کولاچی سے کراچی تک

شہر کراچی کی قدامت کے حوالے سے محققین اور مورخین کبھی ایک نہ ہو سکے کچھ مورخین کا کہنا یہ ہے کہ شہر کراچی کا آغاز 1729 میں بھوجو مل نامی تاجر نے کیا تو کچھ کا ماننا یہ ہے کہ یہ شہر مائی کولاچی کا شہر ہے جبکہ بعض مورخین اسے پتھر تانبے اور کانسی دور سے بھی جوڑتے ہیں مگر بات کچھ بھی ہو تمام کا یہ ماننا ہے کہ یہ شہر انتہائی قدیم شہر ہے جس کا آغاز منوڑہ کے جزیرے سے ہوا لیکن ان محققین اور مورخین میں سے بہت کم نے کراچی سے جڑے مضافاتی علاقوں لانڈھی ،کورنگی،گزری اور ملیر پر روشنی ڈالی ہے جس کی وجہ سے آج بھی ان علاقوں کی قدامت آنکھوں سے اوجھل ہے ۔اب جہاں تک کراچی یا کولاچی کی قدامت کا تعلق ہے تو قومی شاہراہ کے ساتھ آباد ملیر کو اس سلسلے میں خصوصی اہمیت حامل ہے یوں تو ملیر سندھی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہی ہر یالی اور خوشحالی کے ہیں اور عملی طور پر بھی یہ علاقہ ہمیشہ سر سبز و شاداب رہا ہے جہاں گنگناتی ندی کے ساتھ ساتھ لہلاتی فصل اور پھلوں کے باغات ہیں اور اسی وجہ سے اس کی آب و ہوا ماضی میں انتہائی معتدل تھی اسی حوالے سے اس وقت کے ہندو بیو پاریوں نے اپنے رہنے کے لئے بڑی بڑی کوٹھیاں بنا رکھی تھیں جن میں کیا مل بلڈنگ ،دولت رام بلڈنگ ،رام بازی بلڈنگ ،گروگل پاٹھ شالہ اور شانتی کٹی جیسی عمارتیں شامل ہیں ہندؤں نے اس علاقے میں مندر اور پارسیوں نے صحت گاہیں قائم کر رکھی تھیں جہاں ہر قسم کے پھلوں پھولوں کے درخت پائے جاتے تھے جبکہ اس کے چاروں طرف لہلہاتی فصلیں دیکھنے میں بھلی معلوم ہوتی تھیں ۔وا دی ملیر میں موجود قدیم کوٹھیاں ،مندرو دیگر قدیم مقامات اس کی قدامت بتانے کے لئے کافی نہیں کیونکہ مورخین اسے موہن جودڑو اور ہڑپہ کا ہم اثر قرار دیتے ہیں جبکہ محکمہ آثار قدیمہ جوکہ قیام پاکستان سے قبل ہی قائم تھا نے یہاں جب مختصر علاقوں کی صرف 18 فٹ کھدائی کی تو انہیں وادی ملیر کے علاقے نل بازار ،ای لانوں اور تھانہ بولا خان اور ڈملوٹی کے گردونواح سے 3 سے زیادہ اجڑی بستیوں کے آثار ملے یہاں سے پتھر کے اوزار ،ٹھیکریاں ،برتن کے ٹکرے یہاں تک کے ہڑپہ کے جانوروں کے نشانات اور رسم الخط کے آثار بھی دریافت ہوئے جس سے اس وادی کی قدامت کا کم از کم 5000سال پرانی بیان کی گئی ہے جو کہ آج بھی قومی عجائب گھر کراچی میں محفوظ ہیں ۔یہ وہی قدیم وادی ملیر ہے جس کے حوالے سے بعض مورخین اسے ماروی سے بھی جوڑتے ہیں اور حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی بھی اسے ماروی کے وطن سے جوڑتے ہیں انہیں مورخین میں سے بعض کا کہنا یہ بھی ہے کہ سسی نے ملیر ندی عبور کر تے ہوئے ملیر کو یہ بد دعا دی تھی کہ تو ہمیشہ سر سبز رہے گا مگر کبھی سیر نہ ہو گا اب اس بات میں کتنی صداقت ہے اور آیا کہ یہ وہی ملیر ہے اس کے بارے میں کوئی ٹھوس شواہد نہیں لیکن اکثر و بیشتر اسے درست خیال کر تے ہیں بعض قدیم سیاحوں نے اپنی تصانیف میں اسے دریائے ملیر لکھا ہے اور انہیں میں سے کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملے کے وقت اسی علاقے میں دریا کنارے قیام کیا تھا ۔ اس شہر میں ملیر جیسی مضافاتی بستیاں بھی موجود ہیں جن کی قدامت ہزاروں برس پرانی ہے نیز یہ وہی بستی ہے جو کہ زمانہ قدیم سے لے کرآج تک پورے شہر کو سبزیاں ،پھل فراہم کر تی ہے جس کے لئے اس علاقے کا جتنا بھی احسان مند ہوا جائے وہ کم ہے اس علاقے کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس نے 80 فٹ 10کنووں کے ذریعے صدیوں قبل 19میل لوہے کی بچھائی گئی پائپ لائنوں کے ذریعے اس شہر کو پانی فراہم کیا ابتداء میں ڈملوٹی کنویں کے ذریعے اہل شہر کو 3ملین گیلن پانی جبکہ 1945میں 10.5ملین گیلن پانی فراہم کیا اور آج بھی ڈملوٹی کنویں کی یہ نشانیاں باقی ہے ۔ملیر کا یہ علاقہ جو کہ ماضی میں انتہائی پر فضا مقام رکھتا تھا جہاں دور دور سے لوگ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے آیا کر تے تھے وہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی قیام پاکستان سے قبل اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ ڈملوٹی بنگلے میں جو آج بھی خستہ حالت میں موجود ہے میں نا صرف قیام کیا کر تے تھے بلکہ بعض بزرگوں کا یہ دعوی ہے کہ وہ اسی بنگلے میں بیٹھ کر نا صرف سیاسی امورنمٹاتے تھے بلکہ غالبا یہ وہی ریسٹ ہاؤس تھا جس سے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ بھی تقسیم کئے تھے اب جہاں تک قدیم ترین ڈملوٹی کنویں کی بات ہے تو یہ شہر کراچی کے پینے کے پانی کا واحد ذریعہ تھے کیونکہ ان کنووں سے پہلے شہر کراچی جہاں پینے کے پانی کا مسئلہ ہمیشہ در پیش رہا انگریزوں نے کبھی لیاری ندی کے نزدیک پانی کے کنویں کھود کر قلت آب دور کر نے کی کوشش کی تو کبھی شہر میں پانی کے 5چشمے جو کہ اچل سنگھ ایڈوانی پارک ،حضرت عالم شاہ بخاری ،رام باغ ،رتن تلاؤ ،لارنس روڈ کے قریب مو جود تھے سے شہر میں پانی کی قلت کو دور کر نے کی کو شش کی مگر پھر بھی شہر پیاسے کا پیاسا رہا اس وقت کیونکہ شہر کی آبادی 22000نفوس پر مشتمل تھی اور 1865تک پانی کی قلت سنگین صورتحال اختیار کر چکی تھی انگریز فوجیوں جنہوں نے ان چشموں اور کنووں کا پانی پینے سے انکار کر دیا تھا جس کی بنیاد پر 3روپے کے معاوضے پرگدھے پر لاد کر ان کے لئے کوٹھری سے پانی لایا جاتا تھا جو کہ انتہائی مہنگا پڑ رہا تھا جسے دیکھتے ہوئے تاجروں کی مالی اعانت سے 1883میں 10گہرے کنویں کھداوائے گئے جن کی گہرائی 80 فٹ سے زیادہ تھی اسی کے ساتھ ایک پانی کاوسیع ٹینک بھی بنایا گیا اور 19 میل لمبی لوہے کی لائن شہر تک بچھا کر پانی کی سپلائی شروع کی گئی اور پھر 60سالوں تک اہل کراچی انہیں ڈملوٹی کنووں کا پانی پیتے رہے جبکہ ملیر کے گوٹھوں میں اسی پانی کی مدد سے سبزیاں اور پھل اگائے جانے لگے۔ ملیر جس کے معنی ہی ہریالی کے ہیں ڈملوٹی کنویں کے علاوہ یہاں آج بھی حیات محمد جوکھیو گوٹھ جیسے قدیم گوٹھ موجود ہیں جس کے بارے میں محقیقین کا کہنا یہ ہے کہ اس گوٹھ کے نیچے بازار کے آثار موجود ہیں جبکہ اﷲ ڈنو اور نل بازار کے قریب واقع ٹیلے کے نیچے آج بھی اس مہذب قوم کے مکانات کے آثار موجود ہیں جنہوں نے پتھر ،کچی اینٹوں اور مٹی کے لونڈوں سے اپنے مکانات بنائے تھے یہ وہی جگہ ہے جہاں 1973-1974میں انگریز ماہر آثار قدیمہ کو کھدائی کے دوران 730 پتھر کے اوزار و دیگر سامان کے علاوہ تندور ،پانی کو زخیرہ کر نے کے لئے بڑے بڑے مٹی کے برتن کے علاوہ سونے کے زیورات بھی ملے تھے جو کہ آج بھی قومی عجائب گھر اور کراچی یونیورسٹی کے میوزیم میں محفوظ ہے مگر وہ ماہرین آثار قدیمہ جنہوں نے ملیر کے علاقے سے موہن جودڑو اور ہڑپہ جیسے آثار دریافت کئے تھے ملک کیخلاف سازشوں میں مصروف تھے لہذا انہیں حکومت نے نا پسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کر دیا تھا ۔ناظرین اس وقت ہم جس جگہ پر کھڑے ہیں گو کہ اب یہ واٹر بورڈ کی تحویل میں ہے مگر ماضی میں ملیر کے پر فضا مقام ہونے کے پیش نظر یہاں باقاعدہ طور پر ایک ریسٹ ہاؤس قائم تھا یہ وہی ریسٹ ہاؤس ہے جہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے بیماری کے ایام میں ڈاکٹروں کے مشورے پر اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ قیام پاکستان سے قبل کئی ماہ تک یہاں قیام کیا وہ یہاں بیٹھ کر نا صرف قیام پاکستان کے حوالے سے ہونے والی جدوجہد کو دیکھتے تھے بلکہ انہوں نے اسی مقام سے مسلم لیگ میں ہونے والے علاقائی انتخابات کے لئے ٹکٹ بھی تقسیم کئے تھے اور ملیر کا پہلا صدارتی ٹکٹ پیر غلام مرتضی سرہندی ،عبدالکریم ،وڈیرہ میر محمد ،وڈیرہ نظام الدین ودیگر میں ٹکٹ بھی تقسیم کئے تھے اور ہونے والے انتخابات میں ان تمام افراد نے کامیابی بھی حاصل کی تھی ۔ملیر نے جہاں اس شہر کو سبزیاں پھل کھلانے کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی سے بھی سیراب کیا اسی ملئر میں رائل برٹش گورمنٹ نے 11 اکتوبر1941میں پی او ڈبلیو کیمپ بھی قائم کیا اور یہاں باقاعدہ طور پر فوجی چھاؤنی بھی تعمیر کی گئی جہاں سے انگریز فوجیوں نے دوسری جنگ عظیم میں بھی حصہ لیا اور اس کے بعد آج یہی ملیر چھاؤنی ہماری افواج پاکستان کے زیر استعمال ہے اوصاف نے جب اپنی تحقیقی فیچر کے حوالے سے جوکھیو گوٹھ ملیر کے سربراہ ابراہیم جوکھیو سے گفتگو کی تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ملیر کے گوٹھ انتہائی قدیم ہیں یہاں سے موہن جودڑو اور ہڑپہ دور کے آثار بر آمد ہوئے مگر نا معلوم وجوہات کی بناء پر اچانک تحقیقی کام کو روک دیا گیا جس کی وجہ سے ملیر کا یہ علاقہ جو کہ اپنی قدامت کے اعتبار سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کر سکتا تھا وہ شہرت حاصل نہیں کر سکا جو ان کا خاصہ تھا ضرورت اس بات کی ہے ایک بار پھر ملیر کے قدیم علاقوں کی تحقیق شروع کی جائے تاکہ قدیم ملیر کو اس کا اصل مقام مل سکے ۔

Ramsha Urooj
About the Author: Ramsha Urooj Read More Articles by Ramsha Urooj: 5 Articles with 5512 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.