زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ہمارا اور آپ کا کبھی نہ
کبھی جاہلانہ رویوں سے واسطہ ضرور پڑا ہوگا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس رویے سے
سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں حالانکہ عورت ماں بہن بیٹی اور بیوی کے
روپ میں اللہ تعالی کی خوبصورت ترین تخلیق ہے۔ لیکن بیشتر کی زندگی بھی
پرتشدد رویوں کا سامنا کرتے ہی گزرتی ہے جو جہالت کی پست ترین شکل ہے ۔مذہب
ترین کہلائے جانے والے اور پس مانند دونوں ہی معاشروں میں یہ مسئلہ موجود
ہے یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی خواتین اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر
تشدد کا سامنا کرتی ہیں لیکن حیرت انگیز ا مر یہ ہے کہ مذہب ممالک بھی اس
معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں عالمی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین
پر تشدد کے حوالے سے روس سرفہرست ہے۔ اس ملک میں اگر مرد خواتین پر تشدد
کرتے ہیں تو خواتین بھی ان کے مقابلے ہی پر ہے حتی کہ قتل کرنے کے واقعات
تک رونما ہوتے ہیں۔ سوال ہمارے اپنے معاشرے کا تو یہاں خواتین کو ہمیشہ سے
مردوں کے مقابلے میں کم تر حیثیت ہی کا حامل سمجھا جاتا ہے خود خواتین بھی
نفسیاتی طور پر مردوں کی بالادستی کی قائل ہیں ۔ مردوں کی بالا دستی ایک
حقیقت سہی لیکن معاشرے کی ترقی میں خواتین کا کردار بھی کسی طور کم نہیں
خواتین ہر شعبہء زندگی میں اپنا مقام بنا رہی ہے اپنی حیثیت منوا رہی ہے
اور یہ ہر عورت کا حق ہے کہ اس کی عزت کی جائے اسے محکوم یا حقیر نہیں
سمجھا جائے اس کے انکار کو بھی انکار سمجھا جائے اسے کسی خوف یا جبر کے
بغیر زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے ازدواجی تعلقات میں بچیوں کی شادی کے
معاملات میں اس کی رائے بھی تسلیم کی جائے ۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ
ابھی تک شعور کی اس منزل تک نہیں پہنچا جہاں خواتین کو یہ تمام حقوق دیے جا
سکیں ہم میں سے بیشتر اس مغالطے کا شکار ہے کہ خواتین کے ساتھ مارپیٹ
بدسلوکی یا زیادتی ہی تشدد ہے۔ جبکہ جدید تعریف کی رو سے جو اقوام متحدہ کی
متعین کردہ ہے کسی بھی بنیادی حق کو زبردستی سلب کرنا تشدد کے زمرے میں آتا
ہے گھر گھریلو تشدد کی ایک عام شکل زبردستی کی شادی ہے دیہی یا قبائلی
معاشرے میں لوگ اپنی بیٹی یا بہن کی شادی طے کرتے وقت اس کی مرضی معلوم
کرنے کا تکلف نہیں کرتے بلکہ اس پر اپنی مرضی تھو پتے ہیں یہ امر ا اسلامی
تعلیمات کے منافی ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کنواری
لڑکی کی شادی نہ کرو جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے اور بیوہ کی شادی نہ کرو
جب تک اس سے مشورہ نہ کر لو گویا وہ شادی بہترین شادی میں شمار ہو گی جو
والدین یا ولی کی رضامندی اور لڑکی کی مرضی کے مطابق کی جائے حالیہ برسوں
میں جہاں گھریلو تشدد کے واقعات تیزی سے بڑھے ہیں وہی ملازمت پیش خواتین کے
جنسی استحصال اور کام کی جگہوں پر ہراسانی کے واقعات بھی ایک بڑا مسئلہ بن
گئے ہیںپاکستان کے دہی اور قبائلی علاقوں میں خواتین کو عقیق مدرسہ زنی کا
تعلق قدامت پرستی مذہب کی پابندی اور رسم و رواج سے جوڑا جاتا ہے لیکن اس
کا گہرا تعلق غربت اور جہالت سے بھی ہے جیسا کہ برطانوی نشریاتی ادارے کو
خیبرپختونخوا کی طالبہ نے بتایا کہ مرتبہ کی ناکامیاں پریشانی کا سارا غصہ
عورتوں پر نکالتے ہیں اس اس خالصتان نفسیاتی مسئلہ کا تعلق مالی پریشانی
اور سماجی عدم توازن سے ہے غربت اور جہالت میں گرا ہوا شخص اپنے رویے میں
بہتری نہیں لا سکتا جبتک اسے مالی آسودگی حاصل نہ ہو اپنی محرومیوں کو
معاشرے پر نکالنے کے بجائے گھر میں موجود اس کمزور ہستی پر اتارے گا اسے
عورت کہا جاتا ہے -
سب سے اہم یہ بھی ہے کہ خود خواتین اس کے خلاف جدوجہد میں حصہ لی خواتین کی
تنظیم ظلم و ناانصافی کے خلاف رائے عامہ کو پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
خواتین کو چاہئے کہ وہ تشدد پر خاموش نہ رہیں ۔تشدد سے محفوظ رہنے کے طریقے
سیکھیں ۔اگر کوئی ہراساں کرتا ہے تو ڈٹ کا مقابلہ کریں دنیا صرف مردوں کی
نہیں خواتین بھی نصف سے زیادہ ہے تو ان کا حق بھی نصف سے زیادہ ہونا چاہیے
۔ سدرہ حنیف انصاری
|