ ترقی صرف پرائیویٹ ہسپتالوں تک محدود ہے جہاں سے ملک کا امیر طبقہ ہی اپنا علاج کروا سکتا ہے۔ ہیلتھ کیئر میں بہتری کیلئے جہاں ڈی ایف آئی ڈی جیسے ڈونر ادارے پنجاب میں 65ملین ڈالر کی امداد دے رہے ہیں وہیں پر ورلڈ بنک نے ہیلتھ منسٹری میں اصلاحات کیلئے پنجاب حکومت کو قرضہ فراہم کیا ہے۔ ان بھاری رقوم کی وجہ سے ہیلتھ کیئر کی مجموعی صورتحال میں بہتری آنے کی بجائے صحت کی دو وزارتیں اور دو سیکرٹریٹ بنا دیئے گئے ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر کی جانیوالی اصلاحات کی وجہ سے ہیلتھ کیئر کے بحران پر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جاسکتا اس کیلئے جامع منصوبہ بندی کے علاوہ فنڈز کی مسلسل فراہمی کی یقین دہانی بھی ضروری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ملک میں صحت کی سہولیات کی صورتحا ل کیا ہے؟ کیا اس وقت بھی ہمارے ملک میں ڈاکٹروں کی تعداد مطلوبہ تعداد سے کم ہے؟ یہ سچ ہے کہ آج بھی ملک میں مریضوں کیلئے ڈاکٹروں کی شرح ڈبلیو ایچ اوکے معیاری پیمانے کے مطابق نہیں ہے لیکن پھر ینگ ڈاکٹرز کی اتنی بڑی تعداد بیروزگار کیوں ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ مریضوں کی ایک بہت بڑی تعداد آج بھی عطائیوں سے اپنا علاج کروانے پر مجبور ہیں؟ چین کی آبادی پاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے لیکن چین میں نوزائیدہ بچوں کی شرحِ اموات پاکستان سے 12گنا کم ہے لیکن چین نے آج تک اپنے مریضوں کیلئے ڈاکٹروں کی شرح ڈبلیو ایچ او کے پیمانوں کے مطابق کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ صحت کے شعبے میں مسائل کی بات کی جائے تو ان کی دو بڑی کٹیگریز ہیں جس میں سے پہلی ان سفارشات کا جائزہ لینے کے نظام کی غیر موجودگی ہے جو اس بات کا اندازہ لگا سکے کہ سفارشات عوام کی بھلائی کیلئے مرتب کی گئی ہیں یا کسی کنسلٹنٹ نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے پیش کی ہیں۔ دوسرے نمبر پر ہمارے ملک میں وفاقی اور صوبائی سطح پر قائم ہیلتھ منسٹریز اپنے مقامی حالات کیمطابق منصوبہ بندی کرنے کی بجائے ڈونرز کی جانب سے فراہم کئے جانیوالے مشوروں پر عمل درآمد کرتی نظر آتی ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر چیز کی زیادتی بہتر ہوتی ہے اسلئے زیادہ بیڈز والے ہسپتال بنانے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے جو فنڈز کی کمی کی وجہ سے ہمیشہ ناکام ہو جاتی ہے۔ جہاں تک فنڈز کا تعلق ہے تو ہماری حکومتوں کو فلائی اوورز، سڑکیں اور پل بنانے سے ہی فرصت نہیں اور صحت جیسا اہم شعبہ ان کی ترجیحات کی فہرست میں سب سے نیچے ہےپاکس

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Samra Siddiqui
About the Author: Samra Siddiqui Read More Articles by Samra Siddiqui: 2 Articles with 4470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.